ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں
ابروئے پاک
ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں
محراب سجود گاہِ جاں ہیں
عیدین کے دو ہلال انور
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَویٰ کے مظہر
ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں
محراب سجود گاہِ جاں ہیں
عیدین کے دو ہلال انور
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَویٰ کے مظہر
آنکھیں ہیں کہ نور کے کٹورے
صہبائے طہور کے کٹورے
ہیں جام مئے سرور کے دو
روشن ہیں چراغ نور کے دو
دل بولا یہ دفعتہً مچل کے
دو پھول ہیں خندن زن کنول کے
محرابِ حرم کے درمیاں دو
ضو بار حسیں کنول ہیں دیکھو
کس درجہ لطیف ہے سیاہی
پر نور حسیں پتلیوں کی
کہتا ہے یہ صاف رنگِ اسود
پلکیں ہیں غلافِ سنگِ اسود
رخسار ہیں مخملیں گلابی
آئینوں میں ضَو ہے آفتابی
یا فرش پہ چاند آگئے دو
یا پُھول کِھلے گلاب کے دو
یہ جھلکیاں نور لے رہا ہے
یا آب میں چاند تیرتا ہے
کس طرح ہو وصفِ گوش اختؔر
شاعر کے اُڑے ہیں ہوش اختؔر
ہیں دو یہ صدف یم کرم کے
دو پھول ہیں گلشنِ ارم کے
اللہ رے رفعتِ سماعت
ہیں کانِ جواھرِ کرامت
بینی ہے کہ ہے ’’الِف‘‘ خدا کا
یا آخری حرف مصطفیٰﷺ کا
ہے کتنا لطیف استعارہ[1]؎
کہئے اسے گر الِف اشارہ
کونین کا یعنی ہے خدا ایک
اور اس کا حبیبِ باصفاﷺ ایک
محبوبِ خدا ہوا نہ ہوگا
دنیا میں بشر کوئی بھی ایسا
اوّل ہیں یہی، یہی ہیں آخر
باطن ہیں یہی، یہی میں ظاہر
آئے گا کوئی نہ ایسا آیا
اُس ایک نے ایک ہی بنایا
[1]استعارہ بمعنے اشارہ یعنی خدا، مصطفیٰﷺ، اول، آخر، ظاہر اور باطن، ان سب میں ’’الف‘‘ ہے اور بینی مبارک کو ان سے تشبیہ دی جارہی ہے ، لہذا مطلب ظاہر ہے ۱۲ اختر الحامدی
...تو اور خیال ’’مدحِ لب‘‘ کا
خاموش، مقام ہے ادب کا
تو اور مجالِ لَب کشائی
یہ ہیں گُلِ باغِ کبریائی
ہیں غنچۂ دہن، دہن پہ قرباں
یہ ہے وہ کلی، فِدا گلستاں
گردن پہ ہے شمعِ طور قرباں
مینائے شرابِ نور قرباں
رفعت نے نثار کی درازی
ہے سر بسجود سر فرازی
اللہ رے سینۂ کرامت
پُر نور سفینۂ کرامت
ہے خوب یہ شرحِ صدر و سینہ
گر کہئے علوم کا خزینہ
تشبیہ یہ سینہ کی عجب ہے
یہ لوحِ مبیں ہے، عرشِ رب ہے
دل شمع ہے، صدرِ پاک فانوس
شفّاف ہے تابناک فانوس
ہیں بازو، دستِ پاک واللہ
آئینۂ آیۂ یدُاللہ
ہیں شرحِ مبین مَارَمَیْتَ
تفسیرِ حِسینِ مَارَمَیْتَ