خلیل العلماء حضرت مفتی محمد خلیل خاں خلیل برکاتی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

خیرت میں غرق جلوۂ شام و سحر رہے

طیبہ کا چاند

خیرت میں غرق جلوۂ شام و سحر رہے
طیبہ کا چاند دل میں اگر جلوہ گر رہے
ہاں سوئے روضہ سجدوں کا لے محتسب حساب
ہم محوِ بےخودی ہیں یہ پیشِ نظر رہے
انورِ قربِ روضہ کا ہونے لگا نزول
اے میرے بےخبر ذرا اپنی خبر رہے
حقا کہ پیشوائی کو بڑھتی ہیں رحمتیں
کیوں پھر دعائے نیم شبی بے اثر رہے
اللہ اے ناخدائی امیدِ مغفرت
طوفانِ معصیت میں بھی ہم بے خطر رہے
(مقطع دستیاب نہ ہوا)

...

سنگِ درِ جاناں ہے اور ناصیہ فرسائی

شہِ کوثر

سنگِ درِ جاناں ہے اور ناصیہ فرسائی
یارب میرے سجدوں کی ہوجائے پذیرائی
اُس جلوۂ زیبا کے اللہ رے شیدائی
خود آپ تماشا ہیں خود آپ تماشائی
ہو راہ مدینہ میں یوں باد یہ پیمائی
ہر گام پہ سجدوں کی ہو انجمن آرائی
رہتی ہے نگاہوں میں فردوس کی رعنائی
خاک طیبہ ہے یا سرمۂ بینائی
بخشی ہے مسیحائی تم نے ہی مسیحا کو
تم جانِ مسیحا ہو، تم جانِ مسیحائی
اخلاق و محاسن میں، افضال و محامد میں
خالق نے تمہیں بخشی ہر شان میں یکتائی
بے اُن کے توسط کے، مانگے بھی نہیں ملتا
بے ان کے توسّل کے پرسش ہے نہ شنوائی
ہاں ان کے گداؤں میں، شامل ہیں سلاطیں بھی
ہان ان کے گداؤں پر قربان ہے دارائی
یاد شہِ کوثر میں، دل ہے یوں طرب آگیں
جیسے کہیں بجتی ہو فردوس میں شہنائی
دہلیز پہ روضہ کی نذرانے میں جاں دیدی
اللہ غنی میں اور یہ طُرَّۂ دانائی
رحمت نے خلیؔل ان کے دامن میں اماں بخشی
جب بھی مرے عصیاں نے چاہی مری رسوائی

...

کچھ اوجِ بارگاہ مدینہ کروں رقم

قصیدہ سراپا رسول اکرمﷺ

کچھ اوجِ بارگاہ مدینہ کروں رقم
اے حور شاخ طوبیٰ سے لانا ذرا قلم
اللہ کس قدر ہے یہ دربار محتشمﷺ
بے اذن جبرئیل
بھی رکھتے نہیں قدم
کوئی عجب نہیں ہے کہ ہو روکش ارم
محبوب کا حرم ہے یہ محبوب کا حرم
آنکھیں نہیں، بچھے ہیں یہاں اہلِ دِلکے دل
رکھیں قدم ادب سے سلاطین ذی حَشَم
زاہد حریم کعبہ کی تسلیم حُرمتیں
لیکن رسولِ پاکﷺ سے منسوب وہ حرم
چھایا ہوا فضائے مدینہ یہ ابر ہے
برسے گامے کشوں کے لئے لُکّۂ کرم
میری نظر میں صرف یہی وہ مقام ہے
ملتے ہیں جس مقام سے دنیاؤ دیں بہم
جنّ و بشر کجا، ہیں ملائک نیاز مند
ہر اک بقدرِ ظرف ہے معمورۂ نِعَم
اس آستاں کا فیض ہے ہر ذی نفس پہ عام
اے دل تجھے کہاں، ابھی اندازۂ کرم
اس سرزمیں سے عرشِ بریں کو ہیں نسبتیں
اس سرزمیں کا وادئ ایمن پہ ہے قدم
یہ آستاں ہے قبلہ نما و خدا نما
یہ آستاں ہے کعبۂ ایماں کا مستلم
یہ آستاں ہے باعثِ تخلیق کائنات
مربوط اس آستاں سے ہے ماوشما کا دم
شاہانِ کجکلاہ، گدایانِ بارگاہ
ہیں ان کے خانہ زاد سلاطین زی حشم
دونوں جہاں کے ہیں وہی مخدوم و مقتدیٰ
دونوں جہاں انہیں کے ہیں محکوم و محکم
میں کیا کہ جبرئیل
جو مدح و ثنا کریں
واللہ اُس تمام سے ہیں افضل و اتم
بلکہ تمام دفترِ اوراقِ کائنات
اس کی ثنا میں ایسے جیسے کہ یم سے نم
القصہ دو جہاں میں ہیں مخصوص آپ سے
وہ رفعتیں کہ جنکا نہیں کوئی ہم قدم
موجیں سی اٹھ رہی ہیں سرور و نشاط کی
لہریں سے لے رہا ہے دلِ بے نیازِ غم
توفیق خیر مجھکو جو ربِ قدیر دے
مضموں ہو اُن کے حسنِ سراپا کا مرتسم
تصویر ہے جمال و جلالِ الہٰ کی
یعنی وہ رخ ہے آئینۂ جلوۂ قِدَم
اللہ ان عذاروں کی جلوہ طرازیاں
گوہا ہیں ایک برج میں شمس و قمر بہم
عرشِ بریں پہ پہنچوں اگر سر کا نام لوں
چھیڑوں جو ذکر پا تو سرِ سروراں ہو خم
حیرت میں ہوں کہ گوہر دنداں کو کیا کہوں
کہدوں جو کہکشاں کو دُرَر ہائے منتظم
سینہ ہے طور سینا تو دل مرکزِ جمال
لب مصدرِ فیوض، دہن منبع حِکَم
تبیان ہو جو اُن کے بیان و زبان کا
بے جا نہیں، عرب کو میں کہدوں اگر عجم
جیسے سواد بحر پہ کرنیں ہوں موجزن
یوہیں جبیں پہ جلوہ فگن موجۂ کرم
ترساں ہیں گیر و ترسا، عجب رعب و داب ہے
لرزاں ہیں ان کے نام سے بتخانوں میں صنم
تسنیم و سلسبیل کا صدقہ مجھے بھی دو
کوثر کے شاہ، ساقئی میخانۂ حَرَم
یہ روسیاہیاں نہ کریں روسیاہ مجھے
میرے حضور، دافع کرب و غم و الم
لوٹا ہے مجھکو دردِ غم روزگار نے
توڑا ہے مجھ پہ گردشِ ایام نے ستم
اور اس پہ میری شامتِ اعمال مستزاد
تردامنی کے ساتھ تہی دامنی کا غم
ہر کس متاعِ خویش را دارد بہائے بیش
آں روسیاہ کہ ہیچ میرزد منم منم
بد ہوں مگر میں اچھے ۱؎ میاں کا غلام ہوں
غوث الوریٰ کا صدقہ خدایا کرم کرم
یارب تجھے انہیں کی اداؤں کا واسطہ
یارب تجھے انہیں کی رضا جوئی کی قسم
مولیٰ ہَوں، بے حساب عطایا مجھے عطا
یعنی بقدرِ جرم و خطا ہو ترا کرم
ہو اپنے مرشدوں کے جِلو میں جہاں رضا ۲؎
یعنی جہاں ہو سایہ کناں قادری علم
اور غلغلہ جہاں پہ محمد ۳؎ میاں کا ہو
ہوں خیمہ زن جہاں مرے سرکار کے قدم
فرمائیں مجھ سے شاہِ مدینہ کہ ہاں خلیؔل
محبوب کا حرم ہے یہ محبوب کا حرم
اور میں کروں یہ عرض کہ بندے کی کیا بساط
کچھ شانِ بارگاہِ مدینہ کرے رقم
آئے پسندِ خاطر اقدس مرا کلام
سرکار کا کرم ہے یہ سرکار کا کرم
سن کر مرا قصیدہ یہ فرمائیں شاہِ دیں
تو مستحق ہے خلعتِ فاخَر کا، لاجرم
اتنے میں قدسیوں سے اٹھے شور مرحبا
اور میں کہوں کہ یہ بھی ہے منجملۂ کرم

۱؎ ضیاء الاصفیاء حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی﷜

م ۱۲۳۵ ھج

۲؎ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی ﷜

م ۱۳۴۰ ھ

۳؎ تاج العلما اولاد رسول حضرت سید شاہ محمد میاں قادری مارہروی﷜

م ۱۳۷۵ ھ

...

اے کہ ذاتِ تو تجلی گاہِ نور ایزدی

مدینے والےﷺ کی سرکار میں

’’عرضِ احوال واقعی‘‘

اے کہ ذاتِ تو تجلی گاہِ نور ایزدی
اے بذاتِ تو مزین مسند پیغبری
اے کہ نوری پیکرِ توظل ذاتِ سرمدی
اے بفرقِ پاک تو موزوں کلاہ سروری
اے کہ درشانِ تو وارد رحمۃ للعٰلمین
اے کہ جانِ غمزدہ را صبر و سکیں آمدی
گفتگوئے تست شرحِ مامضٰی وَمَا غَبَر
کیف اندازِ تکلم رشکِ قندِ پارسی
دیگراں را کے سزد شانے کہ تو داری شہا
پایۂ زیرین تو اعلیٰ زبامِ قیصری
طرۂ الفقر فخری تیری شان امتیاز
تیرے ٹھکرائے ہوئے ہیں تاج و تختِ خسروی
تاج والے جبہ فرساہیں تری سرکار میں
موجب جاہ و حِشم ہے کفش برداری تری
تیری تابش سے منور ہیں زمیں و آسماں
تیرے ذروں سے درخشاں گنبد نیلو فری
ہے وجود پاک تیرا رونق بزم جہاں
تیرے باعث گلستانِ دہر میں ہے تازگی
غلغلہ ہے آج تک بزم ملائک میں ترا
آج تک ہے محوِ استعجاب چرخِ چنبری
تیرے قدموں سے ہے وابستہ بہارِ کائنات
منتسب ہے تیرے دامن سے نشاط زندگی
یا انیس الھالکینَ التفاتے سوئے ما
یا مُراد العاشیقن یک نگاہِ دلدہی
یا شفیعَ المذنبینَ جرم مارادر گزار
رحمتہً للعٰلمینَ ملجا و ماویٰ توئی
خیزکہ افواجِ باطِل جنگ جویاں آمدند
باسنان و تیر و پیکاں برمسلماں تاختند
یارسول اللہﷺ حالِ بندگانت بنگری
گوشۂ چشم کرم للہ برما ہم کنی
دیکھئے حسرت زدوں کا دم لبوں پر آچکا
دیکھئے ناموسِ مسلم کی ہوئی عصمت دری
خوبئ تقدیر ہو یا بخت کی گردش کہ ہے
کامیابِ زندگی، ناکامیاب زندگی
خُم کے خُم ہیں مغربی میخانۂ توحید میں
ساقیانِ قوم ہیں مستِ شرابِ مغربی
صر صرِ تہذیب یورپ چل رہی ہے ہر طرف
گلستان زیست میں اڑنے لگی ہے خاک سی
کشتئ علم شریعت کی خبر تو لیجئے
بڑھتا ہی جاتا ہے طوفانِ عُلومِ فلسفی
دشمنانِ مذہب و ملت ہیں سرگرم و غا
قصرِ ملت ڈھا رہے ہیں ملحدانِ نیچری
ڈھونڈتے ہیں شاہراہ اک اور مسلم کیلئے
پردۂ اسلام میں، اسلام سے بالکل بَری
مدعا یہ ہے کہ ان کی خواہشیں آزاد ہوں
آرزو یہ ہے کہ ملّت کی بنے صورت نئی
کفر پر ایمان لائیں اور کہیں ایماں کو کفر
کجروی کو دیں یہ سمجھیں اور دیں کو گمرہی
دستگیرا! بے کسوں کی دستگیری کیجئے
لٹ گئے ہم یارسول اللہﷺ دہائی آپ کی
جان کھینچے لے رہا ہے انقلابِ حشرزا
خون چوسے لے رہے ہیں عیسوی و موسوی
ہاں بجا ہے ہم اسی قابل تھے جیسے ہوگئے
لیکن اے سرکارﷺ امت آپ کی ہے آپکی
آپﷺ گر روٹھے رہیں گے پھر ہمارا کون ہے
کون ہم آفت کے ماروں کی کریگا دلدہی
وقت ہے امداد کا سرکار اب تو آئیے
پھر نہ رونے کے لئے آئے گی ہم کو بے کسی
بول بولا ہو ترا اے دستِ تو دستِ خدا
اب تو بھر دے جھولیاں منگتا ؤنکی میرے غنی
پھونک دے پھر انجمن میں جذبۂ باطل شکن
ڈال دے ہر مردہ تن میں روحِ جوشِ غزنوی
صدق دے صدیق﷜ کا عثمان﷜ کی شرم و حیا
عدل دے فاروق﷜ کا اور زورِ بازوئے علی﷜
حِرْزِ مَنْ لَا حِرْ زَلَہ یامصطفیٰﷺ یا مجتبیٰﷺ
باہزاراں التجا گوید خلیؔل قادری
ثروتِ بے ثروتاں اے دولتِ بے دولتاں
ماغریبان و گدایاں ہم تو سلطان و شہی
اَز غم دُنیا و ہم عقبیٰ شہا آزادکُن
پادشاہا! سرورا! بہر خدا امداد کُن

...

یہ مانا میرے عصیاں کی نہیں ہے کوئی حد شاہا

دیوانِ شفاعت

قطعہ نعتیہ

یہ مانا میرے عصیاں کی نہیں ہے کوئی حد شاہا
مجھے تسلیم اپنی ہر خطا بے رد و کد شاہا
مگر تم چاہو تو ہر جرم، رحمت سے بدل جائے
کہ دیوانِ شفاعت میں تو ہے ایسی بھی مدشاہا

...

دنیائے رنگ و بو میں جلوہ طراز ہوجا

سرکار کی گلی میں

قطعہ نعتیہ

دنیائے رنگ و بو میں جلوہ طراز ہوجا
یعنی غبارِ راہِ شاہِ حجاز ہوجا
سجدے جبیں کے وقفِ درگاہِ ناز کردے
سرکار کی گلی میں جانِ نیاز ہوجا

...

اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو

دامانِ مصطفیٰﷺ

قطعہ نعتیہ

اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو
جب موت کا وقت آئے اور روح خراماں ہو
دنیائے تصور میں دربار ترا دیکھوں
سر ہو ترے قدموں پر، سر پر ترا داماں ہو

...

بھروسہ ہے ہمیں تو شافعِ محشر کی رحمت کا

توبہ توبہ

قطعہ نعتیہ

بھروسہ ہے ہمیں تو شافعِ محشر کی رحمت کا
نہ ہوا ایماں جسے لَاتَقْنَطُوْ پر وہ کرے توبہ
امیدِ عفو و بخشش پر تو عصیاں کو خریدا تھا
تری رحمت سے میں مایوس ہوجاؤں ارے توبہ

...