رباعیات
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری
عیاں ہونے لگے انوارِ باری
یا ربّ تو ہے سب کا مولیٰ
سب سے اعلی سب سے اولیٰ
صانع نے اِک باغ لگایا
باغ کو رشک خلد بنایا
آئیں بہاریں برسے جھالے
نغمہ سرا ہیں گلشن والے
چھائے غم کے بادل کالے
میری خبر اے بدرِ دُجیٰ لے
ساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں
کیوں نہیں دیتا ہمیں جامِ شرابِ ارغواں
دنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیں
جس کی مدد پہ حضرت فضل رسول ہیں
توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی
نہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی