تم ہو حسرت نکالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے
نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے
بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی
سواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی
نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری
کفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری
ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے
ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے
ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربار
گواہ ہیں دلِ محزون و چشمِ دریا بار
طرح طرح سے ستاتا ہے زمرۂ اشرار
بدیع بہر خدا حرمتِ شہِ ابرار
مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار
نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار
السلام اے خسروِ دنیا و دیں
السلام اے راحتِ جانِ حزیں