خلیل العلماء حضرت مفتی محمد خلیل خاں خلیل برکاتی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر

درِشاہِ قاسم پہ آئی ہے گاگر

برموقعہ عرس شریف قاسمی ۱۳۶۸؁ ھ

در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر
پیامِ دل افروز لائی ہے گاگر
سمن یا سمن میں بسائی ہے گاگر
صبا جا کے طیبہ سے لائی ہے گاگر
تو اک تحفۂ مصطفائی ہے گاگر
جواہر عقیدت کے اس پر لٹاؤ
اباطیل بدعت یہاں سے ہٹاؤ
محبت سے لے کر بڑھو اور بڑھاؤ
تقدس کے ساغر پیو اور پلاؤ
کہ پروانۂ پارسائی ہے گاگر
مٹیں کلفتیں جس سے روح و بدن کی
چھٹیں ظلمتیں جس سے رنج و محن کی
گھٹائیں گھریں رحمتِ ذی المنن کی
ہٹیں بدلیاں دم میں سارے فتن کی
وہ فانوسِ مشکل کشائی ہے گاگر
گلے میں تجمل کے پھولوں کا زیور
جبیں پر تنعم کی کلیوں کا جھومر
غرض ہے منور سر و سینہ و بر
سراسر مُعنبر سراپا معطر
مجسم دلہن بن کے آئی ہے گاگر
طریقہ بتاتی ہے نور و ہدیٰ کا
دکھاتی ہے جلوہ یہ حلم و حیا کا
ادب یہ سکھاتی ہے حق وفا کا
سبق دے رہی ہے یہ صدق و صفا کا
اسی سے تو سر پر اٹھائی ہے گاگر
تعلق اسے ہے دلیرانِ حق سے
علاقہ یہ رکھتی ہے شیرانِ حق سے
اسے رابطہ ہے شہیدانِ حق سے
ہے نِسبت اسے چونکہ یارانِ حق سے
تو اک جلوۂ مرتضائی ہے گاگر
بساتے رہے دل میں ارباب الفت
بچھاتے رہے آنکھیں باصد عقیدت
ذرا دیکھئے تو بلندئ قِسمت
اٹھاتے رہے ہیں جو اہل محبت
تو سُتھروں سے ستھروں میں آئی ہے گاگر
نہ شکوہ کسی کو رہا بے کلی کا
گلہ ہے کسی کو نہ اب بیکسی کا
نہ کیوں مدح خواں ہو مرے شاہ جی کا
کھلا غنچۂ دل ہر اک قاسمی کا
کچھ اس ناز سے مسکرائی ہے گاگر
مقدر کا یہ اوج اللہ اکبر
ہوا جا رہا ہوں میں آپے سے باہر
کہاں کے یہ جام اور کیسے یہ ساغر
نگاہوں میں پھرتی ہے تصویرِ کوثر
نظر میں کچھ ایسی سمائی ہے گاگر
کبھی ان کا روئے منور تکیں گے
کبھی ان کے قدموں سے آنکھیں ملینگے
تڑپتے نہ فرقت میں یوں ہم رہیں گے
مزا شربتِ دید کا بھی چکھیں گے
جو قاسم کی حق نے دکھائی ہے گاگر
یہ وہ ہیں کہ روتے ہوؤں کو ہنسائیں
جو دینے پہ آئیں تو موتی لٹائیں
عجب کیا کہ تیری بھی بگڑی بنائیں
تجھے اصفیا دے رہے ہیں دعائیں
خلیؔل آج تو نے وہ گائی ہے گاگر

...

چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں

کیا میں سہرا کہدوں

قطعہ

چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں
بدلیاں جھومتی آئیں میں وہ سہرا کہدوں
عرش تک نعتِ محمدﷺ کے ترانے گونجیں
حوریں فردوس میں گائیں میں وہ سہرا کہدوں
عطر میں ڈوبی ہوئی آئے نسیم سحری
پھول برسائیں ہوائیں میں وہ سہرا کہدوں
عندلیبانِ چمن بھی مترنم ہوں خلیؔل
قمریاں جھوم کے گائیں میں وہ سہرا کہدوں

...

اللہ غنی کیا خوب ہے یہ پاکیزہ طبیعت سہرے کی

جشن شادی راحت

۱۳۶۸؁ ھ

سہرا بر شادئ مبارک سید حسن میاں صاحب مدظلہٗ

اللہ غنی کیا خوب ہے یہ پاکیزہ طبیعت سہرے کی
تحمیدِ الہٰ تمجید بنی دیرینہ ہے عادت سہرے کی
کہتی ہے عقیدت سے جھک کر یہ فرق ارادت سہرے کی
اب آپ کے ہاتھوں عزّت ہے یا شاہِ رسالتﷺ سہرے کی
ہیں پھول یہ سارے صف بستہ گاتے ہیں جو مدحت سہرے کی
بیجا تو نہ ہوگا کہنا مجھے کلچیں کو رعّیت سہرے کی
یہ زینت و زیب اور یہ تزئیں، یہ ناز و ادا اور یہ تمکیں
برجستہ نکلتی ہے تحسیں، اللہ رے نزہت سہرے کی
گلزارِ مدینہ ہے مسکن، بغداد ہے ان پھولوں کا وطن
پھر فضل الہٰی پر تو فگن، ہے اوج پہ قسمت سہرے کی
ابھرا ہے گلستاں کا جوبن پھولا ہے محبت کا گلشن
شرما بھی رہا ہے مشکِ ختن پھیلی ہے جو نگہت سہرے کی
یہ لطف تبسم غنچوں کا یہ طرز تکلم کلیوں کا!
یہ غمزہ و عشوہ پھولوں کا ہے ساری کرامت سہرے کی
کس ناز و ادا سے اترا کر چمٹا ہے کلیجے سے جاکر
بندھتے ہی جبین نوشہ پر کیا کھل گئی قسمت سہرے کی
کچھ باد صبا اتراتی ہے اور جھومتی گاتی آتی ہے
فردوس بریں یاد آتی ہے دیکھی ہے جو رنگت سہرے کی
یہ بزم فلک کے سیارے یہ اختر و انجم مہ پارے
ٹوٹے ہیں عقیدت کے مارے کرنے کو زیارت سہرے کی
یہ ناز و نعم گو ناگوں ہو، یہ عیش و طرب دو نادوں ہو
اللہ کرے روز افزوں ہو یہ شوکت و رفعت سہرے کی
اے شاہ مدینہ شاہِ زمن از بہر حسیؔن از بہرِ حسؔن
شاداں رہیں دولہا اور دلہن دن دونی ہو عزّت سہرے کی
اے طبع خلیؔل فیض رقم یہ جوش بیاں یہ زور قلم
کھائے گی تری شوخی کی قسم تا عمر لطافت سہرے کی

...

پیامِ مرگ ہوا ناز دوستاں نہ ہوا

غزلیات

نگاہ ستمگراں

پیامِ مرگ ہوا ناز دوستاں نہ ہوا
کسی کی موت ہوئی غمزۂ بتاں نہ ہوا
ضرور بزم تصور میں کوئی آتا ہے
مگر مجھے تو تمہارا کبھی گمان نہ ہوا
ہجومِ یاس نے رسوا کہاں کہاں نہ کیا
مری امیدوں کا ماتم کہاں کہاں نہ ہوا
تھا بادباں تو رہا ناخُدا مرا دشمن
جو ناخدا کو ترس آیا بادباں نہ ہوا
نہیں عجب کہ دمِ واپسیں وہ آپہنچے
عجب تو یہ ہے کوئی امر ناگہاں نہ ہوا
ہمارے اشک کی یہ مختصر کہانی ہے
کہ دل سے آنکھ میں آیا مگر رواں نہ ہوا
وہ میرے دستِ جنوں کی نقاہتیں توبہ
کہ چاک تھا جو گریباں وہ دھجیاں نہ ہوا
خلیؔل کہنے کو کیا کیا نہ تو ہوا لیکن
ادا شناسِ نگاہِ ستمگراں نہ ہوا

...

آتے ہیں مجھے یاد پھر ایامِ محبت

جامِ محبت

آتے ہیں مجھے یاد پھر ایامِ محبت
وہ صبح محبت وہ مری شامِ محبت
دینا ہے تو دید و کوئی دشنامِ محبت
دل ہو بھی چکا خوگرِ آلامِ محبت
اے دل یہ تری جرأت اقدام محبت
تو اور ہوسِ لذّت دشنامِ محبت
اٹھی ہیں کسی شاہد رعنا کی نگاہیں
روشن ہیں جو دیوار و در و بامِ محبت
خود کعبۂ عشاق بڑھے بہرِ زیارت
باندھے ہوئے نکلا ہوں میں احرامِ محبت
آسودۂ محفل ہیں وہ سمجھیں گے بھلا کیا
کس طرح گزرتی ہے مری شامِ محبت
اے دوست محبت کی حقیقت بھی ہے کوئی
دیتے ہیں مجھے لوگ جو الزامِ محبت
اب پوچھ رہے ہو کہ یہ تھا کشتۂ غم کون
باقی ہے کوئی اور بھی دشنامِ محبت
آنکھوں میں نمی ہے تو یہ دل بہہ کے رہے گا
آغاز سے کھل جاتا ہے انجامِ محبت
اللہ مُہَوّس کی نگاہوں سے بچائے
بغداد سے ملتا ہے مجھے جامِ محبت
تو کیا ہے خلیؔل، ان کا مگر یہ بھی کرم ہے
کہتے ہیں تجھے بندۂ بے دامِ محبت

...

دل کا کنول بہار نہ لایا ترے بغیر

ترے بغیر

دل کا کنول بہار نہ لایا ترے بغیر
آیا جو تیری یاد کا جھونکا ترے بغیر
تاروں کی چھاؤں میں بھی نہیں ہے سکوں نصیب
کتنی اداس ہے مری دنیا ترے بغیر
وارفتگی نے بڑھ کے مجھے اور کھودیا
آئی نہ راس کوئی تمنا ترے بغیر
عہد شباب، بزمِ طرب، محفل نشاط
بے کیف ہے یہ سارا تماشا ترے بغیر
آہ و بکا کے ساتھ تبسم نہیں کوئی
مہنگا پڑا نہ نزع کا سودا ترے بغیر
دیوانگی خرد کے مقابل نہ آسکی
یعنی جنوں کو ہوش نہ آیا ترے بغیر
رہ جاتا ہے خلیؔل کلیجہ مسوس کر
چلتا ہے میکدہ میں جو مینا ترے بغیر

...

بھلادیں اگر تم نے میری وفائیں

زاہدانہ ادائیں

بھلادیں اگر تم نے میری وفائیں
تو پھر کون لے گا جفا کی بلائیں
سر عرش پہنچیں جو میری دعائیں
کہاں جائیں گی پھر تمھاری جفائیں
ادائیں پھر ان مہ وشوں کی ادائیں
کہ دل میں رہیں اور آنکھیں چرائیں
نہ ہوجائیں زیر و زبر یہ فضائیں
غضب ہے کہ آپ اور آنسو بہائیں
تصور میں بھی ہم سے دامن بچانا
یہاں بھی وہی زاہدانہ ادائیں
میں روؤں تو لڑیاں جھریں موتیونکی
چمن ہنس پڑیں وہ اگر مسکرائیں
دوبالا ہوا حسن غصّہ سے ان کا
اگر میں نے بھولے سے لے لیں بلائیں
یہ توبہ کی نیر نگیاں اللہ اللہ
مگر توبہ توبہ وہ رنگیں خطائیں
عجب کیا کوئی ان کا پیغام لائے
بڑی خوشگوار آرہی ہیں ہوائیں
بڑھ اے جذبۂ دل منا لائیں ان کو
چل اے شوقِ پیہم انہیں گد گدائیں
شب غم کے ہیں سب یہ آثار یعنی
اتر نے لگیں آسماں سے بلائیں
خلیؔل آدمی کا گزر ہے وہاں بھی
جہاں عقل و وہم و گماں تھر تھرائیں

...

جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں

ہم ہی چلے جاتے ہیں

جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں
خود اپنی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں
کچھ اس طرح سے خیالوں پہ چھائے جاتے ہیں
نظر سے دور ہیں دل میں سمائے جاتے ہیں
خدا کے واسطے کوئی انہیں بھی سمجھاتا
یہ چارہ ساز مری جان کھائے جاتے ہیں
خزاں بہار کے پردے میں آگئی سر پر
چمن میں غنچے مگر مسکرائے جاتے ہیں
یہ کس کے دل کو نشانہ بنایا جاتا ہے
یہ کس کے خون میں پیکاں بجھائے جاتے ہیں
یونہی بھڑکتا رہے گا جو شوقِ نظارہ
تو دل کے زخم ان آنکھو نمیں آئے جاتے ہیں
کبھی نہ ساتھ دیا دلفریب دنیا نے
ہوس شعار مگر تلملائے جاتے ہیں
یہ چارہ سازوں میں سرگوشیاں ہوئیں کیسی
یہ کیوں ملول سب اپنے پرائے جاتے ہیں
جو ہم نہ ہوں گے تو ہوگی نہ ہاؤ ہو یہ خلیؔل
ہمارے دم کی سب ہائے ہائے جاتے ہیں

...

اپنی بگڑی بنا کے پیتا ہوں

دل کی لگی

اپنی بگڑی بنا کے پیتا ہوں
ان سے نظریں ملا کے پیتا ہوں
یار سے لو لگا کے پیتا ہوں
آگ دل کی بجھا کے پیتا ہوں
رحمتِ عام مژدہ دیتی ہے
محتسب کو جتا کے پیتا ہوں
بے خودی پردہ دار ہوتی ہے
ماسوا کو بھلا کے پیتا ہوں
وہ جو ایسے میں یاد آتے ہیں
چار آنسو بہا کے پیتا ہوں
کوثر و سلسبیل کے غم میں
صحنِ مسجد میں جا کے پیتا ہوں
زندگی کو سنوار نے کیلئے
اپنی ہستی مٹا کے پیتا ہوں
اللہ اللہ کمالِ مے نوشی
آنکھوں آنکھوں میں لاکے پیتا ہوں
صدقہ دیتا ہوں پار سائی کا
تھوڑی سی مے گرا کے پیتا ہوں
مجہکو احباب دیں نہ کچھ الزام
’’شیخ جی‘‘ کو دکھا کے پیتا ہوں
ان کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں خلیؔل
گویا ساغر اٹھا کے پیتا ہوں

...