منظومات  

کیا مژدہٗ جاں بخش سنائے گا قلم آج

کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آجکاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج آمد ہے یہ کس بادشہِ عرش مکاں کیآتے ہیں فلک سے جو حسینانِ اِرم آج کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میںآتا ہے نظر نقشۂ گلزارِ اِرم آج نذرانہ میں سر دینے کو حاضر ہے زمانہاُس بزم میں کس شاہ کے آتے ہیں قدم آج بادل سے جو رحمت کے سرِ شام گھرے ہیںبرسے گا مگر صبح کو بارانِ کرم آج کس چاند کی پھیلی ہے ضیا کیا یہ سماں ہےہر بام پہ ہے جلوہ نما نورِ قدم آج کھلتا نہیں کس ج...

دنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیں

دنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیںجس کی مدد پہ حضرت فضل رسول ہیں منکر تری فضیلت و جاہ و جلال کی بے دیں ہیں یا حسود ہیں یا بوالفضول ہیں حاضر ہوئے ہیں مجلس عرسِ حضور میںکیا ہم پہ حق کے لطف ہیں فضل رسول ہیں کافی ہے خاک کرنے کو یک نالۂ رسادفتر اگرچہ نامۂ عصیاں کے طول ہیں خاکِ درِ حضور ہے یا ہے یہ کیمیایہ خارِ راہ ہیں کہ یہ جنت کے پھول ہیں ذوقِ نعت...

یارب تو ہے سب کا مولیٰ

یا ربّ تو ہے سب کا مولیٰسب سے اعلی سب سے اولیٰ تیری ثنا ہو کس کی زباں سےلائے بشر یہ بات کہاں سے تیری اک اک بات نرالیبات نرالی ذات نرالی تیرا ثانی کوئی نہ پایاساتھی ساجھی کوئی نہ پایا تو ہی دے اور تو ہی دلائےتیرے دیے سے عالم پائے تو ہی اوّل تو ہی آخرتو ہی باطن تو ہی ظاہر کیا کوئی تیرا بھید بتائےتو وہ نہیں جو فہم میں آئے پہلے نہ تھا کیا اب کچھ تو ہےکوئی نہیں کچھ سب کچھ تو ہے تو ہی ڈبوئے تو ہی اچھالےتو ہی بگاڑے تو ہی سنبھالے تجھ پر ذرّہ...

اِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میں

اِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میںیہ وہ ہے آٹھ سو کم کر کے جو کچھ رہ گیا باقی مزارِ پیر نیچر سے بھی نکلے گی صدا پیہمچڑھا جاؤ گرہ میں ہو جو کچھ پیسا ٹکا باقی نئی ہمدردیاں ہیں لوٹ کر ایمان کی دولتنہ چھوڑا قوم میں افلاس عقبیٰ کے سوا باقی ظروفِ مے کدہ توڑے تھے چن کر محتسب نے سبالٰہی رہ گیا کس طرح یہ چکنا گھڑا باقی مریدوں پر جو پھیرا دست شفقت پیر نیچر نےنہ رکھا دونوں گالوں پر پتا بھی بال کا باقی مسلماں بن کے دھوکے دے رہا ہے اہل ایماں ...

رباعیات

جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہومختار ہو مالکِ خدائی تم ہوجلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خداآئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو (دیگر) یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَداایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰپائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواباے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا (دیگر) بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہمتعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہمیہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوتاللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم (دیگر) خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میںجو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاو...

السلام اے خسروِ دنیا و دیں

السلام اے خسروِ دنیا و دیںالسلام اے راحتِ جانِ حزیں السلام اے بادشاہِ دو جہاںالسلام اے سرورِ کون و مکاں السلام اے نورِ ایماں السلامالسلام اے راحتِ جاں السلام اے شکیبِ جانِ مضطر السلامآفتاب ذرّہ پرور السلام درد و غم کے چارہ فرما السلامدرد مندوں کے مسیحا السلام اے مرادیں دینے والے السلامدونوں عالم کے اُجالے السلام درد و غم میں مبتلا ہے یہ غریبدم چلا تیری دُہائی اے طبیب نبضیں ساقط رُوح مضطرجی نڈھالدردِ عصیاں سے ہوا ہے غیر حال بے سہاروں کے...

اے راحت جاں جو تیرے قدموں سے لگا ہو

اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہوکیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہوسایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہےاُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پراُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کرجس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبوگر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو اُس دَر کی طرف ا...

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاببھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب جلوہ فرما ہو جو میرا آفتابذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب عارضِ پُر نور کا صاف آئینہجلوۂ حق کا چمکتا آفتاب یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہےزُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیےعارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب ہے شبِ دیجور طیبہ نور سےہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب بخت چمکا دے اگر شانِ جمالہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھےکیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب نا...

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیاجب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھاغم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنےتیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیببند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطےقسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھااُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گی...

جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہمباز آئے ہندِ بد اختر سے ہم مار ڈالے بے قراری شوق کیخوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہیاب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیںہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیعڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفرازدل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھپھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم گور کی شب تار ہے پر خوف کیالَو لگائے ہیں رُخ...