آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا
آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتاروز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقفمیں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتیکیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاباور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا یہ وہی ہیں کہ گرِو آپ اور ان پر مچلواُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتامہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا دُھوم ذرّوں ...