سرصبح سعادت نے گریباں سے نکالا
سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالا
ظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا
سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالا
ظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا
اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا
غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
لُٹتی ہے مری بہار آقا
واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا
تو خدا کا خدا ہوا تیرا
معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا
جب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا
سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب
خوبرویوں میں نہیں تیرا جواب
جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب
بھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب
پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت
پرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت
کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
کاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج