جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک
جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے
...
اِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میں
یہ وہ ہے آٹھ سو کم کر کے جو کچھ رہ گیا باقی
دلم از فرقت استادم سوخت
ازلبم چوں نہ برآید فریاد
ہر کہ پُرسید زمن باعث غم
گفتمش سوئے جناں رفت استاد
سال فوتش ز جوابم جوئید
دیگر امروز نمید ارم یاد
۱۳۲۶ھ
تمت٭
گلریز بنا ہے شاخِ خامہ
فردوس بنا ہوا ہے نامہ
آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں
قابو میں نہیں دلِ پریشاں
اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہے
مے خوار کے دل رُبا کہاں ہے
تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلی
فرماتے ہیں اس میں یوں معالی
مولانا عبدِ حق محدث
وہ سرورِ انبیا کے وارث
فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالی
ہیں ابن حضور پاک(۱) راوی