ہیں اک ولیِ خدا حضرتِ ضیاء الدین
ہیں اِک وَلیِّ خدا حضرتِ ضیاءُالدین
جبھی تو کرتے ہیں ہم مِدحتِ ضیاءُالدین
ہیں اِک وَلیِّ خدا حضرتِ ضیاءُالدین
جبھی تو کرتے ہیں ہم مِدحتِ ضیاءُالدین
اعلیٰ حضرت کے خلیفہ چل دیے سوئے عدم
اَب ہے ان کا آستانہ جنّت الفردوس میں
لبوں پر ہے رواں مدحت ضیاءُ الدین مدنی کی
ہے دل میں جاگزیں الفت ضیاءُ الدین مدنی کی
ضیاءُ الدین دربانِ محمد(ﷺ)
بڑا ہے ان پہ احسانِ محمد(ﷺ)
غرقِ عشقِ مصطفیٰ (ﷺ)، قطبِ مدینہ طیّبہ
فیض کا اک سلسلہ قطبِ مدینہ طیّبہ
محمد کی دعا قطبِ مدینہ
رضا کے دِل رُبا قطبِ مدینہ
ضیاءُالدیں نگارِ اَصفیا ہیں
ضیاءُالدیں بہارِ اَتقیا ہیں
نبی کے نور سے پیر و مریدِ با صفا چمکے
بریلی میں رضا چمکے، مدینے میں ضیا چمکے
آہ! بدرِ اولیا جاتا رہا!
تاجْدارِ اصفیاء جاتا رہا
نہ یہ قصّہ ہے کوئی اور نہ یہ کوئی کہانی ہے
نہ یہ زورِ قلم ہے اور نہ اس کی در فشانی ہے