نسیمِ جنت  

صبح محشر شانِ محبوبی دکھانا چاہیے

حدیثِ ششم

 

عَنِ عَبْدِاللہِ بْنِ ھُشَّامٍ رَّضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  قَالَ کُنَّا معَ النَّبِیٍّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَ ھُوَ اَخَذَ بِیَدِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَنْتَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِلَّا نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ فَاِنَّہُ الْاٰنَ وَاللہِ لَاَنْتَ  اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْاٰنَ یَا عُمَرُ۔

 

صبح محشر شانِ محبوبی دکھانا چاہیے
خندۂ دنداں نما سے مسکرانا چاہیے
آب و تابِ حُسنِ عالَم گیر کے اعجاز سے
آفتابِ حشر کی تیزی بجھانا چاہیے
گیسوِ مشکیں دکھا کر عرصۂ عرصات میں
اپنے مشتاقوں کو دیوانہ بنانا چاہیے
جلوۂ قدِّ مبارک سایۂ قامت کے ساتھ
ہم کو خورشیدِ قیامت سے بچانا چاہیے
تم شفیع المذنبیں، تم رحمۃ للعالمیں
اپنی اُمّت کو خدا سے بخشوانا چاہیے
اہلِ محشر بھول جائیں گے مَصائب حشر کے
جلوۂ روئے مبارک کو دکھانا چاہیے
دیکھ کر جاہ و جلالِ شانِ محبوبِ خدا
تجھ کو او خورشیدِ محشر مُنھ چھپانا چاہیے
گر نہ آیا دامنِ دیدار، کاؔفی! ہاتھ میں
دھجیاں جیب و گریباں کی اُڑانا چاہیے

...

جو پناہِ سیّدِ کون و مکاں میں آ گیا

حدیثِ ہفتم۔۔۔ از کتاب مَواہبِ لدنیہ

 

عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَال رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  لَمَّا اقْتَرَفَ اٰدَمُ الْخَطِیْٓئَۃَ قَالَ یَا رَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِیْ فَقَالَ یَآ اٰدَمُ وَکَیْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ اَخْلُقْہُ؟ قَالَ لِاَنَّکَ یَا رَبِّ لَمَّا خَلَقْتَنِیْ بِیَدِکَ وَ نَفَخْتُ فِیَّ مِنْ رُّوْحِکَ رَفَعْتُ رَاْسِیْ فَرَأَیْتُ عَلٰی قَوَآئِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ فَعَلِمْتُ اَنَّکَ لَمْ تُضفْ اِلَی اسْمِکَ اِلَّآ اَحَبَّ الْخَلْقِ اِلَیْکَ فَقَالَ اللہُ تَعَالٰی صَدَّقْتَ یَآ اٰدَمُ اِنَّہٗ لَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَیَّ وَاِذْ سَاَلْتَنِیْ بِحَقِّہٖ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ۔(رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِیْ دَلَآئِلِہٖ مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدِنِ بْنِ اَسْلَمَ وَقَالَ تَفَرَّدَ بِہٖ عَبْدُالرَّحْمٰنِ وَرَوَاہُ الْحَاکِمُ وَ صَحَّحَہٗ وَذَکَرَہُ الطَّبَرَانِیُّ وَ زَادَ فِیْہِ: وَھُوَ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ۔ )

 

ایسا فاروق نے بیان کیا
کہ حبیبِ خدا نے فرمایا
یعنی جس دم جنابِ آدم سے
ہوئی سر زد خطا اُس اکرم سے
بوالبشر نے دعا خدا سے کی
التجا ذاتِ کبریا سے کی
کہ محمد کے واسطے، یا رب!
میری تقصیر بخش دے، یا رب!
یہ حکم ہُوا ربِّ امجد کا
کس طرح جانا نام احمد کا
اب تلک وہ نہیں ہُوا پیدا
تو نے کس طرح اُس کو پہچانا
کہا آدم نے، اے خدائے کریم!
ربِّ غفّار اے رحیمِ قدیم
تو نے میرے تئیں بنایا جب
روح بھی مجھ میں پھونک دی، یا رب!
میں نے اُس دم جو سر اُٹھا دیکھا
پایۂ عرش پر لکھا دیکھا
کلمہ ’’
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘
اور نامِ محمدِ خوش خو
یہ محمد کا نام، یا اللہ!
دیکھ کر تیرے نام کے ہمراہ
رتبۂ احمدی کو پہچانا
اور حالِ محمدی جانا
جس کو بخشا یہ رتبۂ مرغوب
افضلِ خَلق ہے تِر محبوب
جس کا یہ درجۂ مبارک ہے
تیرا محبوب وہ بِلا شک ہے
پھر خدا کی طرف سے حکم آیا
آدمِ بوالبشر سے فرمایا
کہ کیا تو نے ٹھیک ٹھیک کلام
میرا محبوب ہے یہ خیرِ اَنام
تو نے احمد کا واسطہ جو دیا
میں نے تیرے قصور کو بخشا
گر نہ ہوتا محمدِ محمود
میں نہ کرتا تجھے کبھی موجود
تیری اولاد میں عیاں ہوگا
اور ختمِ پیمبراں  ہوگا
ترجمہ اِس حدیث کا، کاؔفی!
یاں تلک نظم میں لکھا، کاؔفی!
مجھ سے کہتا ہے اب دلِ غم ناک
لکھیے اوصافِ صاحبِ
لَوْلَاک

 

غزل در نعت شریف

 

جو پناہِ سیّدِ کون و مکاں میں آ گیا
وہ بِلا شک حق تعالیٰ کی اماں میں آ گیا
جس نے حضرت کا وسیلہ، دوستو! حاصل کیا
میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دارالاماں میں آ گیا
رحمۃ للعالمیں جس روز سے پیدا ہُوئے
اور ہی اک فیض کا عالَم جہاں میں آ گیا
ہو گیا کیا رشکِ جنّت یہ گلستانِ جہاں
جب سے اس گُل کا قدم اس گلستاں میں آ گیا
فیضِ اَنوارِ قُدومِ سیّدِ اَبرار سے
نور کا عالَم زمین و آسماں میں آ گیا
جب تصوّر بند کیا نظروں میں روئے پاک کا
دیدۂ مشتاق گلزارِ جہاں میں آ گیا
یہ نہیں ممکن جلائے آتشِ دوزخ اُسے
کلمۂ دینِ محمد جس زباں میں آ گیا
 اُس تبسّم کا تصور مسکرانے کا۔۔۔؟؟؟
صورتِ القاب احسن۔۔۔؟؟؟
جب لکھے کافؔی قسیم حوض کوثر۔۔۔؟؟؟
آبِ کوثر سا دہان میں مدح خواں۔۔۔؟؟؟

...

ہے بشارت شبِ فرقت کے گرفتاروں کو

حدیثِ ہشتم۔۔۔ از کتاب مشکاۃ باب۔۔۔؟؟؟

 

عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قَالَ طُوْبٰی لِمَنْ  رَّاٰنِیْ وَ طُوْبٰی سَبْعَ مَرَّاتٍ لِّمَنْ لَّمْ یَرَنِیْ وَاٰمَنَ بِیَّ۔(رَوَاہُ اَحْمَدُ

 

بو اُمامہ سے کیا روایت ہے
واہ کیا مژدۂ بشاشت ہے
کیا خوشی کی خبر سناتا ہے
کیا ہی مہجوروں کو ہنساتا ہے
واہ کیا
فضلِ کبریائی ہے
 کیا ہی الطافِ مصطفائی ہے
یہ عنایاتِ سرورِ عالَم
زخمِ دل پر ہے صورتِ مرہم
اُس کلام و بیان کے صدقے
اُس زبان و دہان کے صدقے
اُس مبارک لسان کے قربان
اُس لبِ دُر فشان کے قربان
یہ جو ارشاد مصطفیٰ کا ہے
یہ مکاں حمدِ کبریا کا ہے
شکر اُس کا ادا کریں کیوں کر
ہے یہ نعمت قیاس سے باہر
الغرض یوں نبی نے فرمایا
کہ مجھے جس کسی نے دیکھ لیا
اُس کو حاصل خوشی کی بات ہُوئی
خُرّمی ایک اُس کے ساتھ ہُوئی
اور جس نے نہیں مجھے دیکھا
غائبانہ ہُوا مِرا شیدا
دین کو میرے اختیار کیا
اور ایمان کا قرار کیا
واسطے اُن کے سات بار خوشی
جس کی غائبانہ دیں داری
واہ کیا مژدۂ عجائب ہے
کیا ہی دولت نصیبِ غائب ہے
کیا ہی مژدہ سنا دیا ہم کو
عَینِ غم میں ہنسا دیا ہم کو
کیوں نہ ہو ہم کو بار بار خوشی
اور یہ سن کے سو ہزار خوشی
اب تو، کافؔی! نہ در گزر کیجے
ہم صفیروں کو بھی خبر کیجے
 

غزل در نعت شریف

 

ہے بشارت شبِ فرقت کے گرفتاروں کو
اور مژدہ ہے شبِ ہجر کے بیماروں کو
اِس نویدِ طرب اَفزا کو سنا کر تم نے
کیا سبک دوش کیا غم کے گراں باروں کو
گر نہ تم اہلِ کبائر کی شفاعت کرتے
کون پھر پوچھتا دوزخ کے سزاواروں کو
جب سُنی مخبرِ صادق کی زباں سے یہ خوشی
شبِ فرقت میں ہُوئی عید دل افگاروں کو
ذاتِ پاکِ شہِ
لَوْلَاک حبیبِ رحماں
کیا وسیلہ ہے شفاعت کے گنہ گاروں کو
گرچہ نعمائے حضوری کی تمامی دولت
مجلسِ خاص میں حاص ہوئی حضاروں کو
عاصیوں کو بھی سنا دی وہ نویدِ صادق
جس نے آزاد کیا غم کے گرفتاروں کو
 آپ کا جلوۂ دیدار ہُوا بدِ مُنیر
ظلمتِ جہل وشبِ کفر کے آواروں کو
یا الٰہی! بَہ طفیلِ شرفِ ختمِ رُسُل
عملِ خیر کی توفیق ہو دیں داروں کو
اپنے محبوب کی اُلفت سے نصیبِ کاؔفی
کر عطا میرے تئیں اور مِرے یاروں کو

...

طُفیلِ سروَرِ عالَم ہُوا سارا جہاں پیدا

حدیثِ نہم۔۔۔ مواہبِ لدنیہ

 

عَنْ سَلْمَانِ بْنِ عَسَاکِرَ قَالَ ھَبَطَ جِبْرِیْلُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  فقَالَ اِنَّ رَبَّکَ یَقُوْلُ اِنْ کُنْتُ اتَّخَذْتُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًا فَقَدِ اتَّخَذْتُکَ حَبِیْبًاوَ مَا خَلَقْتُ خَلْقًا اَکْرَمَ عَلَیَّ مِنْکَ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَاَهْلَهَا لِاَعْرِفَهُمْ كَرَامَتَكَ وَمَنْزِلَتَكَ عِنْدِىْ، وَلَوْ لَاكَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا۔

 

یہ کلام و بیاں سلمان کا
ہے مناقب حبیبِ یزدان کا
ایک دن یعنی جبر
ئیلِ امین
ہُوئے حاضر بخدمتِ شہِ دیں
اور اس طرح سے پیام دیا
کہ تمھیں ہے خدا نے فرمایا
کہ اگر میں نے از رہِ تکریم
کیا اپنا خلیل ابراہیم
میں نے اپنا تجھے حبیب کیا
یعنی یہ رتبۂ عجیب دیا
نہ کیا ہے کوئی بشر پیدا
میں نے تجھ سے بزرگ تر پیدا
اے نبی! ا
فضلِ بشر تو ہے
پاس میرے بزرگ تر تو ہے
اور دنیا و ا
ہلِ دنیا کو
واسطے تیرے لایا، اے خوش خو
کہ وہ پہچانے مرتبہ تیرا
اور سب جانے مرتبہ تیرا
میں نہ کرتا اگر تجھے پیدا
کاہے کو ہوتی خلقتِ دنیا
کیا حبیبِ خدا کی عزّت ہے
جس کے باعث تمام خلقت ہے

 

غزل در نعت شریف

 

طُفیلِ سروَرِ عالَم ہُوا سارا جہاں پیدا
زمین و آسماں پیدا، مکیں پیدا، مکاں پیدا
نہ ہوتا گر فروغِ نورِ پاکِ رحمتِ عالَم
نہ ہوتی خلقتِ آدم، نہ گلزارِ جناں پیدا
شہِ
لَوْلَاک کے باعث، حبیبِ پاک کے باعث
جنابِ حق تعالیٰ نے کیا کون و مکاں پیدا
ظہورِ ذاتِ اکرم سے، فُیوضِ خیرِ مقدم سے
نسیمِ بوستاں پیدا، بہارِ گلستاں پیدا
رسول اللہ کی خاطر کیے جن و بشر حاضر
بنایا ماہ و انجم کو کیے ہیں بحر و کاں پیدا
جمال و حسن میں یکتا(؟)، کمالِ خلق میں یکتا
کوئی پیدا ہُوا ایسا، نہ ہوئے گا یہاں پیدا
اُنھیں کے واسطے آدم اُنھیں کے واسطے حوّا
اُنھیں کے واسطے، کاؔفی! کیے سب انس و جاں پیدا

...

کلمہ گویوں کو ہُوئی کیا ہی بشاشت حاصل

حدیثِ دہم۔۔۔ کتاب جامع صغیر تصنیفِ جلال الدین سیوطی﷫

 

عَنْ اَبِیْ مُوسٰی اَبْشِرُوْا وَبَشِّرُوْا مَنْ وَّرَآءَکُمْ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ صَادِقًا بِھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔

 

یہ حدیثِ جنابِ خیرِ ورا
کرتے ہیں یوں بیاں ابی موسیٰ
کہ رسولِ کریمِ اعلیٰ خو
کہتے تھے یہ نوید ہے ہم کو
اور اِس مژدۂ بِشارت سے
غائبوں کو بھی ہاں خبر پہنچے
بعد تم سے جو آنے والے ہیں
یعنی ایمان لانے والے ہیں
جو کہے
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ
اُس کو حاصل ہُوئی بہشت کی راہ
ہے اگر رتبۂ صداقت میں
ہوگا داخل وہ شخص جنّت میں
 

 

غزل در نعت شریف

 

کلمہ گویوں کو ہُوئی کیا ہی بشاشت حاصل
اور اُس مژدۂ جاں بخش سے فرحت حاصل
کیا شرف کلمۂ طیّب کو خدا نے
صدقِ دل سے جو پڑھے ہو اُسے جنّت حاصل
مومنو! روضۂ رضواں کی اگر خواہش ہے
وردِ کلمہ سے کرو خلد کی نعمت حاصل
ذکرِ کلمہ کا عجب فیض ہے
سُبْحَانَ اللہ!
جس سے ہوتی ہے دل و دین کو قوّت حاصل
اور سیراب ابد کام و دہانِ مومن
عقل کو نور و ضیا، روح کو راحت حاصل
منکرِ کلمۂ طیّب کے لیے دوزخ ہے
جو مقر ہے اُسے فردوس کی نعمت حاصل
اپنے محسن شہِ
لَوْلَاک کے، کاؔفی، صدقے
جس کے باعث سے ہُوئی دین کی دولت حاصل

...

کیا جنابِ شہِ اَبرار ہے سُبْحَانَ اللہ!

حدیثِ یازدہم۔۔۔از کتاب جامع صغیر

 

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ اَتَانِیْ جِبْرَئِیْلُ فَقَالَ اِنَّ رَبِّیْ وَرَبُّکَ یَقُوْلُ لَکَ تَدْرِیْ کَیْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ قُلْتُ اَللہُ اَعْلَمُ قَالَ لِاُذْکِرَتْ مَعِیْ۔

 

ہے روایت ابو سعید نے کی
کہ حبیبِ خدا جنابِ نبی
یہ حقیقت زبان پر لائے
کہ مِرے پاس  جبرئیل آئے
اور اس طرح مجھ سے کی تقریر
کہ تِرا اور میرا ربِّ قدیر
تم سے کہتا ہے، اے نبی دانا!
تم نے کچھ جانا اور پہچانا
رفعتِ ذکر کس طرح سے بھلا
میں نے کی تجھ کو، اے حبیب! عطا
بولے حضرت یہ ماجرا سن کر
ہے خدائے علیم دانا تر
جانبِ حق سے جبرئیلِ امیں
پھر مُخاطب ہُوئے کہ، اے شہِ دیں!
ہے یہ ربِّ رحیم کا ارشاد
واسطے تیرے، اے کریم نہاد!
کہ تمھیں ہے وہ مرتبہ بخشا
ذکر میں اپنے ساتھ یاد کیا
کیا نبی پر ہے لطفِ یزدانی
مدح خواں کیجیے ثنا خوانی

 

 

غزل در نعت شریف

 

کیا جنابِ شہِ اَبرار ہے سُبْحَانَ اللہ!
کیا نبی احمدِ مختار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
آپ کا نام اذان اور اقامت میں مدام
کیا ہی شہرت سے نمو دار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
اور کلمے میں پسِ ذکرِ خدا نامِ رسول
 ہمرہِ رفعتِ اَذکار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
الغرض نامِ احد سے نہیں ہجرِ احمد
کیا معیّت کا یہ اظہار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
معنیِ سورۂ
وَالشَّمْس عیاں عارض ہے
وَالضُّحٰی روئے پُر اَنوار ہے سُبْحَانَ اللہ!
خو و اَخلاق و کرم حُسن و جمال و احسان
حمد و تحسیں کے سزاوار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
ایک دم بھی لگا عرش تک آتے جاتے
نور ابصار یہ رفتار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
لاکھ منزل سے پہنچتا ہے سلامِ اُلفت
عَینِ اعجاز یہ دربار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
بے نصیب اہلِ کبائر بھی شفاعت سے نہیں
کیا ہی رحمت کی یہ سرکار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
سرورِ صاحبِ
لَوْلَاک کے قدموں کے لیے
عرش جولاں گہِ رفتار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
حَبَّذَا صَلِّ عَلٰی لطفِ حدیثِ نبوی
راحتِ روح یہ گفتار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
مہبطِ آیتِ تطہیر و تمامِ عفّت
آپ کی عترتِ اَطہار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
مرتضیٰ شیرِ خدا اور جنابِ حسنین
۔۔۔۔؟؟؟ شہِ اَبرار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
۔۔۔۔؟؟؟ آیتِ تطہیر و فروغِ عصمت
۔۔۔۔؟؟؟ اُن کے نمو دار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
۔۔۔۔؟؟؟ان خلافت میں وزیرِ اعظم
۔۔۔۔؟؟؟شہِ ابرار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
۔۔۔۔؟؟؟فتوت میں جنابِ فاروق
۔۔۔۔؟؟؟کفّار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
۔۔۔۔؟؟؟غنی، بحرِ سخا ذی النورین
۔۔۔۔؟؟؟حیا دار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
سورۂ دَہْر سے ثابت ہے مَناقِب جس کا
 وہ علی حیدرِ کرّار ہے
سُبْحَانَ اللہ!
مدح خواں کاؔفیِ محتاج نہ جائے محروم
رحمتِ عام یہ دربار ہے
سُبْحَانَ اللہ!

...

اَلسَّلَام، اے ختمِ دورِ رسالت! اَلسَّلَام

حدیثِ دوازدہم۔۔۔از کتاب جامع صغیر تالیفِ جلال الدین سیوطی

 

زَیِّنُوْا مَجَالِسَکُمْ بِالصَّلَاۃِ عَلَیَّ فِاِنَّ صَلٰوتَکُمْ عَلَیَّ نُوْرٌلَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (رَوَاہُ  فِیْ الْجَامِعِ الصَّغِیْر)

 

ہے جو وہ جامعِ صغیر کتاب
کتبِ معتبر کا لبِّ لباب
یہ بیان اُس کتاب میں آیا
کہ رسولِ خدا نے فرمایا
یعنی پڑھ کر دُرود، اے لوگو!
اپنی تم مجلسوں کو زینت دو
مجھ پہ بھیجو گے جو درود و سلام
نور ہو جائے گا بروزِ قیام
وہ درود و سلام روزِ نشور
پڑھنے والے کے واسطے ہے نور
سُن مِری بات، کاؔ
فیِ ناکام!
بجنابِ رسول بھیج سلام

 

 

 


 

 

 

غزل در نعت شریف

 

اَلسَّلَام، اے ختمِ دورِ رسالت! اَلسَّلَام
اے وجودت مطلعِ اَنوارِ رحمت!
اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے ماہِ کامل بر سپہرِ اصطفا!
اَلسَّلَام، اے مہرِ رخشانِ جلالت! اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے پیشوائے جادۂ صدق و صفا!
اَلسَّلَام، اے ہادیِ راہِ ہدایت! اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے جوہرِ آئینۂ خُلقِ عظیم!
اَلسَّلَام، اے گوہرِ بحرِ فتوت! اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے خسروِ اقلیمِ اِعطا و سخا!
شہر یارِ کشور ابادِ(؟؟؟) شفاعت!
اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے مردم عَینِ بصیرت، اَلسَّلَام
اَلسَّلَام، اے مخزنِ اعطاف و افضالِ کرم
مصدرِ اعطاف و ابذالِ عنایت!
اَلسَّلَام
سیّدِ سادات، فخرِ انبیا، ختمِ رُسُل
سروَرِ کونین، سلطانِ نجابت!
اَلسَّلَام
از فروغِ عارضت معنیِ
طٰہٰ آشکار
وے جبینت مظہرِ نورِ ہدایت!
اَلسَّلَام
قاصرم از شرحِ حرفی از کتابِ حُسنِ تو
گر بگویم یا نویسم تا قیامت!
اَلسَّلَام
بر اُمیدِ یک جواب از لعل جاں بخشائیو
صد ہزاراں جانِ مشتاقاں فدایت،
اَلسَّلَام
اے جنابِ اہلِ بیتِ سیّدِ کون و مکاں
 مہبطِ آثارِ تطہیر و طہارت،
اَلسَّلَام
اے جنابِ چار یارِ باصفا ارکانِ دیں
مجمعِ جود و سخا، صدق و عدالت!
اَلسَّلَام
بندۂ کاؔفی بخدّامِ جنابِ مصطفیٰ
می کند معروض ہر ساعت بَہ ساعت!
اَلسَّلَام

...

یا نبی! تم پہ بار بار سلام

حدیثِ سیزدہم

 

عَنْ اَبِیْ طَلْحَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جَآءَ  ذَاتَ یَوْمٍ وَّالْبُشْرٰی تُرٰی فِیْ وَجْھِہٖ فَقَالَ اِنَّہٗ جَآءَنِیْ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَقَالَ  لِیْٓ اَمَا تَرْضٰى يَا مُحَمَّدُ اَنْ لَّا يُصَلِّيْ عَلَيْكَ اَحَدٌ مِّنْ اُمَّتِكَ اِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَّ لَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ اَحَدٌ مِّنْ اُمَّتِكَ اِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا۔ (مشکوٰۃ باب الصلاۃ علی النبیﷺ)

 

ہے ابو طلحہ راویِ اخبار
واقفِ حالِ سیّدِ ابرار
اِس حقیقت سے کر گیا آگاہ
کہ جنابِ نبی رسول اللہ
لائے تشریف ایک دن باہر
تھی خوشی چہرۂ مبارک پر
تازگی و سرور و خوش حالی
لا
حقِ حالِ فارغ البالی
عین فرحت کے ساتھ پیشانی
مطلعِ آفتابِ نورانی
رُوئے پُر نور و عارضِ تاباں
اثرِ خُرّمی سے نور افشاں
صبحِ صادق جبین نورانی
عالَم آرا کشادہ پیشانی
حَبَّذَا کیا جبینِ والا ہے
کیا ہی
صَلِّ عَلٰی یہ سیما ہے
کیا کہوں وصفِ عالمِ خوبی
ہے بہارِ ریاضِ محبوبی
مطلعِ صبحِ آفرینش ہے
آفتابِ سپہر بینش ہے
نو بہارِ حدیقۂ ہستی
انتخاب صحیفۂ ہستی
لعل لب میں تبسمِ مستور
عاشقوں کی نظر میں شعلۂ طور
کیجیے یاں تو جان کو صدقے
جان کیا سب جہاں کو صدقے
قوسِ ابرو و چشمِ پُر اَنوار
جس کے دیکھے سے آئے دل کو قرار
کیا کہوں خوبی و جمال کا حال
عَینِ اعجاز ہے یہ حسن و جمال
گر لکھوں حلیہ و شمائل کو
حشر تک د
فترِ خصائل کو
ایک وصف بھی اختتام نہ ہو
مجھ سے پورا کبھی یہ کام نہ ہو
ذکرِ روئے شریف آیا تھا
اِس لیے دل نے جوش کھایا تھا
تھا کہاں اور گیا کہاں کافی
اب روایت کو کر بیاں، کافی!
یعنی جس وقت آپ خرّم و شاد
لائے تشریف یہ کیا ارشاد
کہ مِرے پاس
عقلِ کُل آیا
اور ایسا پیام پہنچایا
یعنی فرماتا ہے خدائے پاک
واسطے تیرے، اے شہِ
لَوْلَاک!
کہ نہیں اس پہ تیرا جی راضی
چاہیے ہو بہت خوشی راضی
ہے خوشی کا سبب یہ صاف عیاں
کہ تِرا اُمّتی کوئی انساں
گر پڑھے تجھ پہ ایک بار صلاۃ
اُس کو حاصل ہو اِس طرح کی بات
کہ نزولِ صلاۃ ہو دس بار
میری جانب سے اُس کو، اے مختار!
اور جو کوئی ایک بار سلام
تیرے اوپر کرے نثار سلام
اُس پہ میں دس سلام بھیجوں گا
ایک کا دس گُنا عوض دوں گا

 

غزل در نعت شریف

 

یا نبی! تم پہ بار بار سلام
بے عدد اور بے شمار سلام
روزِ اوّل سے لے کے تا بَہ ابد
آپ پر روز سو ہزار سلام
شبِ معراج میں خدا نے کیا
اپنے(؟) محبوب پر نثار سلام
؟؟؟ تھوڑا ہے آپ کی خاطر
؟؟؟ گر کروڑ بار سلام
؟؟؟ و اہل بیت پر صلوات
؟؟؟کرتا ہے یا رسول اللہ!
؟؟؟ خستہ و نزار سلام
؟؟؟ جاں بخش کی جواب کا ہے
؟؟؟ کا انتظار سلام

 

تنبیہ

 

ہے کتابِ دلائل الخیرات
مخزن و مجمع سلام و صلاۃ
جو حدیثیں وہاں ہُوئی ہیں وُرود
بصفاتِ صلاۃ  و وردِ دُرود
واں مصنّف نے اختصار کیا
واسطے اور سند کو چھوڑ دیا
جو حدیثیں وہاں سے لیں میں نے
بے سند ویسی ہی لکھیں میں نے

 

...

اَلسَّلَام، اے نبی کریم نہاد

حدیثِ چہار دہم از دلائل الخیرات

 

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِیْ اَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً۔

 

ہے حدیثِ دلائل الخیرات
کہ جنابِ نبی ستودہ صفات
دیتے تھے بس یہی نویدِ عجیب
کہ بَہ تحقیق ہے وہ میرے قریب
جس کسی نے بہت پڑھا ہے دُرود
مجھ پہ وہ بھیجتا رہا ہے دُرود
جس نے کی ہے دُرود کی کثرت
اُس کو اِس طرح کی ملی دولت
حشر میں میرے پاس آئے گا
جس نے کثرت سے ہے دُرود پڑھا
اِس فضلیت کو، ہمدمو! سوچو
جس قدر ہو سکے دُرود پڑھو
جو فدائے دُرود خوانی ہے
اُس کو کیا
عیشِ جاودانی ہے
جب کہ حضرت نبی کا ساتھ ملے
حشر میں پھر نہ کیوں نجات ملے
 

غزل در نعت شریف

 

اَلسَّلَام، اے نبی کریم نہاد
اَلسَّلَام، اے خلاصۂ ایجاد
اَلسَّلَام، اے حبیبِ یزدانی
اَلسَّلَام، اے رسولِ رحمانی
اَلسَّلَام، اَلسَّلَام، خیرِ اَنام
اَلسَّلَام، اے نبیِ ذی الاکرام
اَلسَّلَام، اے نبی، شفیعِ اُمم
عَینِ احسان و رحمتِ عالَم
اَلسَّلَام، اے جلیسِ غمگیناں
اَلسَّلَام، اے رفیقِ بیماراں
اَلسَّلَام، اے شفیقِ غم خواراں
بَہ جنابِ تو، کؔا
فیِ ناکام
می کند عرض صد صلاۃ و سلام

 

...

نامِ حضرت پہ لاکھ بار دُرود

حدیثِ پانزدہم از دلائل الخیرات

 

:قَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

بِحَسْبِ الْمَرْءِ الْمُؤْمِنِ مِنَ الْبُخْلِ اَنْ اُذْکَرَ عِنْدَہٗ وَلَا یُصَلِّیْ عَلَیَّ۔

 

یہ جو مروی حدیثِ حضرت ہے
جائے عبرت ہے جائے عبرت ہے
شاہِ
لَوْلَاک نے یہ فرمایا
حق کے محبوب نے کہا ایسا
یعنی وہ شخص ہے شدید بخیل
سب بخیلوں سے ہے شدید بخیل
جس کسی نے کہ میرا نام لیا
اور سن کر دُرود کو نہ پڑھا
چاہیے تھا اُسے دُرود پڑھے
نام میرا سنا تھا جس لمحے
نہ کہا نام سن کے
صَلِّ عَلٰی
پس بخیلی میں وہ شدید ہُوا
اے محبّو! سنو جب آپ کا نام
بھیجو اُن پر دُرود اور سلام

 

غزل در نعت شریف

 

نامِ حضرت پہ لاکھ بار دُرود
بے عدد اور بے شمار دُرود
ہم کو پڑھنا خدا نصیب کرے
دم بَہ دم اور بار بار دُرود
کون جانے دُرود کی قیمت
ہے عجب دُرِّ شاہ وار دُرود
مومنو! آپ پڑھے جاؤ
با ادب اور باوقار دُرود
تا بکے عشق ِ گُل میں نوحہ کرے
گُل سے بہتر ہے یہ ہزار بار دُرود
جائے مرہم ہے دل افگاروں کو
راحتِ جانِ بے قرار دُرود
نزع میں، گور میں، قیامت میں
ہر جگہ یار غم گسار دُرود
جو محبِّ نبی ہے، اے کاؔفی!
چاہیے اُس کو بار بار دُرود

...