غمگین کبھی ہوگا نہ رنجور ملے گا
غمگین کبھی ہوگا نہ رنجور ملے گا
جو ان کا بھکاری ہے وہ مسرور ملے گا
...
غمگین کبھی ہوگا نہ رنجور ملے گا
جو ان کا بھکاری ہے وہ مسرور ملے گا
...
دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے لب پہ نام ان کا بے اختیار آگیا
ہجر کی ظلمتیں جگمگانے لگیں سامنے مصطفی کا دیار آگیا
...
جس بھکاری کو کیا آپ کی رحمت نے نہال
بخدا اس کے قدم چومتا ہے اوج کمال
...
کچھ اور میری تمنّا نہیں سوائے کرم
کرم کی بھیک دو مجھ کو میں ہوں گدائے کرم
تمہاری ذات ہے سرچشمۂ کرم آقا
خدائے خلق کیا ہے تمہیں برائے کرم
جن کا شیوہ ہے بندہ نوازی ہے سخی جن کا سرا گھرانہ
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد بانٹنے رحمتوں کا خزانہ
...
ہُوک اٹھتی ہے جب بھی سینے سے
ربط بڑھتا ہے کچھ مدینے سے
...
یہ کرم یہ بندہ نوا زیاں کہ سدا عطاپہ عطا ہوئی
جو ملا طلب سے سوا ملا کبھی رد نہ عرض ِ گدا ہوئی
...
کرم کی نظر تاجدار ِ مدینہ کرم چاہتے ہیں کرم کے بھکاری
سلامت رہے آپکا آستانہ رہے آپکا فیض جاری وساری
...
تمہارا نام لبوں پر ہے دل کو راحت ہے
اسی کے صدقے مری زندگی سلامت ہے
...
غمِ عشق نبی میں کیف افزا چشم ِ پُر نم ہے
نمایاں آنسووں سے ہے خوشی کتنا حسین غم ہے
...
وہ دن قریب ہے کہ مدینے کو جاؤں گا
آنکھوں کو اپنی طورِ تجلی بناؤں گا
...