خلیل العلماء حضرت مفتی محمد خلیل خاں خلیل برکاتی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

دیارِ طیبہ میں مرنے کی آرزو ہے حضورﷺ

شان حضورﷺ

دیارِ طیبہ میں مرنے کی آرزو ہے حضورﷺ
یہی ہے متن یہی شرح گفتگو ہے حضورﷺ
ہنوز دل میں مرے دل کی آرزو ہے حضورﷺ
یہ میں ہوں اور یہ مرا شیشہ سُبو ہے حضورﷺ
بس اک اشارۂ ابرو سے بات بنتی ہے
وگرنہ خطرے میں امت کی آبرو ہے حضورﷺ
گناہگار کی عصیاں پناہیوں پہ نہ جائیں
کہ عفو و جود و سخا آپ کی تو خُو ہے حضورﷺ
نگاہِ لطف سے بس اب تو شاد کام کریں
کہ بے قرار مری طبع بادہ جو ہے حضورﷺ
دوام وصل الہٰی سے یہ ہوا ثابت
مقام آپ کا قُرب رگِ گلو ہے حضورﷺ
خدا کے واسطے جلووں سے سرفراز کریں
مجھے تجلئ ایمن کی آرزو ہے حضورﷺ
خدا کرے اسی حالت میں موت آجائے
شبیہ آپ کی سجدے میں روبرو ہے حضورﷺ
رگِ گلو کے قریں آکے گم ہوا ہے کہیں
خلیؔل زار کو منزل کی جستجو ہے حضورﷺ

...

چھیڑوں جو ذکر شاہِ زماںﷺ جھوم جھوم کر

جھوم جھوم کر

چھیڑوں جو ذکر شاہِ زماںﷺ جھوم جھوم کر
چومیں ملائکہ یہ زباں جھوم جھوم کر
اللہ لالہ زارِ مدینے کی نزہتیں
قربان ہے بہارِ جناں جھوم جھوم کر
ذکرِ جناں پہ طیبہ نگاہوں میں پھر گیا
پہنچی نظر کہاں سے کہاں جھوم جھوم کر
جلوے جو ان کی نعل مقدس کے عام ہوں
سوئے زمیں فلک ہو رواں جھوم جھوم کر
چٹکی جو یادِ زلفِ نبیﷺ میں کہیں کلی
مہکی فضائے عطر فشاں جھوم جھوم کر
کل دیکھنا کہ اُن کے گنہگار کی طرف
رحمت بڑھے گی سایہ کناں جھوم جھوم کر
ان کے تصورات میں ہم جب بھی کھوگئے
آیا سُرورِ کون و مکاں جھوم جھوم کر
میں بارگاہ قرب میں بڑھتا چلا گیا
کہتا رہا جو اچھے ۱؎ میاں جھوم جھوم کر
ہوتا ہے ذکرِ لذتِ کوثر جہاں خلیؔل
پیتے ہیں بادہ نوش وہاں جھوم جھوم کر
۱؎ تاج العارفین حضور آل سید اچھے میاں مارھروی﷫

...

کھینچتا ہے دل کو پھر شوق گلستانِ رسولﷺ

یارسولﷺ

کھینچتا ہے دل کو پھر شوق گلستانِ رسولﷺ
بار بار آتا ہے لب پہ نام ایوانِ رسولﷺ
کب سے آہیں بھر رہے ہیں بیقرانِ رسولﷺ
اب نہیں اٹھتا ہے یارب درد ہجرانِ رسولﷺ
دیکھ کر پھولوں کی مستی وجد لاتے جائیے
سیر ہو کر کیجئے سیر گلستانِ رسولﷺ
بیقرارئ دروں میں کاش رخنے ڈالدیں
سینۂ و دل کو نوازیں آکے مژگانِ رسولﷺ
غنچہ و گل میں اُلجھ کر رہ گئے ہم جیتے جی
بند ہوئیں آنکھیں تو دیکھا روئے تابانِ رسولﷺ
پر بچھاتے ہیں ملائک آج یہ کس شوق میں
حشر میں آنے کو ہیں کیا بےقرارنِ رسولﷺ
مغفرت برسانے والا ابرِ رحمت چھاگیا
لو گنہگارو کھلی وہ زلف پیچانِ رسولﷺ
جیتے جی گلزار ہستی کی بہاریں دیکھ لوں
میرے مدفن میں میسر ہو جو بستانِ رسولﷺ
حشر میں جاکر پئیں گے ساغرِ کوثر خلیؔل
لے کے مرتے ہیں جو اپنے دل میں ارمانِ رسولﷺ

...

خلد میں لاؤں کہاں سے تجھکو گلزارِ حرم

حرم مصطفیٰﷺ

خلد میں لاؤں کہاں سے تجھکو گلزارِ حرم
آہ اے ولولۂ گل و خارِ حرم
اللہ اللہ یہ ہے رفعتِ دربارِ حرم
کہ ہیں جبریل امیں تابع سرکارِ حرم
یاد کوثر میں تڑپتے ہیں بلانوش ترے
ساقیا اب تو پلادے مئے گلنارِ حرم
سچ تو یہ ہے کہ وہ آغوشِ کرم میں پہنچا
جسکو آغوش میں لے سایۂ دیوارِ حرم
لذت آبلہ پائی کو بڑھا دیتے ہیں
مرہمِ زخمِ جگر سے ہیں سوا خارِ حرم
سارے سامان ہیں عشاق کی تسکیں کے لئے
ہے ارم میں بھی وہی رونق بازارِ حرم
زاہدا جوشِ جنوں خیر سے لایا ہے یہاں
اب کہاں چھوڑ کے جائیں در و دیوارِ حرم
تو نے جی بھر کے زیارت کے مزے لوٹے ہیں
آتجھے دل میں بساؤں سگِ زوّار حرم
کُنجِ مرقد میں ترے دم سے چراغاں ہوگا
مرحبا گریۂ تنہائی بیمارِ حرم
آبرو پائی سگِ طیبہ کے صدقہ میں خلیؔل
ہے بڑی چیز قدمبوسئ زوّارِ حرم

...

نہ کیوں والنجم برلب گل کھلیں گلزارِ مکاں میں

باغِ مدینہ

نہ کیوں والنجم برلب گل کھلیں گلزارِ مکاں میں
کہ ہے واللیؔل جلوہ ریزان کے سنبلستان میں
کچھ ایسا مست و بےخود ہوں خیال کوئے جاناں میں
کہ رکھ چھوڑا ہے گلدستہ ارم کا طاقِ نسیاں میں
لگادی آگ بڑھ کر زندگی کے جیب و داماں میں
جنوں کو ہوش گر آیا تو آیا کوئے جاناں میں
زمانہ کیا دوعالم بھی سماسکتے ہیں انساں میں
کچھ ایسی وسعتیں ہیں اک دلِ مردِ مسلماں میں
ہوائے غیرتِ حق خاکِ ہستی بھی اڑا دے گی
قدم رکھا خرد نے گر کسی کے باغِ عرفاں میں
وہ کی ہے ضوفشانی جلوۂ رخسارِ جاناں نے
پڑی ہے صبح محشر منہ لپیٹے اپنے داماں میں
یہ کس نے گد گدایا ہے نسیم خلد کو یارب
کہ اب تک رقص کرتی ہے مدینے کے گلستاں میں
بتا اے آرزوئے دل کدھر کا قصد رکھتی ہے
کہ طیبہ میری نظروں میں ہے جنت میرے داماں میں
خلیؔل اس در پہ مٹ جاؤ سکونِ زیست کی خاطر
غنیمت ہیں جو دن باقی رہے عمر گریزاں میں

...

الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں

دربارِ معالی

الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں
تو اک سجدہ کروں ایسا کہ آپے سے گزر جاؤں
نجاتِ آخرت کا اس قدر ساماں کر جاؤں
کہ طیبہ جاکے اک سجدہ کروں سجدے میں مرجاؤں
مدینے جانے والے سر کے بل جاتے ہیں جانے دو
مرے قسمت میں جو جانا تو بارنگِ دِگر جاؤں
اڑادوں سب سے پہلے طائر جاں اس طرف اپنا
سہارے سے اسی طائر کے پھر بے بال و پر جاؤں
کبھی روضے سے منبر تک کبھی منبر سے روضے تک
اِدھر جاؤں اُدھر جاؤں اسی حالت میں مرجاؤں
سگانِ کوچۂ دلدار کی پیہم بلائیں لوں
تماشا بن کے رہ جاؤں مدینے میں جدھر جاؤں
میں کچھ درِّ شفاعت لیکے لوٹوں چشمِ رحمت کے
جو دربارِ معالی میں کبھی باچشمِ تر جاؤں
تمہارے نام لیوا بےخطر جاتے ہیں محشر میں
اشارہ ہو اگر مجھکو تو میں بھی بے خطر جاؤں
توجہ ان کرم پرور نگاہوں کی جو ہوجائے
مرا ایماں سنور جائے میں ایماں سے سنور جاؤں
سمجھ کر کوچۂ جاناں میں جنت میں چلا آیا
کوئے جاناں تو طیبہ ہے میں جاؤں تو کدھر جاؤں
خلیؔل اب زاد راہِ آخرت کی سعی احسن میں
مدینے سر کے بل جاؤں وہاں پہنچوں تو مرجاؤں

...

آتشِ فرقتِ حضرت کو بجھاتے جائیں

آرزوئے  مدینہ

’’سفرِ مدینہ طیبہ کی آرزو میں‘‘

آتشِ فرقتِ حضرت کو بجھاتے جائیں
دھجیاں جیب و گریباں کی اڑاتے جائیں
گاہ بہلاتے ہوئے جائیں دلِ مضطر کو
بیقراری میں کبھی آگ لگاتے جائیں
اپنی قسمت کی رسائی پہ کبھی ناز کریں
اپنی حالت پہ کبھی اشک بہاتے جائیں
قطع منزل پہ جو وحشت کبھی آڑے آئے
قصہ ہائے قرنی گا کے سناتے جائیں
چھانٹتے جائیں ہجوم غم عصیاں دل سے
اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بناتے جائیں
سر کو بھی روکے رہیں جب ہوں مدینہ کے قریب
دل کو آدابِ زیارت بھی سکھاتے جائیں
شامِ غربت میں جو گھبرائے دلِ زار خلیؔل
صبح امید کے آثار بھی پاتے جائیں

...

کچھ حقیقت بھی بتا جلوۂ جاناں ہم کو

صبح مدینہ

کچھ حقیقت بھی بتا جلوۂ جاناں ہم کو
لوگ کہتے ہیں ملا طور کا میداں ہم کو
ہجر مولیٰ کی نہیں تاب یہاں بھی رضواں
خلد میں چاہئے چھوٹا سا بیابان ہم کو
سر میں سودا ہے تو دل میں ہے تمنا ان کی
چشمِ بددور کہ کافی ہے یہ ساماں ہم کو
اللہ اللہ کہ ساحل کی ہے خود اس کو تلاش
اپنے دامن میں لئے پھرتا طوفاں ہم کو
خیر سے ہم بھی ہیں وابستۂ دامانِ کرم
دیکھ آنکھیں نہ دکھا جوشش عصیاں ہم کو
شادئ وصل کی تمہید ہے ہجرانِ نبی
جان بھی جائے تو سودا ہے یہ ارزاں ہم کو
راہِ پرخار میں تنہا ہوں کٹھن ہے منزل
خضرِ رہ بخشئے اک گوشۂ داماں ہم کو
جلوۂ طور سے ہے وادئ سینا معمور
اُن کے جلووں نے کیا چشمِ چراغاں ہم کو
بات بگڑی ہوئی بن جائے خطا کوشوں کی
دیکھے گر چشمِ کرم اشک بداماں ہم کو
للہ الحمد وہ سرکار سے نسبت ہے ہمیں
خلد دے دیں جو ملے انکا بیاباں ہم کو
بے سبب صبح مدینہ کا نہیں پیار خلیؔل
راس آئی ہے مگر شام غریباں ہم کو

...

جوشِ وحشت نے کیا باد یہ پیما مجھکو

بہار طیبہ

جوشِ وحشت نے کیا باد یہ پیما مجھکو
خلد سے لائی ہے طیبہ کی تمنا مجھکو
دیکھ لوں آپ نے کس لطف سے دیکھا مجھکو
ہوش رہ جائے دم نزع بس اتنا مجھکو
اپنے پیاروں کے غلاموں میں جو پایا مجھکو
چشم حق بیں نے بڑے پیار سے دیکھا مجھکو
اللہ اللہ مری چشم تصور کا کمال
کالے کوسوں سے نظر آتا ہے طیبا مجھکو
باندھ رکھے ہیں مرے جوشش حیرت نے قدم
کھینچ لے چل دلِ مشتاق مدینا مجھکو
کانٹے چن چن کے سیوں چاک گریباں اپنا
راہ طیبہ میں رہے ہوش بس اتنا مجھکو
میں نہیں کہتا کہ کچھ ہوش رہے ہاں نہ رہے
سنگِ در پر ترے درکار ہے سجدا مجھکو
آپ کے ہوتے نہیں کوئی تمنا واللہ
مل گئے آپ تو بس مل گئی دنیا مجھکو
میں نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن
کون پوچھے گا جو تم دو گے نکالا مجھکو
کوئے طیبہ سے تو لے چلنے کی ضد ہے ناصح
کس کو روؤنگا اگر خلد نہ بھایا مجھکو
میں تو سمجھا تھا کہ عصیاں مرے لے ڈوبینگے
رحمتِ حق نے مگر ڈھونڈ نکالا مجھ کو
غوث اعظم، ہے خلیؔل آپ کے در کا منگتا
اب تو دے دیجئے آقا کوئی ٹکڑا مجھکو

...

کھنچا جاتا ہے دل سوئے حرم پوشیدہ پوشیدہ

خندیدہ خندیدہ

کھنچا جاتا ہے دل سوئے حرم پوشیدہ پوشیدہ
تصور میں قدم بڑھنے لگے لغزیدہ لغزیدہ
دلِ بیتاب ہے اب کس لئے زاریدہ زاریدہ
سلام شوق کو جاتا تو ہے طلبیدہ طلبیدہ
وہ شیرینی ہے نام پاک کے میم مشدّد میں
کہ رہ جاتے ہیں دونوں لب بہم چسپیدہ چسپیدہ
حقیقت کیا مگر، فرش بیاضِ دیدہ کی غافل
ملائک پر بچھاتے ہیں یہاں لرزیدہ لرزیدہ
وہ جس کی جستجو میں عرش اعظم بھی ہے سرگرداں
اسے ٹوٹے دلوں نے پالیا پوشیدہ پوشیدہ
لبِ اعجاز حضرت کی ہیں گویا دونوں تصویریں
تبسّم ریز یہ کلیاں وہ گل خندیدہ خندیدہ
وہ اٹھی دیکھئے گرد سواری شاہِ اسریٰ کی
چلی بادِ سحر مشکِ ختن سائیدہ سائیدہ
تعاٰلَی اللہ یہ پاس خاطرِ عشاق ہے ان کو
ہے تن پر خلعتِ شاہنشہی بوسیدہ بوسیدہ
وہ میرے ساقئی کوثر نے کھولا بابِ میخانہ
اٹھا وہ طیبہ سے ابر کرم باریدہ باریدہ
شب اسریٰ کے دولھا کی ضیا پاشی کا صدقہ ہے
کہ ہیں شام و سحر شمس و قمر رخشیدہ رخشیدہ
نہ ہوں کیوں کیف آور نزہتیں فردوس اعلیٰ کی
اڑا لائی ہے طیبہ سے صبا دُزدیدہ دُزدیدہ
کریں گی ظلمت عصیاں سے نورِ مغفرت پیدا
یہ پلکیں آپ کی شام و سحر نمدیدہ نمدیدہ
یہی دیوانگی فرزانگی کا رنگ لائیگی
مدینے جائیگی میت مری رقصیدہ رقصیدہ
یہ ہے شاہ و گدا پر فیض تعلیم نبوت کا
کہ رہتے ہیں ایاز و غزنوی گرویدہ گرویدہ
خلیؔل زار کو دیکھا تو ہوگا طیبہ میں ہمدم
پڑا رہتا ہے دیوانہ سا کچھ سنجیدہ سنجیدہ

...