نسیمِ جنت  

چمکا جہاں میں جب مہِ اقبالِ مصطفیٰﷺ

حدیث بست و ہفتم از کتاب مشارق الاَنوار

 

عَنِ ابْنِ  عُمَرَ وَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَشْھِدُوْا اَشْھِدُوْا وَ یُرْوٰی اَللّٰھُمَّ اَشْھِدْ قَالَہٗ عِنْدَ اِنْشِقَاقِ الْقَمَرِ۔

 

حَبَّذَا ذاتِ صاحبِ لَوْلَاک
عینِ اعجازہے یہ جوہرِ پاک
ہیں بِلا ریب وہ حبیبِ خدا
اُن کو اللہ نے دیا کیا کیا
جو کہ اعجاز انبیا کے تھے
سب وہ اپنے حبیب کو بخشے
اور اُس کے سوا بہت اعجاز
خاص اُن کو دیے، کیا ممتاز
واہ کیا ایک ہی اشارے سے
کر دیا قرصِ ماہ دو ٹکڑے
ابنِ مسعود اور ابنِ عمر
کہتے ہیں: وقتِ انشقاقِ قمر
ایسا فرماتے تھے رسول اللہ
رہو، اے لوگو! تم گواہ گواہ
اور راوی نے یہ ہی کی تقریر
کہ جنابِ نبی بشیر و نذیر
اُس گھڑی اِس طرح ہُوئے گویا
یا الٰہی! گواہ تو رہنا
الغرض، ہے جو حالِ شقِّ قمر
اُس میں راوی ہیں متفق اکثر
اور مذکور ہے خبر اس کی
اوّلِ سورۂ قمر میں یہی
جب کریں آپ ماہ دو ٹکڑے
دلِ کفّار کیوں نہ ہو ٹکڑے
مصطفیٰ نے کیا دو نیم قمر
اشقیا کیوں نہ ہوئیں خاک
اب تو، کاؔفی! سنا نئے اشعار
بَہ صفاتِ نبی شہِ ابرار

 

غزل در نعت

 

چمکا جہاں میں جب مہِ اقبالِ مصطفیٰ
ماہِ سپہر ہو گیا پامالِ مصطفیٰ
اک زلزلہ سا کوشکِ کسریٰ میں پڑ گیا
چمکی جو برقِ شوکت و اجلالِ مصطفیٰ
دعویٰ ہُوا ہے کانِ جواہر کا گوش کو
سن کر حدیثِ لعل پُر افضالِ مصطفیٰ
بس آرزو یہی دلِ حسرت زدہ کی ہے
سنتا رہے شمائل و احوالِ مصطفیٰ
کافؔی ہے اپنے واسطے گر منکر و نکیر
دکھلائیں لا کے قبر میں تمثالِ مصطفیٰ

...

اے تباشیرِ سحر عکسِ رخِ تابانِ تو

حدیث بست و ہشتم از کتاب مشارق الانوار

 

عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ لَا ھُلْکَ عَلَیْکُمْ اَطْلِقُوْا اِلٰی عُمْرِیْ قَالَہٗ ظَھِیْرَۃَ لَیْلِةِ التَّعْرِیْسِ۔

 

قول ہے یہ ابو قتادہ کا
کہ جنابِ نبی نے فرمایا
 تم نہ ہوگے ہلاک، اے لوگو!
کھول لاؤ میرے پیالے کو
آپ نے یہ کہا تھا اُس ہنگام
آخرِ شب جہاں کیا تھا مقام
شبِ تعریس اُس کو ہیں کہتے
آخرِ شب تھی وہ جہاں اُترے
اور وہ رات جب تمام ہُوئی
روزِ روشن کو صبح دکھلائی
دوپہر بھی ڈھلی جب اُس دن کی
آپ نے جب یہ بات فرمائی
اِس خبر میں رہا جو رہا ہے اِجمال
اُس کا شارح نے یوں لکھا ہے حال
یعنی تشریف آپ جب لائے
پھر کے جنگِ تبوک سے آئے
تھا ترقی پہ موسمِ گرما
اور اُس سر زمیں میں آب نہ تھا
واں ہُوا جب زوالِ نصف ِ نہار
لوگ بولے کہ، اے شہِ ابرار!
ہم یہاں اب ہلاک ہوتے ہیں
تشنہ کامی سے جان کھوتے ہیں
تب وہاں آپ نے یہ فرمایا
اور پیالے کو اپنے منگوایا
تھا کجاوے میں جو کسا کاسہ
پیشِ حضرت وہ لا رکھا کاسہ
آپ نے پھر وضو کے برتن سے
ڈالا کاسے میں آب کچھ لے کے
پھر اُٹھا کر وہ کاسۂ پُر آب
لبِ جاں بخش سے کیا سیراب
خواہ پانی پیا و یا نہ پیا
یا کہ کچھ اُس کے درمیاں پھونکا
اُس میں پھر اِس قدر رہا پانی
سارے لشکر نے پھر پیا پانی
ایسا راوی نے یاں کیا اظہار
آدمی فوج میں تھے تیس ہزار
اور کہتے ہیں یہ بھی ا
ہلِ خبر
تھا وہ ستّر ہزار کا لشکر
سب کے سب کو پلا کے آپ
نے آب
عینِ اعجاز سے کیا سیراب
دیکھتا کیا ہے مدح کاؔفی
عرض کر کچھ صفاتِ مصطفوی

 

غزل در نعت

 

اے تباشیرِ سحر عکسِ رخِ تابانِ تو
آبِ حیوانِ رشحۂ آبِ لبِ خندانِ تو
؟؟؟ طُفیلِ خاکِ پایت رونقِ باغِ جناں
 گُلشنِ ایجادِ برگے از بہارستانِ تو
حَبَّذَا صَلِّ عَلٰی اے گیسوے خیر الورا
رشکِ اذفر نفحۂ از جنبشِ دامانِ تو
از تجلّیِ رخت  خورشید باشد لمعۂ
؟؟؟ فض ؟؟؟ از دست نور افشانِ تو
؟؟؟ عالم از بہارِ حسن تو باشد گلی
؟؟؟ نوح منقش از نگارستانِ تو
اے نگاہت جو ہرِ آئینۂ نورِ یقیں
دیدۂ اہلِ بصیرت ہر زماں قربانِ تو
اے وجودت آفتابِ آسمانِ معرفت
صد جہانِ اہلِ عرفاں روشن از عرفانِ تو
رحم کن رحمی نما اے رحمۃ للعالمیں
اے کلیدِ رحمتِ حق درکفِ احسانِ تو
درد دارم دردِ سر از لطف بخشا یک نظر
اے شفائے دردِ من وابستۂ درمانِ تو
صد جہاں عاصی بَہ میدانِ شفاعت روزِ حشر
کم ز گو ئی درمیانِ عرصۂ جولانِ تو
می کند ابلاغِ تسلیم و سلامِ بے شمار
بندۂ کاؔفی بَہ روحِ پُر فُتوحِ جانِ تو
ہم بَہ روحِ عترتِ اطہار و اہلِ بیتِ تو
ہم بَہ جانِ پاکِ اصحابِ معظّم شانِ تو
بر امیدِ آں کہ بعد از روزگارِ بشنوم
یک جواب از لعل سیرابِ لبِ خندانِ تو

...

ہے حدیثِ جنابِ مصطفوی

حدیثِ بست و ششم از کتاب دلائل الخیرات

 

قَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

مَنْ عَسُرَتْ عَلَیْہِ حَاجَتُہٗ فَلْیُکَثِّرْ بِالصَّلَاۃِ عَلَیَّ فَاِنَّھَا تَکْشِفُ الْھُمُوْمَ وَالْغُمُوْمَ وَالْکُرُوْبَ وَ تُکَثِّرُ الْاَرْزَاقَ وَ تَقْضِی الْحَوَآئِجَ۔      

 

ہے حدیثِ جنابِ مصطفوی
جس کو لاحق ہو عسرت و تنگی
اور حاجت بھی اُس کی بند رہے
یعنی وہ شخص مستمند رہے
ہے یہ لازم پڑھے دُرود کثیر
میرے اوپر وہ درد و غم کا اسیر
جب کرے گا دُرود کی کثرت
بر طرف ہوگی حاجت و عسرت
غم سے فارغ دُرود خواں ہوگا
رزق و روزی سے کامراں ہوگا
جس نے، کاؔفی! دُرود خوانی کی
دونوں عالَم میں کامرانی کی
بَہ جنابِ نبی رسولِ کریم
صد ہزاراں تحیّت و تسلیم

...

سیّدِ کائنات و خیرِ اَنامﷺ

حدیثِ بست و نہم از کتابِ مشارق الانوار

 

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

إِنِّي لَاَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ اَنْ اُبْعَثَ اِنِّيْٓ لَاَعْرِفُهُ الْاٰنَ۔(رَوَاہُ الْمُسْلِمُ)

 

  ہے روایت زبانِ جابر سے
اُس حدیث و خبر کے ذاکر سے
کہ جنابِ نبی ستودہ خصال سے
کہتے تھے ہم سے یہ حقیقتِ حال
یعنی مکّے میں ایک پتھر تھا
میرے اوپر سلام تھا کرتا
اُس کو پہچانتا ہوں میں تحقیق
اب تلک جانتا ہوں میں تحقیق
ہے یہ مذکور
قبلِ بعثت کا
کہ وہ پتھر سلام کرتا تھا
اور حضرت علی بھی کہتے ہیں
کہ بَہ ہمرا
ہیِ نبی تھا
وہ جدھر کو قدم اُٹھاتے تھے
اور حضرت جدھر کو جاتے تھے
جو حجر اور جو شجر ملتا
وہ
سَلَامٌ عَلَیْک کہتا تھا
حَبَّذَا رتبۂ حبیبِ خدا
سنگ نے بھی اُنھیں سلام کیا
جائے عبرت ہے، کاؔ
فیِ ناکام!
کہ کرے آپ کو جماد سلام
اور انسان عقل و ہوش کے ساتھ
ہو نہ مصروف وِردِ تسلیمات
بلکہ انساں کو چاہیے کہ مدام
عرض کرتا رہے دُرود و سلام

 

غزل در نعت

 

سیّدِ کائنات و خیرِ اَنام
اُن کے اوپر ہزار بار سلام
طاقِ ایوانِ آفرینش کا
ہے اُنھیں کے سبب قیام و نظام
بے نظیرِ جہاں بَہ حسن و جمال
بے مثالِ بشر بَہ خاص و عام
کیا لکھوں نعتِ صاحبِ
لَوْلَاک
 عقل و دانش ہے قاصر و ناکام
عَینِ ایماں ہے آپ کی اُلفت
ہے یہی دین اور یہی اسلام
ذاتِ پاکِ شفیعِ محشر کا
ہے وسیلہ ہمیں بروزِ قیام
کشتۂ شوقِ کاؔفیِ ناکام
ہیچ لیل و نہار، صبح و شام
بَہ جنابِ نبی حبیبِ خداﷺ
ہدیۂ رحمت و دُرود و سلام

...

ستوں کی دیکھ کر حالت صحابہ سر بَہ سر روئے

حدیثِ سی ام از مشکوٰۃ شریف در بابِ معجزات

 

عَنْ جَابِرِ قَالَ:

کَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِذَا خَطَبَ اسْتَنَدَ اِلٰی جِذْعِ نَخْلَۃٍ مِّنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ فَلَمَّا صُنِعَ لَہُ الْمِنْبَرُ فَاسْتَوٰی عَلَیْہِ صَاحِبُ النَّخْلَۃِ الَّتِیْ  كَانَ عِنْدَهَا حَتَّى كَادَتْ اَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهَا، فَضَمَّهَا اِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَاِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِيْ يُسَكَّتُ، حَتَّى اسْتَقَرَّتْ، قَالَ: «بَكَتْ عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ۔( رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)

 

لائقِ کبریا ہے وہ خلّاق
جس نے پیدا کیا جہانِ وفاق
ہے وہ نقاشِ کارگاہِ جمال
جس کا پیدا نہیں نظیر و مثال
اُس نے پیدا کیا حسینوں کو
رشکِ خورشید مہ جبینوں کو
صانع و خالق و قدیر وہ ہے
اپنی قدرت میں بے نظیر وہ ہے
ہے سزا وار اُس کو یکتائی
حسن و خوبی، جمال و زیبائی
شانِ وحدت میں ہے لطیف و جمیل
ہے وہ ربِّ جلیل بے تمثیل
یہ تماشا ظہور و کثرت کا
ایک شمّہ ہے اُس کی صنعت کا
 الغرض، عَینِ نور و حسن و ضیا
اپنے محبوب کو کیا پیدا
شرفِ کائنات و موجودات
برتر و بہتر و گزیدہ صفات
بَہ جمال و شما
ئلِ احسن
بَہ کمال و خصا
ئلِ احسن
باغِ ایجاد میں گُلِ یکتا
احمدِ مصطفیٰ حبیبِ خدا
کیا کہوں اُن کا وصفِ زیبائی
سارا عالَم ہے جس کا شیدائی
کیا کہوں خوبی و جمال کا حال
عَینِ اعجاز ہے یہ حسن و جمال
اُن کے اعجاز پر رہے کیا شک
جب کہ عاشق ہو چوبِ خشک تلک
جابرِ معتبر کی یہ تقریر
پیش منظر ہے صورتِ تصویر
واہ وا کیا بیان کرتا ہے
لوحِ دل پر نشان کرتا ہے
دل میں یہ حال ہے بسا جاتا
اور نظروں میں ہے کہا جاتا
کہ جنابِ نبی رسولِ کریم
اُن کے اوپر تحیّت و تسلیم
تکیہ کر کے ستونِ مسجد کا
خطبہ پڑھتے تھے حمدِ  واحد کا
اور کچھ وعظ و پند کرتے تھے
ا
ہلِ ایماں پسند کرتے تھے
پھر جو منبر کیا گیا تیار
اور مسجد میں لا رکھا اک بار
ہُوئے اُس دن جنابِ پیغمبر
رونق افروز برسرِ منبر
گئے منبر پہ جب رسول اللہ
شاق گزرا یہ اُس ستون کو، آہ!
فرقت و ہجر سے ہُوا بے چین
رو اُٹھا بے خودانہ شیون و شین
اِس طرح وہ سُتون چلّایا
سننے والوں کو سخت گھبرایا
؟؟؟ ستونِ مسجد سے
دل لرزتے تھے سننے والوں کے
دم بَہ دم اور متّصل پے ہم
؟؟؟ فریاد تھا بَہ درد و الم
عاشقِ بے قرار روتا تھا
سننے والوں کے تاب کھوتا تھا
تھا عیاں اُس کی شانِ زاری سے
اب یہ پھٹتا ہے بے قراری سے
کیا قیامت ستون رکھتا ہے
کوئی  دم میں دو نیم ہوتا ہے
جب حنین و بکا وہ زاری
آپ کے گوشِ پاک تک پہنچی
دیکھ کر اس ستون کے بے چین
اُترے منبر سے سرورِ کونین
عاشقِ بے زبان پہ لطف کیا
اُس کو آغوشِ پاک میں پکڑا
اُس کی منظور جو تسلّی تھی
گرمِ تسکیں رہے جناب نبی
یہ بھی راوی نے یاں بیان کیا
ایسا ہوتا تھا اُس گھڑی مفہوم
جیسے کودک کسی کا ہو گریاں
اور اُس کو کہیں  نہ رو اب ہاں
وہ نہ چھوڑے بکا وزاری کو
ضبطِ رقّت کی اُس کو تاب نہ ہو
تھا بس ایسا ہی اُس ستون کو جوش
ہو نہ سکتا تھا یک بَہ یک خاموش
دیر تک گرچہ بے قرار رہا
و
صلِ احمد نے پھر خموش کیا
دیکھ کر اُس کا نالہ و فریاد
اِس طرح آپ نے کیا ارشاد
جوشِ رقّت کا اس کے تھا یہ سبب
تھا یہ محوِ سماعِ ذکرِ رب
اب یہ دولت نصیبِ منبر ہے
اِس لیے یہ حزین و مضطر ہے
یوں بھی وارد ہُوا روایت میں
سِیَرِ خاتمِ رسالت میں
کہ سزاوارِ شانِ تمکیں نے
ایسا فرمایا سرورِ دیں نے
میں جو تسکیں نہ دے کے سمجھاتا
نالہ زاری یوں ہی کیے جاتا
میری فرقت میں حشر تک روتا
تا قیامت بلک بلک روتا
حَسنِ تابعی سے ہے مروی
جب بیاں کرتے یہ حدیث نبی
دم بَہ دم اشک بار ہوتے تھے
اور بے اختیار روتے تھے
کہتے تھے حاضر
ینِ مجلس کو
قدرِ
عشقِ محمدی سمجھو
چوبِ خشک  ستونِ مسجد سے
آپ کے عشق میں کیے ؟؟؟
ہے سزاوار تو کو، اے لوگو!
عشقِ احمد میں خوب سا رولو
عشقِ احمد خدا نصیب کرے
عا
شقِ رویتِ حبیب کرے
کیوں نہ اس غم میں روئیے، کاؔفی!
ہے قیامت فراقِ مصطفوی
عاشقانہ غزل سناتا ہوں
او محبّو! تمھیں رُلاتا ہوں

غزل در نعت

 

ستوں کی دیکھ کر حالت صحابہ سر بَہ سر روئے
تمامی حاضرانِ مجلسِ خیر البشر روئے
رلادے جب کہ چوبِ خشک کو حضرت کی مہجوری
کہو پھر عَینِ عبرت سے نہ کیوں کر ہر بشر روئے
سُنی جب اُس ستونِ عاشقِ بے تاب کی زاری
رسول اللہ کے اصحابکیسے کس قدر روئے
کوئی ایسا نہ تھا اُس بزم میں جس پر نہ تھی ؟؟؟
بہت روئے بہت روئے نہایت بیشتر روئے
پھر آ جاتا ہے آنکھوں میں وہ عالم اُن کے رونےکا
کہ کس کس طرح سے اصحابِ با سوزِ جگر روئے
اُدھر گرمِ فغاں ہا وہ ستوں صدمے سے فرقت کے
اِدھر یہ شدّتِ فرقت سے با صدچشمِ تر روئے
ستوں خاموش ہوتا تھا نہ یہ رونے سے ؟؟؟ تھے
وہ آہیں مار چلّایا یہ دل کھول کر روئے
ستوں نے یہ کیے نالے کہ چشمِ حال سے اُس دم
شجر روئے، حجر روئے سبھی دیوار و در روئے
رسول اللہ کی اُلفت، محبّو! عَینِ ایماں ہے
فراقِ مصطفیٰ میں اہلِ ایماں عمر بھر روئے
تصوّر آ گیا رونے میں جب لمعانِ دنداں کا
تو مشتاقانِ دندانِ نبی سلکِ گہر روئے
لبِ لعلِ مبارک کے جو مشتاقِ زیارت تھے
بجائے اشک عین شوق میں لختِ جگر روئے
بَہ شکلِ ابر، اے کاؔفی! یہ مہجوروں کا عالَم ہے
یہاں روئے، وہاں روئے، اِدھر روئے، اُدھر روئے

...

گر صادقی و مومنِ کامل بَراہِ دیں

حدیثِ سی و یکم ازکتاب ’’جامع صغیر‘‘ نوشتہ شد

 

عَنْ اَبِیْ نَصْرٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ:

اَدِّبُوْآ اَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ:حُبِّ نَبِیِّکُمْ وَ حُبِّ اَھْلِ بَیْتِہٖ وَ قِرَآءَۃِ الْقُرْآنِ، فَاِنَّ حَمَلَۃَ الْقُرْاٰنِ فِیْ ظِلِّ اللہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ مَعَ اَنْبِیَآئِہٖ وَ اَصْفِیَآئِہٖ۔

 

یہ ابو نصر نے حدیث لکھی
یعنی ہے حکم و ا
مرِ مصطفوی
ایسا فرماتے تھے نبی کریم
اپنی اولاد کو کرو تعلیم
دو ادب اُن کو تین چیز کے ساتھ
اور سکھلاؤ اُن کو تین صفات
ایک تو
حُبِّ مصطفیٰ میں رہیں
اور مصروف اِس ولا میں رہیں
دوسری
حُبِّ اہلِ بیتِ نبی
ہوئے حاصل بَہ اِختصاصِ ولی
تیسری وہ پڑھا کریں قرآں
جس سے حاصل ہو عَیشِ جاویداں
کہ بَہ تحقیق دن قیامت کے
حا
ملِ مصحفِ خدا کے لیے
سایۂ رحمتِ خدا ہوگا
حشر میں ظِلِّ کبریا ہوگا
وہ قیامت کا روز ہے ایسا
ظلّ و سایہ جہاں نہیں پیدا
ہوں گے اُس دن یہ حا
ملِ قرآں
سایۂ کردگار میں بَہ  اماں
انبیا، اَصفیا کے  ہوں گے ساتھ
یعنی دیکھیں گے وہ یہ راہِ نجات
ہو تجھے خیر کی جزا، کاؔفی!
اور بھی شعر کچھ سُنا، کاؔفی!

 

اشعار

 

گر صادقی و مومنِ کامل بَراہِ دیں
حُبِّ نبی و آلِ نبی را تو برگزیں
قرآں بخواں کہ خواندان قرآن بہتر است
ظِلِّ خدا برای تو در روزِ محشر است

...

کاؔفی! بگزیں تو حُبِّ اولادِ رسول

حدیثِ سی و دوم ازکتاب ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ ، بابِ مناقبِ اہلِ بیتِ نبیﷺ

 

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ وَقَّاصٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ:

نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ  (آلِ عمران: ۶۱)

دَعَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ عَلِیًّا وَّ فَاطِمَۃَ وَ حَسَنًا وَّ حُسَیْنًا فَقَالَ:

اَللّٰھُمَّ ھٰٓؤُلَآءِ اَھْلُ بَیْتِیْ۔ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ)

 

اِس روایت کے واسطے، کاؔفی!
سعد کا قول ہے ہمیں کافی
یعنی نازل ہُوئی یہ جب آیت
نَدْعُ اَبْنَآءَنَا کی سب آیت
شاہِ
لَوْلَاک نے کیا ایسا
فاطمہ و علی کو بُلوایا
اور حسنین کو بھی اُن کے ساتھ
جمع یک جا کیا اُسی اوقات
پھر یہ کہتے نبی وہ ماہِ عرب
یہ مِرے ا
ہلِ بیت ہیں، یا رب!
فاطمہ و حسن، حسین و علی
ہیں بلا شک یہ ا
ہلِ بیتِ نبی
جو محبِّ نبی ہے، اے کاؔفی!
اُس کو واجب ہے دوستی اُن کی
 

رُباعی

کاؔفی! بگزیں تو حُبِّ اولادِ رسول
نورِ نظرِ رسول حسنین و بتول
ہم الفتِ حیدر بدل و جاں بگزیں
تا ثمرۂ ایمانِ تو کردد مقبول
 

...

اہلِ بیتِ احمدِ مختارﷺ کی کیا شان ہے

حدیثِ سی و سوم از مشکوٰۃ در مناقبِ اہلِ بیت

 

عَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا قَالَتْ:

خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَّعَلَيْهِ مِرْطٌ مُّرَحَّلٌ مِّنْ شَعْرٍ اَسْوَ دَ، فَجَآءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَاَدْخَلَهٗ، ثُمَّ جَآءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهٗ، ثُمَّ جَآءَتْ فَاطِمَةُ فَاَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَآءَ عَلِيٌّ فَاَدْخَلَهٗ، ثُمَّ قَالَ:

’’اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجْسَ اَہۡلَ الْبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیۡرًا‘‘ (اَلْاَحْزَاب: ۳۳)۔ (رَوَاہُ  مُسْلِمٌ)

 

عائشہ سے ہُوا ہے یوں مروی
کہ حقیقت یہ ایک دن گزری
کہ جنابِ نبی بَہ وقتِ سحر
لائے تشریف صبح دم باہر
آپ اوڑھے ہُوئے تھے ایک گلیم
تھی منقّش گلیم با تکریم
قسم مو کی گلیم والا تھی
کہ عجب نقش دار و زیبا تھی
پھر جو آئے حسن علی کے پسر
لے لیا اُس گلیم کے اندر
پھر حسین ابنِ حیدر ِ کرّار
آئے، اُن کو بھی لے لیا اک بار
؟؟؟ بنتِ رسول
لائے تشریف واں بَہ حُسنِ قبول
لے لیا اُس کے بیچ اُن کو بھی
اپنے پہلو میں آپ نے جا دی
بعد اِس کے جو مرتضیٰ
آئے
اُن کو بھی اُس گلیم میں لائے
پھر پڑھا آپ نے اِس آیت کو
اُن کی ثابت کیا طہارت کو
یعنی اللہ کو یہ ہے منظور
کہ وہ تم سے کرے نجاست دور
پاک تم کو گناہ سے کر دے
دور عصیاں کے راہ سے کر دے
تم کو اے ا
ہلِ بیتِ پیغمبر
کر دے اللہ طاہر و اطہر
کاؔ
فیِ مدح خوانِ آلِ عبا
اب غزل پڑھ بَہ شانِ آلِ عبا

 

غزل

 

اہلِ بیتِ احمدِ مختار کی کیا شان ہے
اُن کی ذاتِ پاک گویا کشتیِ طوفان ہے
دامنِ آلِ نبی دستِ یقیں میں جس کے ہے
ساحلِ مقصود اُس کے واسطے آسان ہے
اقتدا و اتّباع آلِ رسول اللہ کا
مومنوں کو مغفرت کا کیا بڑا سامان ہے
جو محبِّ اہلِ بیتِ سیّدِ کونین ہے
واسطے اُس کے بہار و روضۂ رضوان ہے
عفّت و عصمت، طہارت، پارسائی، اتّقا
شان میں اُن کے تمامی لائق و شایان ہے
کیوں نہ ہو اُس کو اماں خورشیدِ محشر سے؟؟؟
جس کے سر پر حُبِّ اہلِ بیت کا دامان ہے
آیتِ تطہیر جن کے وسطے نازل ہُوئی
وہ جنابِ مصطفیٰ کی آل والا شان ہے
ہم کو، اے کاؔفی! محبّت عترتِ اَطہار کی
دین ہے، اسلام ہے، ایمان ہے، عرفان ہے

...

لکھوں کیا منقبت شیرِ خدا﷯ کا

حدیثِ سی و چہارم از مشکوٰۃ ،مناقبِ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہٗ

 

عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قَالَ:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَحْمَدُ)

 

یہ روایت ہے زید ارقم سے
اُس صحابی ثقہ مکرّم سے
کہ رسولِ خدا نے فرمایا
یعنی میں جس کسی کا ہوں مولا
اُس کا مولا ہے بس علی ولی
ابنِ عمِّ محمدِ عربی
اور تفصیل اِس روایت کی
اِس طرح سے حدیث میں آئی
کہ نبی جب اخیر حج سے پھرے
بَہ مکانِ غَدِیرِ خُمّ اُترے
کر کے اَصحاب کو وہاں یک جا
ہاتھ میں ہاتھ مرتضیٰ کا لیا
پیشِ اصحابِ زمرۂ اخیار
کر دیا رتبۂ علی اظہار
یعنی واں یہ حدیث فرمائی
دی علی﷜ کو شرف سے آگاہی
اور یہ بھی لکھا ہے راوی نے
 کہ بَہ نزدِ علی، عمر آئے
اور کہنے لگے کہ، یا حیدر!
ابنِ عمِّ جنابِ پیغمبر
آج تم نے وہ مرتبہ پایا
کہ ہُوئے مومنین کے مولا
ہو مبارک یہ مرتبہ تم کو
آج تم ہر بشر کے مولا ہو
سوچتا کیا ہے، کاؔ
فیِ مضطر!
ہے مقامِ مَناقبِ حیدر

 

مَناقب

 

لکھوں کیا منقبت شیرِ خدا کا
علی حیدر امامِ اولیا کا
زیادہ فکر و فہم و عقل سے ہے
مَناقب ابنِ عمِّ مصطفیٰ کا
علی ہے پیشوا ہادی و مولا
تمامی اُمّت ِ خیر الوریٰ کا
درِ حیدر کا جو کوئی گدا و
 نہ ہو محتاج وہ ظِلِّ ہُما کا
کہیں کیوں کر نہ ہم ’’مولیٰ‘‘ علیکو
یہ ہے ارشاد ختم الانبیا کا
شرف کحلِ جواہر پر رکھی ہے
یہ رتبہ ہے علی کی خاکِ پا کا
تولّد وہ ہُوئے کعبے کے اندر
عجب رتبہ ہے شاہِ
لَا فَتٰی کا
ہُوا اُن سے منوّر قصرِ عرفاں
وہ ہے سلطان مُلکِ اَولیا کا
مناقب
ھَلْ اَتٰی سے ہے ہُویدا
سزاوارِ خطابِ
ھَلْ اَتٰی کا
یہ کافی تو گدائے خاکِ پا ہے
جنابِ مستطابِ مرتضیٰ کا

...

محبّت جس کو ہے آلِ عبا سے

حدیثِ سی و پنجم از مشکوٰۃ ،مناقبِ اہلِ بیت علیھم السلام

 

عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قَالَ لِعَلِیٍّ وَ  فَاطِمَۃَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ:

’’اَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَھُمْ وَ سَلْمٌ لِمَنْ سَالَمَھُمْ۔‘‘ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ)

 

زید ارقم سے یہ بھی ہے منقول
یعنی کہتے تھے یہ جنابِ رسول
مرتضیٰ شاہِ
لَا فَتٰی کے لیے
اور بہرِ بتول و بہرِ حسن
اور بہرِ حسین ہے یہ سخن
جو لڑے اِن  سے، میں لڑوں اُس سے
حرب اِن کے لیے کروں اُس سے
اورجو صلح اِن کے ساتھ کرے
صلح اور آشتی کی بات کرے
میں بھی کرتا ہوں صلح اُس کے ساتھ
اُس سے کرتا ہوں آشتی کی بات
کاؔ
فیِ خاک پائے آلِ عبا!
نظم کیجے ثنائے آلِ عبا

 

نظم

 

محبّت جس کو ہے آلِ عبا سے
اُسے الفت ہے ختم الانبیا سے
طہارت اہلِ بیتِ شاہِ دیں کی
ہُوئی ثابت کلامِ
اِنَّمَا سے
وہی مومن ہے جس کو ہے محبّت
علی، حسنین سے
خَیْرُالنِّسَا سے
عدو اُن کا عدوئے مصطفیٰ ہے
ہُوا منقول یہ خیرالورا سے
رہوں آلِ عبا کا میں ثنا خواں
یہی، کاؔفی! تمنّا ہے خدا سے

...