منظومات  

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناںقابو میں نہیں دلِ پریشاں یاد آئی تجلیِ سرِ طورآنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور یا رب یہ کدھر سے چاند نکلااُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا کس چاند کی چاندنی کھِلی ہےیہ کس سے میری نظر ملی ہے ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کایا رب یہ کہاں خیال پہنچا آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میںبجلی سی چمک گئی نظر میں آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالمیاد آنے لگا ہے کس کا عالم اب میں دلِ مضطرب سنبھالوںیا دید کی حسرتیں نکالوں اللہ! یہ کس کی انجمن ہےدنیا م...

نظر اک چمن سے دوچارہے

نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے عجب اُس کے گل کی بہار ہے کہ بہار بلبلِ زار ہے نہ دلِ بشر ہی فگار ہے کہ مَلک بھی اس کا شکار ہےیہ جہاں کہ ہَژدہ ہزار ہےجسے دیکھو اس کا ہزار ہے نہیں سر کہ سجدہ کُناں نہ ہو نہ زباں کہ زمزمہ خواں نہ ہونہ وہ دل کہ اس پہ تپاں نہ ہو نہ وہ سینہ جس کو قرار ہے وہ ہے بھینی بھینی وہاں مہک کہ بسا ہے عرش سے فرش تک وہ ہے پیاری پیاری وہاں چمک کہ وہاں کی شب بھی نہار ہے کوئی اور پھول کہاں کھلے نہ جگہ ہے جوششِ حُس...

جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کی

جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کیکب گوارا ہوئی اﷲ کو رِقّت اُن کی ابھی پھٹتے ہیں جگر ہم سے گنہگاروں کےٹوٹے دل کا جو سہارا نہ ہو رحمت اُن کی دیکھ آنکھیں نہ دکھا مہرِ قیامت ہم کوجن کے سایہ میں ہیں ہم دیکھی ہے صورت اُن کی حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ پہ نہیں کچھ موقوفجس نے جو پایا ہے پایا ہے بدولت اُن کی اُن کا کہنا نہ کریں جب بھی وہ ہم کو چاہیںسرکشی اپنی تو یہ اور وہ چاہت اُن کی پار ہو جائے گا اک آن میں بیڑا اپناکام کر جائے گی محشر میں شفاعت ...

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہےگدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے چکوروں سے کہو ماہِ دل آرا ہے چمکنے کوخبر ذرّوں کو دو مہرِ منور آنے والا ہے فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گےکہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہےخبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دلکہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کاغریبو...

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہےگدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے چکوروں سے کہو ماہِ دل آرا ہے چمکنے کوخبر ذرّوں کو دو مہرِ منور آنے والا ہے فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گےکہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہےخبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دلکہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کاغریبو...

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سےاُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالمگزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھینہیں تو کیا غرض تھی اِتنی جانوں کے بنانے سے کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلبلگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھےجو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے تمہارے تو وہ اِحساں اور یہ نافرم...

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے نا شکر! یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے کس خاکِ پاک کی تو بنی خاکِ پا شفاتجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے آبِ حیاتِ روح ہے زرقا کی بوند بوند اکسیرِ اعظمِ مسِ دل خاکِ در کی ہے ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے وہ دیکھو جگمگاتی ہے ...

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہکہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ مبارک رہے عندلیبو تمھیں گلہمیں گل سے بہتر ہے خارِ مدینہ بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کابیاں کیا ہو عز و وقارِ مدینہ مری خاک یا رب نہ برباد جائےپسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ کبھی تو معاصی کے خِرمن میں یا ربلگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ رگِ گل کی جب نازکی دیکھتا ہوںمجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنیشب و روز خاکِ مزارِ مدینہ جدھر دیکھیے باغِ جنت کھلا ہےنظر میں ہیں نقش و نگا...

عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں

عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیںکہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنا کینگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں مجھے فسردگئ بخت کا اَلم کیا ہووہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دےہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پرکہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں جو خوش نصیب یہاں خاکِ دَر پہ بیٹھتے ہیںجلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں ہمارے دل کی لگی بھی وہی بجھا دیں ...

نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیںلیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھناترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوےتمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کااُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہےپڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضورتو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں یہ کس شہنشہِ والا کا...