نسیمِ جنت  

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید

حدیثِ سی وہفتم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

لَا تَسَبُّوْٓا اَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّ اَحَدُکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نِصْفَہٗ۔‘‘ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید
وہ صحابی ہے مقتدا و رشید
یعنی کہتے تھے دو جہاں کے امام
میرے اَصحاب کو نہ دو دشنام
جو کوئی تم سے از برائے خدا
خرچ کر دے پہاڑ سونے کا
یعنی وہ شخص
مثلِ کوہِ اُحُد
زر لُٹائے گا بے عدد بے حد
کوہِ زر سے زیادہ تر ہوگا
نیم پیمانہ اُس صحابی کا
یارِ حضرت کی کیا فضیلت ہے
اُن کی صحبت کی کیا فضیلت ہے
جب کہ ہوں اُن سے مصطفیٰ راضی
اُن سے کیوں کر نہ ہو خدا راضی
میری اُلفت کے واسطے اُن کو
تم یہ چاہیے کہ دوست رکھو
بعد میرے نہ کیجیو ایسا
 کہ نشانہ بناؤ تیروں کا
یعنی اُن کو نہیں کرو دُشنام
 اور نہ لو اُن کا تم بدی سے نام
ہے تقاضا مِری محبّت کا
میرے یاروں کو تم کہو اچھا
میرے یاروں سے جس نے بغض رکھا
بغض گویا کہ اُس نے مجھے سے کیا
اور جس نے کہ اُن کو دی ایذا
وہ تو ایذا مجھی کو دی گویا
اور میرے تئیں ستائے جو
اُس نے ایذا دی میرے خالق کو
اور جس نے مجھے کیا ناراض
اُس نے اللہ کو رکھا ناراض
اُس پہ آئے گا عنقریب عذاب
حق تعالیٰ کرے گا سخت عتاب
آفریں تجھ کو مرحبا کاؔفی
وصفِ اَصحاب کہہ سنا کاؔفی!

 

غزل

بیاں کس مونھ سے ہو ہو جو رتبۂ اَصحابِ حضرت ہے
کہ اُن میں ہر بشر کے واسطے کیا کیا شرافت ہے
صحابی
کَالنُّجُوْم اُن کے مَناقب میں ہُوا وارد
کہ اُن تاروں سے روشن بُرجِ اَفلاکِ ہدایت ہے
نہیں اس سے زیادہ اور کوئی رتبۂ عالی
 کہ حاصل اُن کو
فیضِ صحبتِ ختمِ رسالت ہے
بجا ہے گر ملائک رشک کھائیں اُن کے رتبے پر
جَوارِ سیّدِ کونَین میں جن کی سُکونت ہے
مشرف جو ہُوئے ہیں دولتِ دیدارِ حضرت سے
تو اُن کے واسطے باغِ جناں گُلزارِ جنّت ہے
تمامی عدل تھے اور سب کے سب راہِ خدا پر تھے
یہی ہے مذہبِ حق، اعتقادِ ا
ہلِ سنّت ہے
امیر المومنیں صدّ
یقِ اکبر نائبِ حضرت
بَہ ایوانِ خلافت صدرِ ایوانِ صداقت ہے
پھر اُس کے بعد ہے فاروقِ اعظم جاہد و غازی
کہ انسانِ بصیرت مردمِ عَینِ عدالت ہے
مَناقب کیا کروں عثمانِ ذی النورین کا ظاہر
کہ عین و شرم و
تمکیں مخزنِ جود و سخاوت ہے
خدا کا شیر حیدر ابنِ
عمِ سروَرِ عالَم
وہ جس کے دستِ بالا دست میں
تیغِ شجاعت ہے
؟؟؟ عادت اَصحاب سلطان رسل باہم
؟؟؟ فتوت ہے مودّت ہے محبّت ہے
؟؟؟ دولتِ دیدار محبوبِ خدا جس کو
؟؟؟ طالع زہے مقسوم کیا وہ نیک  قسمت ہے
؟؟؟ راضی ہے اُن سے اور وہ راضی خدا سے ہیں
؟؟؟ رحمتِ عالَم کو اُن کے ساتھ شفقت ہے
ثنا خوانِ نبی ہُوں اور اَصحابِ نبی، کاؔفی!
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے مجھ کو اُلفت ہے

 

...

ہے انس نے بیاں کیا ایسا

حدیثِ سی ونہم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ صَعِدَ اُحُدًا وَّ اَبُوْ بَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ فَرَجَفَ بِھِمْ فَضَرَبَہٗ بِرِجْلِہٖ فِقَالَ اثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَ صِدِّیْقٌ وَ شَھِیْدانِ۔‘‘ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)

 

ہے انس نے بیاں کیا ایسا
کہ فرازِ اُحُد رسولِ خدا
ایک دن اس طرح سے آ نکلے
کہ ابو بکر ساتھ تھے اُن کے
اور فاروق بھی تھے آپ کے ساتھ
اور عثمان
مجمعِ حسنات
الغرض جب گزار فرمایا
زیرِ پائے نبی پہاڑ ہلا
جنبشِ کوہ جب ہوئی پیدا
آپ نے کوہ پر قدم مارا
اور اس طرح سے کہا اُس کو
کہ بس اب اے پہاڑ ساکن ہو
یعنی تو جانتا نہیں تجھ پر
اِس گھڑی کو کر رہا ہے گزر
ایک تو ہے رسول حق تحقیق
دوسرے ساتھ اُس کے ہے صدّیق
اور یہ دو شہید ہیں ہمراہ
یعنی ہمرا
ہیِ رسول اللہ
یاں زبانِ نبی سے بالتحقیق
ہوئی ثابت صداقتِ صدّیق
اور ثابت ہُوئی شہادت بھی
اُس جگہ سے عمر کی، عثماں کی
جن کا رتبہ زبانِ حضرت سے
ہوئے ثابت بیانِ حضرت سے
چاہیے ہم کو دوستی اُن سے
دوستی، اُلفتِ دلی اُن سے

 

مَناقب

 

مجھے اُلفت ہے یارانِ نبی سے
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے
محبّت اُن کی ہے ایمان میرا
میں اُن کا مدح خواں ہوں جان و جی سے
رسول اللہ کے یہ جا نشیں ہیں
نبی راضی ہے اُن سے، یہ نبی سے
یہ ہیں چرخِ نبوّت کے ستارے
جہاں روشن ہے اِن کی روشنی سے
صحابہ کا ہُوا ثابت مَناقب
زبانِ دُر فشانِ احمدی سے
رسول اللہ کب راضی ہیں اُن سے
جو ہو ناراض اَحبابِ نبی سے
جو ہیں اَصحاب اَنصار و مہاجر
مجھے حُسنِ عقیدت ہے سبھی سے
صحابہ کا یہ کاؔفی مدح خواں ہے
خلوصِ جان و اخلاصِ دلی سے

 

...

یہ انس کا بیانِ شافی ہے

حدیثِ چہلم از مشکوٰۃ ،بابِ اثبات عذاب القبر

 

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

 ’’اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِهٖ وَتَوَلّٰى عَنْهُ اَصْحَابُهٗٓ إِنَّهٗ  لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، اَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَہٗ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُوْلُ: اَشْهَدُ اَنَّهٗ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُهٗ، فَيُقَالُ لَهٗ: اُنْظُرْ اِلٰى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ اَبْدَلَكَ اللہُ بِهٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا - وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهٗ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَآ اَدْرِیْ كُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَہٗ: لَا دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَّسْمَعُهَا مَنْ يَّلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ‘‘۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

یہ انس کا بیانِ شافی ہے
واسطے مومنوں کے کافی ہے
یعنی خیرالوریٰ رسولِ کریم
ہم کو اس طرح کرتے تھے تعلیم
کہ بَہ تحقیق بندۂ معبود
گور اپنی میں جب کرے ہے وُرود
یار و اَحباب مُنھ پھراتے ہیں
یعنی اپنے گھروں کو جاتے ہیں
اُٹھتی ہے جو صدائے
کفشِ پا
دو فرشتے غرض وہاں آ کر
اور اُس کو لحد میں بٹھلا کر
اُس سے کرتے ہیں اس طرح کا سوال
اور واں پوچھتے ہیں یہ اَحوال
یعنی دنیا میں تو جو رہتا تھا
کہتا اِس شخص کے  لیے کیا تھا
لفظِ ’’
ھٰذَا الرَّجُل‘‘ سناتے ہیں
شکلِ حضرت بھی آ دکھاتے ہیں
اور کہتے ہیں اُس سے وہ انسان

تجھ سے اس بات کے ہیں ہم پُرسان
کہ
بحقِ نبی حبیبِ خدا
کیسا تو اعتقاد رکھتا تھا
 گر وہ مومن ہے، ا
ہلِ ایماں ہے
اس کو اُن کا جواب آساں ہے
ہیں محمد نبی رسول اللہ
یعنی دیتا ہوں میں گواہی صاف
یہ نبی ہیں، نہیں ہے کچھ اس میں خلاف
حق تعالیٰ کے ہیں یہ بندۂ خاص
ہیں محمد خلاصۂ اَشخاص
جب یہ اَوصافِ سیّدِ اَبرار
مردِ مومن کرے گا واں اظہار
حال یہ سن کے وہ مَلک دونوں
گور میں یوں کہیں گے مومن کو
دیکھ لے یہ مکان دوزخ کا
واسطے تیرے جو بنایا تھا
تو نے اس وقت خوب کام کیا
کہ رسولِ خدا کو پہچانا
دی گواہی بحالِ
ختمِ رُسُل
ہادیِ راہِ مقتدائے سبل
اس جگہ سے تِری جگہ بدلے
عوضِ نار، جا بہشت میں دے
پھر وہ مومن وہاں بحالِ سُرور
دیکھتا ہے وہ جائے آتش و نور
یعنی اپنا وہ نار کا ہے مقام
اور جنّت کا وہ مقامِ قیام
کہ طُفیلِ محمدِ عربی
اس کو حاصل ہُوئی وہ جائے خوشی
جب رسولِ خداﷺ کو پہچانا
اُس کو جنّت میں یہ مکان ملا
اُس نے دیکھا نہ پھر عذابِ گور
دور اُس سے رہا عقابِ گور
اور جو کافر و منافق ہو
گور میں جس گھڑی رکھیں اُس کو
مثلِ مومن سوال اُس سے کریں
؟؟؟ مَلک کشفِ حال اُس سے کریں
؟؟؟ جو غافل وہ حالِ حضرت سے
؟؟؟ خاتمِ رسالت سے
گور میں اس طرح سے جو کہتا
ان کو میں جانتا نہیں اصلا
میں تو واقف نہیں محمد سے
اور اَوصافِ حالِ احمد سے
مجھ کو نسبت نہیں ہے ان کے ساتھ
پوچھتے مجھ سے کیا ہو تم ہیہات
ان کے حق میں وہی تھا میرا کلام
کہتے تھے جس طرح سے اور عوام
پھر وہ کہتے ہیں اُس سے او انسان
نہ پڑھا تو نے کس لیے قرآن
یعنی پڑھتا اگر کلامِ خدا
جانتا مرتبہ محمدﷺ کا
حال سے اُن کے تو رہا غافل
آج ہے تیرے واسطے مشکل
کہہ کہ یہ بات وہ مَلک دونوں
ہاتھ میں لے کے گُرزِ آہن کو
اُس کے اُوپر وہ چھوڑ دیتے ہیں
پشت و پہلو کو توڑ دیتے ہیں
اُس پہ پڑتی ہے اِس طرح کی مار
کہ وہ مقہور کافرِ بد کار
شورِ بے اختیار کرتا ہے
بعد مرنے کے غم سے مرتا ہے
شور ہوتا ہے اس قدر برپا
کہ اُسے وحش و طیر ہے سنتا
جن و انسان پر نہیں سنتے
کہ وہ غافل ہے مطلقًا اس سے
جن و انسان بھی اگر سن لیں
سارے عیش و نشاط کو چھوڑیں
اے محبانِ صاحبِ
لَوْلَاک
اب یہ کہتا ہے
کاؔفیِ غم ناک
تم کو وہ دولتِ تمام ملے
آرزو جس کی انبیا نے کی
میرے کہنے کو تم ذرا مانو
رتبۂ د
ینِ احمدی جانو
بیش تر انبیا یہ کہتے تھے
اور اِس آرزو میں رہتے تھے
کاش! ہم ہوتے اُمّتِ احمد
دیکھتے
فیضِ صحبتِ احمد
مومنو! سوچ کر ذرا دیکھو
اُمّتِ
افضلِ بشر دیکھو
اپنے محسن نبی کی اُلفت میں
مستقل تم رہو شریعت میں
چاہتے ہو اگر رہائی کو
ساتھ حُبِّ مصطفائی کو
گور میں بھی یہ کام آئے گی
حشر میں حق سے بخشوائے گی
اور یہ التماس ہے میرا
تم سے او دوستانِ راہِ خدا
کہ یہ نظمِ چہل حدیث شریف
جو مرتّب ہُوئی بَہ فکرِ نحیف
شوق سے یعنی یہ کتاب لکھی
حُبِّ خیرالورا میں موزوں کی
نظم کا التزام ہے مشکل
بے تکلّف یہ کام ہے مشکل
کہیں لفظوں کا ترجمہ لایا
کہیں حاصل لیا ہے معنیٰ کا
میرے شعر وں میں جو خطا دیکھو
کلک اصلاح سے بنا دیجو
اب خدا ئے کریم سے ہے دعا
اِس دعا کو کرے قبولِ دعا

 

...

ہے جو اِس دل کا مُدَّعا، یا رب!

مُناجات

 

ہے جو اِس دل کا مُدَّعا، یا رب!
اپنی رحمت سے کر عطا، یا رب!
بَہ طُفیلِ نبی رسولِ کریم
ہو اِجابت مِری دعا، یا رب!
اب تو میں بے طرح تڑپتا ہوں
ہوں مِری مشکلیں روا، یا رب!
اور یہ بھی تیری جناب میں ہے
اب کفایت کی التجا، یا رب!
یعنی نظمِ نسیمِ جنّت میں
ہو گئی ہو جہاں خطا، یا رب!
اپنے پیارے حبیب کے صدقے
اُس خطا کو بھی بخشنا، یا رب!
مُونِسِ روزگارِ کاؔفی ہو
نعت و اَوصافِ مصطفیٰ، یا رب!

 

...

جس کے باعث کیا جہاں روشن

غزل در نعت

 

جس کے باعث کیا جہاں روشن
اور خورشیدِ آسماں روشن
مشرق و مغرب و جنوب و شمال
د
ینِ احمد سے ہر مکاں روشن
خوبی و حُسنِ مصطفائی سے
حُسن و خوبی کا گلستاں روشن
ہے فروغِ جمالِ احمد سے
قصرِ ہستی کا تاب داں روشن
شبِ اسرا میں اُن کے قدموں سے
ہو گیا گُلشنِ جِناں روشن
ہے وہ شرعِ منوّرِ نبوی
جس سے ہے بزمِ اِنس و جاں روشن
نعت و اَوصافِ مصطفیٰ میں رہے
یا الٰہی! مِری زباں روشن

 

...

آب وصفِ صاحبِ کوثرﷺ سے شیریں کام ہے

غزل در نعت

 

آب وصفِ صاحبِ کوثر سے شیریں کام ہے
ماہیِ کوثر زبانِ مدح خواں کا نام ہے
نعت و اَوصافِ جنابِ مصطفیٰ جس میں نہ ہو
وہ لب و دندان وہ کام و زباں نا کام ہے
عَینِ عرفانِ خدا عَینِ جنابِ مصطفیٰ
آہوئے بے عیب اُس عَینِ صفا کا نام ہے
رحمتِ عالَم کی اُمّت میں ہمیں پیدا کیا
کیا مقامِ شکرِ خلّاقِ ذَوِی الاِکرام ہے
یا الٰہی! میں بھی پہنچوں منزلِ مقصود کو
کار سازِ بے کساں، اللہ! تیرا نام ہے
جائے نومیدی نہیں درگاہِ ربّ العالمین
وسعتِ رحمت یہاں مصروفِ خاص و عام ہے
میں نہیں شاعر، مد
یحِ صاحبِ لَوْلَاک ہوں
ہم صفیرو! مجھ کو اپنے کام ہی کام ہے
مغتنم ہے بس کہ دورِ مدح خوانی مدح خواں
یہ زباں محشر تلک پھر عاطل و نا کام ہے
کاؔ
فیِ بیمار کو وصفِ جنابِ مصطفیٰ
قوّتِ دل راحتِ جاں موجبِ آرام ہے

 

...

اِتمام ہُوئی نسیمِ جنّت

تاریخِ  اِتمامِ نسیمِ جنّت

از مصنّف

 

اِتمام ہُوئی نسیمِ جنّت
یہ جادۂ مستقیمِ جنّت
سیرا
بیِ گلستانِ جاں ہے
جو طالبِ روئے مصطفیٰ ہے
اُس عا
شقِ زار کی دوا ہے
یہ ہے عرق بہار، کاؔفی
آرام دلِ ہزار، کاؔفی
تاریخ بھی خوب ہائی آئی
’’بوئے گُلِ باغِ اِصطفائی‘‘

 

۱۲۶۲ھ

 

تمام شد

 

بتاریخ چہار دہم ذی الحجہ ۱۲۹۵؁ھ باختتام رسید۔

 

 

...