نعت  

گلبار داغِ ہجرِ نبیﷺ اس قدر رہے

گلبار داغِ ہجرِ نبیﷺ اس قدر رہے
آٹھوں پہر بہشت بداماں نظر رہے
مجھ کو رہِ عدم میں نہ خوف و خطر رہے
یادِ جمالِ رُوئے نبیﷺ ہم سفر رہے
رہرو! رہِ حرم ہے ادب پر نظر رہے
آنسو یہاں کوئی نہ گرے چشم تر رہے
یارب! نہ زخمِ ہجرِ مدینہ ہو مُند مِل
یہ دِل الہٰ باد، محمّد نگر رہے
گم کر دے کاش ان کی محبت میں یوں خدا
اپنے وجود کی بھی نہ مجھ کو خبر رہے
دل کی تڑپ نہ کم ہو حضوری کے بعد بھی
یارب یہ دلنواز خلش عمر بھر رہے
اختؔر رہِ حیات میں پائی رہِ نجات
ہر گام پر اصولِ رضؔا راہبر رہے

...

یہ حسن و رنگ، یہ نور و نکھار آپﷺ سے ہے

یہ حسن و رنگ، یہ نور و نکھار آپﷺ سے ہے
حسینِ کعبہ، حسیں ہر بہار آپﷺ سے ہے
سکوں زمیں کو، فلک کو قرار آپﷺ سے ہے
ثباتِ عالمِ ہژدہ ھزار آپﷺ سے ہے
یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ پھول، یہ غنچے
یہ کائنات جناں درکنار آپﷺ سے ہے
بسی ہے آپ کے گیسوئے عنبریں کی مہک
فضا ہے مست، ہوا مشکبار آپﷺ سے ہے
ہر ایک اَوج نے پائی ہے آپﷺ سے عظمت
ہر اِک وقار کو حاصل وقار آپﷺ سے ہے
یہ ہست و بود، وجود و عدم ، ظہور و نمود
یہ نظمِ گردشِ لیل و نہار آپﷺ سے ہے
محیطِ ارض و سما ہیں تجلّیاتِ حضورﷺ
بہشتِ قلب و نظر کی بہار آپﷺ سے ہے
سجی ہے آپ کے جلووں سے بزمِ کُن فَیَکُوں
حسین محفلِ پروردگار آپﷺ سے ہے
مدینہ دور سہی، بے نوا سہی اختؔر
بس اِک نگاہ کا امیدوار آپﷺ سے ہے

...

ہموار آکے حُور و مَلک رہگذر کریں

تضمین برنعتِ اعلٰحضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ

ہموار آکے حُور و مَلک رہگذر کریں
ہر ہر قدم پہ بارشِ آب ِ گہر کریں
آرام سے یہ ناز کے پالے سفر کریں
اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں
جاتی ہے امتِ نبویﷺ فرش پر کریں
تسلیم ہے گناہ کئے، ہیں تو آپﷺ کے
مانا کہ ہم ہزار بُرے، ہیں تو آپﷺ کے
کھوٹے ہیں یاکہ ہم ہیں کھرے، ہیں تو آپﷺ کے
بَد ہیں تو آپﷺ کے ہیں، بھلے ہیں تو آپﷺ کے
ٹکڑوں سے تو یہاں کے پَلے رُخ کِدھر کریں
ہے کون سننے والا کسے حالِ دل سنائیں
محشر میں ہم کو پرسشِ اعمال سے بچائیں
نادم ہیں روسیاہ، زیادہ نہ اب لجائیں
سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں
آقاﷺ، حضور، اپنے کرم پر نظر کریں
تاریکئ گناہ میں گم سب ہیں راستے
لمبا سفر ہے راہ میں حائل ہیں مَرحلے
اے آفتابِ بدر! چمک اَوجِ عرش سے
منزلِ کڑی ہے شانِ تبسّم کرم کرے
تاروں کی چھاؤں نور کے تَڑ کے سفر کریں
آہو حرم کے مجھ سے رمیدہ ہیں کس لئے؟
شاخیں کماں کی طرح خمیدہ ہیں کس لئے؟
پھولوں سے ملتفت دل و دیدہ ہیں کس لئے؟
دشتِ حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے؟
آنکھوں میں  آئیں‘ سر پہ رہیں دل میں گھر کریں
تاریک ہے حیات کی ہر راہ وقت ہے
اے میرے چاند! اے مِرے نوشاہ وقت ہے
مخلوق ہے ہلاک ِ ستم آہ وقت ہے
جالوں پہ جال پڑگئے لِلّٰہ وقت ہے
مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں
اختؔر جو اٹھ گئی مرے مرشد کی ذوالفقار
ہر گز حریف جھیل سکیں گے نہ ایک وار
ہے بہتری اسی میں کہ ڈھونڈیں رہِ فرار
کِلکِ رضؔا ہے خنجرِ خونخوار برق بار
اعداء سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں

...

مدینے میں ہیں شہر یارِ مدینہ

تضمین بر نعتِ استاد زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خاں حسؔن بریلوی﷫ برادرِ خورد اعلٰحضرت فاضلِ بریلوی قدس سرّہ و تلمیذِ بلبلِ ہند، دبیر الدولہ فصیح الملک جناب داغؔ دہلوی مرحوم

تضمین

مدینے میں ہیں شہر یارِ مدینہ
ہے رضواں بجا افتخارِ مدینہ
نگاہوں میں ہے ہیچ ہر پھول بالکل
ہمیں دشتِ طیبہ بہارِ بریں ہے
عجب ہے مقدر دلِ ناتواں کا
ادب سے ہے سرخم جہاں آسماں کا
بس اُڑکر سوئے رحمت آباد جائے
یہ ذرّہ بھی تاروں میں ہو جائے شامِل
کھلیں پھول ہستی کے گلشن میں یارب
لگی تھی جو کل دشتِ ایمن میں یارب
رُخِ گل پہ جب تازگی دیکھتا ہوں
کلی خندہ زن جب کوئی دیکھتا ہوں
بہارِ جناں آج مجھ پر فدا ہے
زمیں پر مزہ خلد کا آرہا ہے
سیہ خانہ ہو طُور ان کی ضیا سے
منورّ ہوں اے کاش سب داغ دل کے
مِلا طور موسٰے کو اَوجِ مکرّم
اُڑا کر دَنیٰ پر تقرب کا پرچم
ہے فردوس بھی ایک حصہ یہاں کا
غلامِ کرم ہیں ملائک بھی ان کے
ذرا دیکھے ان کا مقدّر تو کوئی
بربِّ مدینہ مقدّس سمجھ کر
پئے غوثِ اعظم﷜، طفیل رضا دے
مجھے مدحِ محبوب کا یہ صلہ دے
نہ کیوں ناز ہو اختؔرِ بے نوا کو
جو بے مانگے دیتے ہیں شاہ و گدا کو

نعت

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
کہ سب جنتیں ہیں نثارِ مدینہ
مبارک رہے عندلیبو تمہیں گل
ہمیں گل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ
بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کا
بیاں کیا ہو عزّو وقارِ مدینہ
مِری خاک یارب نہ برباد جائے
پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ
کبھی تو معاصی کے خرمن میں یارب
لگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ
رگِ گل کی جب ناز کی دیکھتا ہوں
مجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ
جدھر دیکھئے باغِ جنت کِھلا ہے
نظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ
رہیں ان کے جلوے، بسیں ان کے جلوے
مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ
بنا آسماں منزلِ ابنِ مریم
گئے لامکاں تاجدارِ مدینہ
دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا
ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی
شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ
مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے
خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ
شرف جن سے حاصل ہوا انبیاء کو
وہی ہیں حسؔن افتخارِ مدینہ

...

انوار کی بارش ہوتی ہے، ضَو بار گھٹائیں ہوتی ہیں!

تضمین بر نعت حضرت لسان الحسّان علّامہ ضیاء القادری بدایونی ﷫

انوار کی بارش ہوتی ہے، ضَو بار گھٹائیں ہوتی ہیں!
ڈوبی ہوئی کیفِ حمد میں جب بلبل کی نوائیں ہوتی ہیں!
پھولوں پہ نسیمِ جنت کی قربان ادائیں ہوتی ہیں
طیبہ کے شگفتہ باغوں کی دلکش وہ فضائیں ہوتی ہیں
خوشبو سے معطّر دم بھر میں عالم کی ہوائیں ہوتی ہیں
پر کیف ہوائیں طیبہ کی عنوانِ ترنّم کیوں نہ بنیں
خاموش فضائیں وقتِ سحر فطرت کا تکلّم کیوں نہ بنیں
ضَو بخش ضیائیں تاروں کا زرپاش تبسّم کیوں نہ بنیں
مینارِ حرم کے جلووں سے تارے مہ و انجم کیوں نہ بنیں
روضہ پہ تجلّی بار آکر، سورج کی ضیائیں ہوتی ہیں
ہستی کی رہِ مشکل میں مجھے خطرہ ہے نہ کوئی اب غم ہے
یا سرورِ عالم شام و سحر جب میرے لبوں پر ہر دم ہے
مِن جانبِ حق اے صلِّ علیٰ الطاف کی بارش پیہم ہے
عنوانِ مناجات بخشش سرکار کا اسمِ اعظم ہے
نامِ شہِ دیں کی برکت سے مقبول دعائیں ہوتی ہیں
کیوں سامنے سب کے محشر میں ہوں نادم و رُسوا اَب عاصِی
دامانِ کرم کے سائے میں ہیں روزِ ازل سے سب عاصی
وہ کچھ بھی سہی، پھر بھی ہیں مگر محبوبِ حبیبِﷺ رب عاصی
روتے ہیں خطاؤں پر اپنی ہو ہو کے پشیماں جب عاصی
مولیٰ کی طرف سے بندوں پر کیا کیا نہ عطائیں ہوتی ہیں
ہوتے ہیں روانہ سُوئے عدم، جو دید کی حسرت دل میں لئے
ہر گام پہ لَا تَحْزَنْ کے انہیں آتے ہیں نظر اختؔر جلوے
آنکھوں سے حریمِ انور تک اُٹھ جاتے ہیں دُوری کے پردے
مرقد کی اندھیری راتوں میں ہوتے ہیں ضیؔا روشن چہرے
روضے کی حسِیں قندیلوں کی سینے میں ضیائیں ہوتی ہیں

...

کونین سے سوا ہے حقیقت رسولﷺ کی

تضمین برنعتِ برادرِ معظّم حضرت مولانا مفتی سید ریاض الحسن نیّر حامدی رضوی جیلانی جود ھپوری ﷫

کونین سے سوا ہے حقیقت رسولﷺ کی
ارض و سما رسولﷺ کے، جنت رسولﷺ کی
ہے عرش فرشِ پا، یہ عظمت رسولﷺ کی
قوسَین ماو راز ہے رفعتِ رسولﷺ کی
اللہ جانے کیا ہے حقیقت رسولﷺ کی
صلِّ علیٰ حبیبِ خداﷺ کا یہ مرتبہ
معراج میں بلائے گئے تاحدِ دنیٰ
ارفع مقامِ قرب تھا اتنا حضورﷺ کا
حَد ہے کہ تھک کے طائرِ سدرہ بھی رَہ گیا
قاصر مگر ہوئی نہ عزیمت رسولﷺ کی
آیاتِ بیّنات ہیں ان کی صفاتِ پاک
شرحِ صفاتِ ذاتِ خدا ہے حیاتِ پاک
قرآں بکف حضور کے ہیں تذکراتِ پاک
ہے ہاشمی و مطلبی ان کی ذاتِ پاک
مشہور کُن فکاں ہے شرافت رسولﷺ کی
کیا ان کے اَوج تک ہو رسا ذہنِ مشتِ پاک
روح الامیں کے ہوش و خرد بھی جہاں ہیں چاک
نورِ مبین ہیں، ذاتِ مبیں ہے وہ تابناک
محسوس سے مبرّہ ہے معقول سے ہے پاک
اور اک سے درا ہے حقیقت رسولﷺ کی
ہے لاج یہ غلاموں کی قربانِ مصطفیٰﷺ
امت ہے حشر میں تہِ دامانِ مصطفیٰﷺ
یہ شانِ مرحمت ہے یہ احسانِ مصطفیٰﷺ
آزاد نار سے ہیں غلامانِ مصطفیٰﷺ
آغوش میں لئے ہے شفاعت رسولﷺ کی
سرسبز نقشِ پا سے ہوا دشتِ لَق و دَق
انگلی اٹھی تو چاند بھی تھا درمیاں سے شَق
دیکھے یہ معجزے تو ہوا روئے کفر فَق
اصنام اوندھے منہ گرے سنتے ہی جَاءالحق
پتھر کو موم کرتی ہے ہیبت رسولﷺ کی
سردارِ انبیاء ہیں، پیمبر وہﷺ حق کے ہیں
محبوب ہر رسولﷺ سے بڑھ کر وہ حق کے ہیں
آئینۂ جمالِ منوّر وہ حق کے ہیں
ظاہر ہے مَنْ رَاٰنی سے مظہر وہ حق کے ہیں
نورِ خدائے پاک ہے صورت رسولﷺ کی
تیرا شرف یہ روضۂ سلطانِ باوقار
جلوہ فروز تجھ میں ہیں محبوبِ کردگار
آگوش میں ہیں تیری دو عالم کے تاجدار
سَوجاں سے میں ہُوں گنبدِ خضرا تِرے نثار
تو عرشِ حق ہے تجھ میں ہے تربت رسولﷺ کی
روشن جبیں ہے سجدوں کی تابش سے حشر تک
آئینہ رُخ سے نورِ الہٰی کی ہے جھلک
ہم ہیں وہ عاشقانِ نبیﷺ اس میں کیا ہے شک
محشر میں سنّیوں کو کہیں دیکھ کر مَلک
دیکھ وہ آرہی ہے جماعت رسولﷺ کی
مانا کہ میرے جرم و معاصی ہیں شرمناک
اعمال بَد ہزار ہیں پھر بھی نہیں ہے باک
فکرِ عذابِ حشر سے اے دل نہ ہو ہلاک
ہوتا ہے دم زدن میں وہ عاصی خطا سے پاک
جس پر ذرا ہو چشمِ عنایت رسولﷺ کی
اختؔر کی یہ دعا ہے خدا وندِ کردگار
مجھ سے نہ جیتے جی چُھٹے سرکار کا دیار
ہو جاؤں خاکِ روضۂ پُر نور پر نثار
میں نقدِ جاں کو وار دوں نیّؔر ہزار بار
حاصِل ہو یونہی کاش زیارت رسولﷺ کی

...

جس کے باعث کیا جہاں روشن

غزل در نعت

 

جس کے باعث کیا جہاں روشن
اور خورشیدِ آسماں روشن
مشرق و مغرب و جنوب و شمال
د
ینِ احمد سے ہر مکاں روشن
خوبی و حُسنِ مصطفائی سے
حُسن و خوبی کا گلستاں روشن
ہے فروغِ جمالِ احمد سے
قصرِ ہستی کا تاب داں روشن
شبِ اسرا میں اُن کے قدموں سے
ہو گیا گُلشنِ جِناں روشن
ہے وہ شرعِ منوّرِ نبوی
جس سے ہے بزمِ اِنس و جاں روشن
نعت و اَوصافِ مصطفیٰ میں رہے
یا الٰہی! مِری زباں روشن

 

...

آب وصفِ صاحبِ کوثرﷺ سے شیریں کام ہے

غزل در نعت

 

آب وصفِ صاحبِ کوثر سے شیریں کام ہے
ماہیِ کوثر زبانِ مدح خواں کا نام ہے
نعت و اَوصافِ جنابِ مصطفیٰ جس میں نہ ہو
وہ لب و دندان وہ کام و زباں نا کام ہے
عَینِ عرفانِ خدا عَینِ جنابِ مصطفیٰ
آہوئے بے عیب اُس عَینِ صفا کا نام ہے
رحمتِ عالَم کی اُمّت میں ہمیں پیدا کیا
کیا مقامِ شکرِ خلّاقِ ذَوِی الاِکرام ہے
یا الٰہی! میں بھی پہنچوں منزلِ مقصود کو
کار سازِ بے کساں، اللہ! تیرا نام ہے
جائے نومیدی نہیں درگاہِ ربّ العالمین
وسعتِ رحمت یہاں مصروفِ خاص و عام ہے
میں نہیں شاعر، مد
یحِ صاحبِ لَوْلَاک ہوں
ہم صفیرو! مجھ کو اپنے کام ہی کام ہے
مغتنم ہے بس کہ دورِ مدح خوانی مدح خواں
یہ زباں محشر تلک پھر عاطل و نا کام ہے
کاؔ
فیِ بیمار کو وصفِ جنابِ مصطفیٰ
قوّتِ دل راحتِ جاں موجبِ آرام ہے

 

...

چلو دیکھ لیں وہ حقیقتیں جنہیں دیکھنا بھی مثال ہے

چلو دیکھ لیں وہ حقیقتیں جنہیں دیکھنا بھی مثال ہے
سوئے منتھیٰ جو چلے نبی ابھی امتی کا خیال ہے

لبِ مصطفےٰ وہاں ہل گئے تو گنہگار مچل گئے
میرے امتی کو بچا خدا یہ نبی کا وقتِ وصال ہے

عطا جن کو حسنِ نبی ہوا تو زنانِ مصر پہ کرگئیں
کٹیں سائے حسن میں انگلیاں یہ نبی کا عکسِ جمال ہے

اے اُمیہ تجھ کو خبر کہاں رگِ تن میں ہے نہیں خوں رواں
یہاں دوڑتی ہیں محبتیں یہی کہتا عشقِ بلال ہے

یہ جو شمع و گل پہ بہار ہے یہ کرم ہے ان کے ہی خار کا
یہ ہیں خارِ شہرِ حبیبِ جاں جنہیں چومنا بھی کمال ہے

جو نبی نے پوچھا کہ اے امیں کہیں دیکھا ہم سا روئے حسیں
کہا طائرِ سدرہ نے برملا نہیں ان کی کوئی مثال ہے

در مصطفےٰ پہ پہونچ گئے ہوا زندگی کا حصول یوں
پسِ دید عشق بھی بڑھ گیا ابھی واپسی کا ملال ہے

کریں مصطفےٰ کی اہانتیں سر بزم اس پہ ہمتیں
کہا مجھ کو کیوں ہے جہنمی ارے وہ تو تیرا وبال ہے

کیا زروں نے دعوئے شمس جب ہوا ان کا گزر ابھی راہ سے
تمہیں صدقۂ پا جو ملے فاراں کہیں لوگ یہ بھی ہلال ہے

...

دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار

دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار
گیسوئے جاناں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں پر نثار

رحمۃ للعلمیں تیری عطاوں پر نثار
حسنِ مطلع جانِ عالم کی صفاتوں پر نثار

اے شفیعِ مرضِ عصیاں اے طبیبِ جسمِ ما
اے حبیبِ ہر جہاں تیری  شفاؤں پر نثار

قلبِ یثرب کو بنائیں آؤ ہم  طیبہ نگر
ذرّئے نعلین لے کر ہو کے تلوں پر نثار

خاکِ طیبہ میں شفا تو آبِ طیبہ ہے دوا
خطۂ سرکار کے رنگین جلووں پر نثار

گھومتی پھرتی بہاریں ہر طرف بہر عطا
دل ربا و دل فدا اُن ہواؤں پر نثار

اللہ اللہ چہرہ و الشمس میں ہیں دو قمر
عرش بھی طالب ہے جن کا ان نگاہوں پر نثار

چاند وہ تلوں سے جس کے جھڑتے ہیں ماہ و نجوم
ہے ہلالِ آسماں ایسے ستاروں پر نثار

جذبہ عشق نبی تم دکھ لو یرموک میں
خود شہادت دوڑ کر ہوتی ہے یاروں پرنثار

ان کے دشمن کا لہو مرغوب ہے ہم کو بہت
خالدِ سیفِ خدا تیرے جوابوں پر نثار

دشمنانِ مصطفے پر حملہ آور ہیں زبیر
حملۂ شیرِ خدا پر عشق والوں پر نثار

اُن کے آگے حضرتِ حمزہ کی وہ جانبازیاں
تیرے ہیں شیر ببر شیرانہ حملوں پر نثار

پاک جانیں بیچ کر جنت دلائی ہے ہمیں
دافعِ کرب و بلا حسنین زادوں پر نثار

مثلِ کشکولِ فقیراں پھر رہے تھے دربدر
مل گئی منزل ہوئے جب صحرا نشینوں پر نثار

سوئے جنت چل دئے فاراں سبب بتلا ذرا
ہوچلے ہم تو رضا کے پیارے نغموں پر نثار

...