توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی
توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقینہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی زمانے نے ملائیں خاک میں کیفیتیں ساریبتا دو گر کسی شے میں رہا ہو کچھ مزا باقی نہ اب تاثیر مقناطیس حسن خوب رویاں میںنہ اب دل کش نگاہوں میں رہا دل کھینچنا باقی نہ جلوہ شاہد گل کا نہ غل فریادِ بلبل کانہ فضل جاں فزا باقی نہ باغِ دل کشا باقی نہ جوبن شوخیاں کرتا ہے اُونچے اُونچے سینوں پرنہ نیچی نیچی نظروں میں ہے اندازِ حیا باقی کہاں وہ قصر دل کش اور کہاں وہ دلربا جلسے...