منظومات  

مولانا عبدِ حق محدث

مولانا عبدِ حق محدثوہ سرورِ انبیا کے وارث ہے اُن کی کتاب پاک ’اخبار‘تحریر ہے اس میں ذکرِ اخیار مرقوم ہے اس میں یہ روایتچمکا جو وہ ماہِ قادریت آیا رمضان کا زمانہروزوں کا ہوا جہاں میں چرچا کی شہرِ صیام کی یہ توقیردن میں نہ پیا حضور نے شِیر گو عالمِ شِیر خوارگی تھاپر پاسِ شریعتِ نبی تھا جب تک نہ ہو پیروِ شریعتکیا جانے حقیقتِ طریقت جو راہ نہ پوچھے مصطفی سےکس طرح وہ جا ملے خدا سے جس شخص نے راستہ کو چھوڑامنزل کی طرف سے منہ کو موڑا...

فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالی

فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالیہیں ابن حضور پاک(۱) راوی فرماتے ہیں ابن مصطفی(۲) یہ بچپن کا ہے میرے ماجرا یہ طفلی میں جو چاہتا کبھی جیاطفال میں ہوں شریک بازی دیتا کوئی غیب سے یکایکآواز اِلَیَّ یَا مُبَارَک (۳) سن کر یہ صدا جو خوف آتامیں گود میں والدہ کی جاتا تھی پہلے جو یہ صداے عشرتسنتا ہوں اب اُس کو وقتِ خلوت کچھ تو نے سنا حسنؔ یہ کیا تھایہ کون اُنہیں بلا رہا تھا ہاں کیوں نہ ہوں وہ کمال محبوباللہ کو ہے جمالِ محبوب کیوں کر ہو ث...

فرماتے ہیں شیخ عبدالرزاق

فرماتے ہیں شیخ عبدالرزاقفرخندہ سیر ستودہ اخلاق پوچھا یہ جناب سے کسی نےکب خود کو ولی حضور سمجھے؟ فرمایا کہ دس برس کے تھے ہمجاتے تھے جو پڑھنے کے لیے ہم پہنچانے کے واسطے فرشتے ٔمکتب کو ہمارے ساتھ جاتے جب مدرسہ تک پہنچتے تھے ہملڑکوں سے یہ کہتے تھے وہ اُس دم محبوبِ خدا کے بیٹھنے کواِطفال جگہ فراخ کر دو(۱) ایک شخص کو ایک روز دیکھادیکھا تھا نہ اس سے پہلے اصلاَ اُس نے یہ کسی مَلک سے پوچھاکچھ مجھ کو بتاؤ حال اِن کا یہ کون صبّی ہیں باوجاہتسرکار ...

دایہ ہوئیں اک روز حاضر

دایہ ہوئیں ایک روز حاضراور عرض یہ کی کہ عبدِ قادِر بچپن میں تو اُڑ کے گود سے تمہو جاتے تھے آفتاب میں گم امکان میں ہے یہ حال اب بھیکر سکتے ہو یہ کمال اب بھی ارشاد ہوا بخوش بیانیوہ عہد تھا عہدِ ناتُوانی اُس وقت ہم صغیر سِنْ تھےکمزوری و ضُعف کے وہ دن تھے طاقت تھی جو ہم میں مہر سے کمچھپ جاتے تھے آفتاب میں ہم اب ایسے ہزار مہر آئیںگُم ہم میں ہوں پھر پتا نہ پائیں صدقے ترے اے جمال والےقربان تری تجلیوں کے تو رُخ سے اگر اُٹھا دے پردےہر ذرّہ کو...

منقول ہے تحفہ میں روایت

منقول ہے ’تحفہ‘ میں روایتبچپن میں ہوا یہ قصدِ حضرت کھیتی کو کریں وسیلۂ رزقمسنون ہے کسبِ حیلۂ رزق جس دن یہ خیال شاہ کو آیالکھتے ہیں وہ روز عرفہ کا تھا نر گاؤ کو لے چلے جو آقامنہ پھیر اس طرح وہ بولا یہ حکم نہ آپ کو دیا ہےمخلوق نہ اس لیے کیا ہے(۱) سن کر یہ کلام ڈر گئے آپگھر آئے تو سقف پر گئے آپ وہ نیّرِ دیں جو بام پر آئےحاجی عرفات میں نظر آئے سبحان اللہ اے تیری شانیہ بام کہاں، کہاں وہ میدان صدہا منزل کا فاصلہ تھایاں ...

منقول ہے قول شیخ عمراں

منقول ہے قول شیخ عمراں فرماتے ہیں اس طرح وہ ذیشاں اک دن میں گیا حضور سرکاراور عرض یہ کی کہ شاہِ ابرار گر کوئی با ادعاے نسبتکہتا ہو کہ ہوں مرید حضرت واقع میں نہ کی ہو بیعت اُس نےپائی نہ ہو یہ کرامت اُس نے خرقہ نہ کیا ہو یاں سے حاصل کیا وہ بھی مریدوں میں ہے داخل گویا ہوئے یوں خدا کے محبوبجو آپ کو ہم سے کر دے منسوب مقبول کرے خداے برترہوں عفو گناہ اس کے یکسر ہو گرچہ َاسیرِ دامِ عصیاںہے داخلِ زمرۂ مریداں (۱) ہاں مژدہ ہو بہرِ قادریاںہے جوش ...

اے دل یہ بیاں ہے قابل سیر

اے دل یہ بیاں ہے قابل سیرفرماتے ہیں حضرت ابوالخیر ہیں اور میرے ساتھ کچھ مکرمحاضر تھے حضورِ غوثِ اعظم فرمانے لگے جنابِ والامقبول حضور حق تعالیٰ ہم آج کہ بر سرِ عطا ہیںاور مظہرِ رحمتِ خدا ہیں جو کچھ مانگو عطا کریں گےحاجت سب کی روا کریں گے سن کر یہ ابو سعید اُٹھےیوں پیش جنابِ شیخ اُٹھے یہ خواہش دل ہے تاجدار آجاِمداد ہو ترک اختیار آج یعنی کہ فقط یہ چاہتا ہوںمیں اپنی طرف سے کچھ نہ چاہوں پھر حضرت ابن قاید اُٹھ کر گویا ہوئے اس طرح کہ سرور ہ...

اللہ برائے غوث اعظم

اﷲ! برائے غوث الاعظمدے مجھ کو ولاے غوث الاعظم دیدارِ خدا تجھے مبارک اے محوِ لقاے غوث الاعظم وہ کون کریم صاحبِ جُود میں کون گداے غوث الاعظم سُوکھی ہوئی کھتیاں ہری کر اے ابرِ سخاے غوث الاعظم اُمیدیں نصیب، مشکلیں حل قربان عطاے غوث الاعظم کیا تیزیِ مہرِ حشر سے خوف ہیں زیرِ لواے غوث الاعظم وہ اور ہیں جن کو کہیے محتاج ہم تو ہیں گداے غوث الاعظم ہیں جانبِ نالۂ غریباں گوشِ شنواے غوث الاعظم کیوں ہم کو ستائے نارِ دوزخ کیوں رد ہو دعاے غوث الاعظم ...

منقول ہے قاسم و عمر سے

منقول ہے قاسم و عمر سےدل شاد ہوا ہے اِس خبر سے کہتے تھے حضور مایۂ نُور جب چہک کے گرے حسین منصور اُس وقت میں تھا نہ کوئی ایسا جو ہاتھ پکڑ کے روک لیتا ہوتا جو وہ عہد ہم سے آباد ہم کرتے ضرور اُن کی اِمداد جو شخص ہوا ہے ہم سے بیعت یاوَر ہیں ہم اُس کے تا قیامت ہر حال میں اُس کا ساتھ دیں گے پھسلے گا قدم تو ہاتھ دیں گے اس شانِ رفیع کے تصدق اس لطف وسیع کے تصدق یا غوث صراط پر چلوں جب لغزش میں نہ آنے پائے مرکب ثابت قدمی یہ لطف دے جائے جنت مجھے ...

کہتے ہیں عدی بن مسافر

کہتے ہیں عدی بن مسافرتھا مجلسِ وعظ میں مَیں حاضر ناگاہ ہوا شروع باراں ہونے لگی انجمن پریشاں دیکھے جو یہ برہمی کے اَطوار سر سوئے فلک اُٹھا کے اک بار کہنے لگے اس طرح وہ ذیشاں میں تو کروں جمع تُو پریشاں فوراً وہ مقام چھوڑ کر ابر تھا قطرہ فشاں اِدھر اُدھر برابر اللہ رے جلالِ قادریّت قربان کمالِ قادریّت اے حاکم و بادشاہِ عالم اے داد رس و پناہِ عالم گِھر آئے ہیں غم کے کالے بادل چھائے ہیں اَلم کے کالے بادل سینہ میں جگر ہے پارہ پارہ للہ! ادھر ...