متفرق  

صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے

’’چادر‘‘

صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے
یہ کیسی مسرت ہے کیسی خوشی ہے
یہ کس مرد حق بیں سے ملنے چلی ہے
یہ کس کے لئے آج دلہن بنی ہے
کہ چادر بڑے کرو فر سے اٹھی ہے
کہیں رضویوؔں کی دُر افشانیاں ہیں
کہیں نوریوؔں کی در خشانیاں ہیں
کہیں قاسمیوؔں کی تابانیاں ہیں
غرض ہر طرف طرفہ سامانیاں ہیں
کہ عُرس ابوالقاسم احمدی ہے
لگا کر حنائے گلستانِ قاسؔم
چڑھا کر مئے جامِ عرفانِ قاسؔم
سنگھاتی ہوئی بوئے بستانِ قاسؔم
دکھاتی ہوئی رنگ دامانِ قاسؔم
نسیم سحر مست ہوکر چلی ہے
سماں کیا ہے رحمت کا آکر تو دیکھو
نگاہِ بصیرت اٹھا کر تو دیکھو
نزولِ ملائک کا منظر تو دیکھو
ذرا شاہِ قاسم کی چادر تو دیکھو
جِلو میں یہ کس کس کو لے کر بڑھی ہے
کبھی شکوۂِ جور و بیداد کرنا
کبھی حق تعالیٰ سے فریاد کرنا
کبھی ذکرِ سرکار بغداد﷜ کرنا
کبھی یا علی﷜ کہہ کے دل شاد کرنا
کبھی جوش میں نعرۂ یانبیﷺ ہے
مئے جام وحدت پئیں اور پلائیں
محبت کے نغمے سنیں اور سنائیں
ارادت کی آنکھوں سے اس کو لگائیں
چلو کچھ عقیدت کے موتی چڑھائیں
یہ چادر نہیں حُلّۂ قاسمی ہے
زمیں پر پہنچنے لگے ماہ پارے
اترنے لگے آسماں سے ستارے
درِ شاہ قاسم پہ ہیں جمع سارے
نقیبوں کا ہے شور غم ہوں کنارے
کہ رحمت یہاں بوندیاں بانٹتی ہے
کسی کی خوشامد نہ درکار ہوگی
وہ چشم الطاف سرکار ہوگی
گناہوں کی میرے خریدار ہوگی
یقیں ہے کہ رحمت طرفدار ہوگی
کہ محشر میں حامی مرا شاہؔ جی ہے
بہت ہوچکی شرم و غیرت کی خواری
بہت لے چکے لطفِ باد بہاری
بہت کرچکے جام و مینا سے یاری
مسلمانو! کبتک یہ غفلت شعاری
خدارا اٹھو اب سحر ہوچکی ہے
وہ کرتے ہی کیا رنج و غم کا مداوا
تمہیں لیڈروں نے تو اور مار ڈالا
نہ تہذیب یورپ نے تم کو سنوارا
مرے دوستو! یہ تو سوچو خدارا
مصیبت یہ کیوں تم پہ آکے پڑی ہے
دکھا دو زمانے کو دینی حمّیت
وگرنہ ہوا خونِ ناموس مِلّت
بڑھو آگے! زیر لوائے شریعت
کھلی ہے ابھی شاہراہ حقیقت
چلے آؤ رحمت ابھی بٹ رہی ہے
طواغیتِ کثرت کو ڈھاتی ہے چادر
جماعت کے معنیٰ بتاتی ہے چادر
عزیزو! مسلماں بناتی ہے چادر
تمہیں راہ عرفاں دکھاتی ہے چادر
اسی راہ میں راحت سرمدی ہے
خود اپنے جنوں کا نظارا کریں گے
تماشائی بن کر تماشا کریں گے
خدا جانے کیا ہوگا کیا کیا کریں گے
خلیؔل ایک دن قصد پورا کریں گے
مدینے چلیں گے اگر زندگی ہے

...

در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر

درِشاہِ قاسم پہ آئی ہے گاگر

برموقعہ عرس شریف قاسمی ۱۳۶۸؁ ھ

در شاہ قاسم پہ آئی ہے گاگر
پیامِ دل افروز لائی ہے گاگر
سمن یا سمن میں بسائی ہے گاگر
صبا جا کے طیبہ سے لائی ہے گاگر
تو اک تحفۂ مصطفائی ہے گاگر
جواہر عقیدت کے اس پر لٹاؤ
اباطیل بدعت یہاں سے ہٹاؤ
محبت سے لے کر بڑھو اور بڑھاؤ
تقدس کے ساغر پیو اور پلاؤ
کہ پروانۂ پارسائی ہے گاگر
مٹیں کلفتیں جس سے روح و بدن کی
چھٹیں ظلمتیں جس سے رنج و محن کی
گھٹائیں گھریں رحمتِ ذی المنن کی
ہٹیں بدلیاں دم میں سارے فتن کی
وہ فانوسِ مشکل کشائی ہے گاگر
گلے میں تجمل کے پھولوں کا زیور
جبیں پر تنعم کی کلیوں کا جھومر
غرض ہے منور سر و سینہ و بر
سراسر مُعنبر سراپا معطر
مجسم دلہن بن کے آئی ہے گاگر
طریقہ بتاتی ہے نور و ہدیٰ کا
دکھاتی ہے جلوہ یہ حلم و حیا کا
ادب یہ سکھاتی ہے حق وفا کا
سبق دے رہی ہے یہ صدق و صفا کا
اسی سے تو سر پر اٹھائی ہے گاگر
تعلق اسے ہے دلیرانِ حق سے
علاقہ یہ رکھتی ہے شیرانِ حق سے
اسے رابطہ ہے شہیدانِ حق سے
ہے نِسبت اسے چونکہ یارانِ حق سے
تو اک جلوۂ مرتضائی ہے گاگر
بساتے رہے دل میں ارباب الفت
بچھاتے رہے آنکھیں باصد عقیدت
ذرا دیکھئے تو بلندئ قِسمت
اٹھاتے رہے ہیں جو اہل محبت
تو سُتھروں سے ستھروں میں آئی ہے گاگر
نہ شکوہ کسی کو رہا بے کلی کا
گلہ ہے کسی کو نہ اب بیکسی کا
نہ کیوں مدح خواں ہو مرے شاہ جی کا
کھلا غنچۂ دل ہر اک قاسمی کا
کچھ اس ناز سے مسکرائی ہے گاگر
مقدر کا یہ اوج اللہ اکبر
ہوا جا رہا ہوں میں آپے سے باہر
کہاں کے یہ جام اور کیسے یہ ساغر
نگاہوں میں پھرتی ہے تصویرِ کوثر
نظر میں کچھ ایسی سمائی ہے گاگر
کبھی ان کا روئے منور تکیں گے
کبھی ان کے قدموں سے آنکھیں ملینگے
تڑپتے نہ فرقت میں یوں ہم رہیں گے
مزا شربتِ دید کا بھی چکھیں گے
جو قاسم کی حق نے دکھائی ہے گاگر
یہ وہ ہیں کہ روتے ہوؤں کو ہنسائیں
جو دینے پہ آئیں تو موتی لٹائیں
عجب کیا کہ تیری بھی بگڑی بنائیں
تجھے اصفیا دے رہے ہیں دعائیں
خلیؔل آج تو نے وہ گائی ہے گاگر

...

اے حضرت حسّان یہ ساعت ہو مبارک

ہدیہ تبریک

ولدی الاعزّ محمد حسان رضا خاں برکاتی سَلّٰمہ، برساعت حاضری حرمین شریفین

اے حضرت حسّان یہ ساعت ہو مبارک
روضہ پہ حضوری کی سعادت ہو مبارک
پُر کیف سفرِ حج زیارت ہو مبارک
تم کو اَبَدِیْ کیف و مَسرّت  ہو مبارک
میخانۂ مکّہ کی وہ سرمست فضائیں
وہ بادۂ زم زم کی حلاوت ہو مبارک
آغوش میں رحمت کی وہ دن رات کا عالم
عَرفَات کے میدان کی وسعت ہو مبارک
وہ عطر میں ڈوبی ہوئی پر کیف ہوائیں
وہ وقت سحر بارش نگہت ہو مبارک
بوسے ہوں مبارک درِ والائے نبیﷺ کے
دربارِ شہنشاہِ رسالت ہو مبارک
ہر گام پہ بخشش کا وہ پیغام مسرت
ہر گام پہ سرکارﷺ کی رحمت ہو مبارک
جن کے لبِ رحمت پہ ہے منْ زَاْر کا مژدہ
اُس جانِ مسیحا کی شفاعت ہو مبارک
اب آپ دعا کیجئے احمدؔ کیلئے بھی
پھر مجھ کو عطا اور بھی ساعت ہو مبارک
ذوالحجہّ ۱۴۳۸؁ہجری ستمبر ۲۰۱۷؁ء

...

ایک کوہ غم دلِ حساں پہ ہے

تاریخ ہائے وفات

غنچۂ جنت، رباب بنت حسان رضا خاں بن مفتی احمد میاں حافؔظ البرکاتی جو صرف دو دن زندہ رہ کر، اپنے ماں  باپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گئیں۔ (حافؔظ البرکاتی)

ایک کوہ غم دلِ حساں پہ ہے
غم زدہ حافؔظ ہیں قلب و جان لکھ
فکر تھی تاریخ کی دل نے کہا
رحلتِ دختر حسان لکھ

۲۰۱۶ء

آہ رخصت ہوئیں جہاں سے رباب
فکر تاریخ میں تھا میں غلطاں
آئی کانوں میں یہ ندا حافؔظ
لکھ رحلتِ دختر حساں

۲۰۱۶ء

زیست کا حصہ ہے کتنا ایک پل میں کہہ گیا
ہائے وہ غنچہ کہ جو ادھ کھلا ہی رہ گیا


۱۴۳۷ھ

کیا بتاؤں آج حافؔظ غم سے ہیں اشکبار
لب پہ آہیں اور آنکھیں اشکبار
چین آئے گا کجا دل کو بھلا
دامن ہستی ہوا ہے تار تار
ایسے آئیں اور گئیں دنیا سے حساںؔ کی ربابؔ
سب کو حیرت ہے یہ حافؔظ معاملہ ہے کچھ عجب
عیسوی و ہجری کی تاریخ ہے یوں ساتھ ساتھ
پاک بازو نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب

۱۴۳۷ھ

۲۰۱۶ء

 

کچھ نہ آنے کی خبر تھی اور نہ  جانے کا پتہ
اُن کا آنا اور جانا بھی تھا حافؔظ کچھ عجب
آمد و رخصت کی اب تاریخ لکھو اس طرح
پاک باز و نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب
۱۴۳۷۵۷۹ھ ۲۰۱۶ء

...

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید

حدیثِ سی وہفتم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

لَا تَسَبُّوْٓا اَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّ اَحَدُکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نِصْفَہٗ۔‘‘ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید
وہ صحابی ہے مقتدا و رشید
یعنی کہتے تھے دو جہاں کے امام
میرے اَصحاب کو نہ دو دشنام
جو کوئی تم سے از برائے خدا
خرچ کر دے پہاڑ سونے کا
یعنی وہ شخص
مثلِ کوہِ اُحُد
زر لُٹائے گا بے عدد بے حد
کوہِ زر سے زیادہ تر ہوگا
نیم پیمانہ اُس صحابی کا
یارِ حضرت کی کیا فضیلت ہے
اُن کی صحبت کی کیا فضیلت ہے
جب کہ ہوں اُن سے مصطفیٰ راضی
اُن سے کیوں کر نہ ہو خدا راضی
میری اُلفت کے واسطے اُن کو
تم یہ چاہیے کہ دوست رکھو
بعد میرے نہ کیجیو ایسا
 کہ نشانہ بناؤ تیروں کا
یعنی اُن کو نہیں کرو دُشنام
 اور نہ لو اُن کا تم بدی سے نام
ہے تقاضا مِری محبّت کا
میرے یاروں کو تم کہو اچھا
میرے یاروں سے جس نے بغض رکھا
بغض گویا کہ اُس نے مجھے سے کیا
اور جس نے کہ اُن کو دی ایذا
وہ تو ایذا مجھی کو دی گویا
اور میرے تئیں ستائے جو
اُس نے ایذا دی میرے خالق کو
اور جس نے مجھے کیا ناراض
اُس نے اللہ کو رکھا ناراض
اُس پہ آئے گا عنقریب عذاب
حق تعالیٰ کرے گا سخت عتاب
آفریں تجھ کو مرحبا کاؔفی
وصفِ اَصحاب کہہ سنا کاؔفی!

 

غزل

بیاں کس مونھ سے ہو ہو جو رتبۂ اَصحابِ حضرت ہے
کہ اُن میں ہر بشر کے واسطے کیا کیا شرافت ہے
صحابی
کَالنُّجُوْم اُن کے مَناقب میں ہُوا وارد
کہ اُن تاروں سے روشن بُرجِ اَفلاکِ ہدایت ہے
نہیں اس سے زیادہ اور کوئی رتبۂ عالی
 کہ حاصل اُن کو
فیضِ صحبتِ ختمِ رسالت ہے
بجا ہے گر ملائک رشک کھائیں اُن کے رتبے پر
جَوارِ سیّدِ کونَین میں جن کی سُکونت ہے
مشرف جو ہُوئے ہیں دولتِ دیدارِ حضرت سے
تو اُن کے واسطے باغِ جناں گُلزارِ جنّت ہے
تمامی عدل تھے اور سب کے سب راہِ خدا پر تھے
یہی ہے مذہبِ حق، اعتقادِ ا
ہلِ سنّت ہے
امیر المومنیں صدّ
یقِ اکبر نائبِ حضرت
بَہ ایوانِ خلافت صدرِ ایوانِ صداقت ہے
پھر اُس کے بعد ہے فاروقِ اعظم جاہد و غازی
کہ انسانِ بصیرت مردمِ عَینِ عدالت ہے
مَناقب کیا کروں عثمانِ ذی النورین کا ظاہر
کہ عین و شرم و
تمکیں مخزنِ جود و سخاوت ہے
خدا کا شیر حیدر ابنِ
عمِ سروَرِ عالَم
وہ جس کے دستِ بالا دست میں
تیغِ شجاعت ہے
؟؟؟ عادت اَصحاب سلطان رسل باہم
؟؟؟ فتوت ہے مودّت ہے محبّت ہے
؟؟؟ دولتِ دیدار محبوبِ خدا جس کو
؟؟؟ طالع زہے مقسوم کیا وہ نیک  قسمت ہے
؟؟؟ راضی ہے اُن سے اور وہ راضی خدا سے ہیں
؟؟؟ رحمتِ عالَم کو اُن کے ساتھ شفقت ہے
ثنا خوانِ نبی ہُوں اور اَصحابِ نبی، کاؔفی!
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے مجھ کو اُلفت ہے

 

...

ہے انس نے بیاں کیا ایسا

حدیثِ سی ونہم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ صَعِدَ اُحُدًا وَّ اَبُوْ بَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ فَرَجَفَ بِھِمْ فَضَرَبَہٗ بِرِجْلِہٖ فِقَالَ اثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَ صِدِّیْقٌ وَ شَھِیْدانِ۔‘‘ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)

 

ہے انس نے بیاں کیا ایسا
کہ فرازِ اُحُد رسولِ خدا
ایک دن اس طرح سے آ نکلے
کہ ابو بکر ساتھ تھے اُن کے
اور فاروق بھی تھے آپ کے ساتھ
اور عثمان
مجمعِ حسنات
الغرض جب گزار فرمایا
زیرِ پائے نبی پہاڑ ہلا
جنبشِ کوہ جب ہوئی پیدا
آپ نے کوہ پر قدم مارا
اور اس طرح سے کہا اُس کو
کہ بس اب اے پہاڑ ساکن ہو
یعنی تو جانتا نہیں تجھ پر
اِس گھڑی کو کر رہا ہے گزر
ایک تو ہے رسول حق تحقیق
دوسرے ساتھ اُس کے ہے صدّیق
اور یہ دو شہید ہیں ہمراہ
یعنی ہمرا
ہیِ رسول اللہ
یاں زبانِ نبی سے بالتحقیق
ہوئی ثابت صداقتِ صدّیق
اور ثابت ہُوئی شہادت بھی
اُس جگہ سے عمر کی، عثماں کی
جن کا رتبہ زبانِ حضرت سے
ہوئے ثابت بیانِ حضرت سے
چاہیے ہم کو دوستی اُن سے
دوستی، اُلفتِ دلی اُن سے

 

مَناقب

 

مجھے اُلفت ہے یارانِ نبی سے
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے
محبّت اُن کی ہے ایمان میرا
میں اُن کا مدح خواں ہوں جان و جی سے
رسول اللہ کے یہ جا نشیں ہیں
نبی راضی ہے اُن سے، یہ نبی سے
یہ ہیں چرخِ نبوّت کے ستارے
جہاں روشن ہے اِن کی روشنی سے
صحابہ کا ہُوا ثابت مَناقب
زبانِ دُر فشانِ احمدی سے
رسول اللہ کب راضی ہیں اُن سے
جو ہو ناراض اَحبابِ نبی سے
جو ہیں اَصحاب اَنصار و مہاجر
مجھے حُسنِ عقیدت ہے سبھی سے
صحابہ کا یہ کاؔفی مدح خواں ہے
خلوصِ جان و اخلاصِ دلی سے

 

...

یہ انس کا بیانِ شافی ہے

حدیثِ چہلم از مشکوٰۃ ،بابِ اثبات عذاب القبر

 

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

 ’’اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِهٖ وَتَوَلّٰى عَنْهُ اَصْحَابُهٗٓ إِنَّهٗ  لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، اَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَہٗ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُوْلُ: اَشْهَدُ اَنَّهٗ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُهٗ، فَيُقَالُ لَهٗ: اُنْظُرْ اِلٰى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ اَبْدَلَكَ اللہُ بِهٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا - وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهٗ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَآ اَدْرِیْ كُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَہٗ: لَا دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَّسْمَعُهَا مَنْ يَّلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ‘‘۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

یہ انس کا بیانِ شافی ہے
واسطے مومنوں کے کافی ہے
یعنی خیرالوریٰ رسولِ کریم
ہم کو اس طرح کرتے تھے تعلیم
کہ بَہ تحقیق بندۂ معبود
گور اپنی میں جب کرے ہے وُرود
یار و اَحباب مُنھ پھراتے ہیں
یعنی اپنے گھروں کو جاتے ہیں
اُٹھتی ہے جو صدائے
کفشِ پا
دو فرشتے غرض وہاں آ کر
اور اُس کو لحد میں بٹھلا کر
اُس سے کرتے ہیں اس طرح کا سوال
اور واں پوچھتے ہیں یہ اَحوال
یعنی دنیا میں تو جو رہتا تھا
کہتا اِس شخص کے  لیے کیا تھا
لفظِ ’’
ھٰذَا الرَّجُل‘‘ سناتے ہیں
شکلِ حضرت بھی آ دکھاتے ہیں
اور کہتے ہیں اُس سے وہ انسان

تجھ سے اس بات کے ہیں ہم پُرسان
کہ
بحقِ نبی حبیبِ خدا
کیسا تو اعتقاد رکھتا تھا
 گر وہ مومن ہے، ا
ہلِ ایماں ہے
اس کو اُن کا جواب آساں ہے
ہیں محمد نبی رسول اللہ
یعنی دیتا ہوں میں گواہی صاف
یہ نبی ہیں، نہیں ہے کچھ اس میں خلاف
حق تعالیٰ کے ہیں یہ بندۂ خاص
ہیں محمد خلاصۂ اَشخاص
جب یہ اَوصافِ سیّدِ اَبرار
مردِ مومن کرے گا واں اظہار
حال یہ سن کے وہ مَلک دونوں
گور میں یوں کہیں گے مومن کو
دیکھ لے یہ مکان دوزخ کا
واسطے تیرے جو بنایا تھا
تو نے اس وقت خوب کام کیا
کہ رسولِ خدا کو پہچانا
دی گواہی بحالِ
ختمِ رُسُل
ہادیِ راہِ مقتدائے سبل
اس جگہ سے تِری جگہ بدلے
عوضِ نار، جا بہشت میں دے
پھر وہ مومن وہاں بحالِ سُرور
دیکھتا ہے وہ جائے آتش و نور
یعنی اپنا وہ نار کا ہے مقام
اور جنّت کا وہ مقامِ قیام
کہ طُفیلِ محمدِ عربی
اس کو حاصل ہُوئی وہ جائے خوشی
جب رسولِ خداﷺ کو پہچانا
اُس کو جنّت میں یہ مکان ملا
اُس نے دیکھا نہ پھر عذابِ گور
دور اُس سے رہا عقابِ گور
اور جو کافر و منافق ہو
گور میں جس گھڑی رکھیں اُس کو
مثلِ مومن سوال اُس سے کریں
؟؟؟ مَلک کشفِ حال اُس سے کریں
؟؟؟ جو غافل وہ حالِ حضرت سے
؟؟؟ خاتمِ رسالت سے
گور میں اس طرح سے جو کہتا
ان کو میں جانتا نہیں اصلا
میں تو واقف نہیں محمد سے
اور اَوصافِ حالِ احمد سے
مجھ کو نسبت نہیں ہے ان کے ساتھ
پوچھتے مجھ سے کیا ہو تم ہیہات
ان کے حق میں وہی تھا میرا کلام
کہتے تھے جس طرح سے اور عوام
پھر وہ کہتے ہیں اُس سے او انسان
نہ پڑھا تو نے کس لیے قرآن
یعنی پڑھتا اگر کلامِ خدا
جانتا مرتبہ محمدﷺ کا
حال سے اُن کے تو رہا غافل
آج ہے تیرے واسطے مشکل
کہہ کہ یہ بات وہ مَلک دونوں
ہاتھ میں لے کے گُرزِ آہن کو
اُس کے اُوپر وہ چھوڑ دیتے ہیں
پشت و پہلو کو توڑ دیتے ہیں
اُس پہ پڑتی ہے اِس طرح کی مار
کہ وہ مقہور کافرِ بد کار
شورِ بے اختیار کرتا ہے
بعد مرنے کے غم سے مرتا ہے
شور ہوتا ہے اس قدر برپا
کہ اُسے وحش و طیر ہے سنتا
جن و انسان پر نہیں سنتے
کہ وہ غافل ہے مطلقًا اس سے
جن و انسان بھی اگر سن لیں
سارے عیش و نشاط کو چھوڑیں
اے محبانِ صاحبِ
لَوْلَاک
اب یہ کہتا ہے
کاؔفیِ غم ناک
تم کو وہ دولتِ تمام ملے
آرزو جس کی انبیا نے کی
میرے کہنے کو تم ذرا مانو
رتبۂ د
ینِ احمدی جانو
بیش تر انبیا یہ کہتے تھے
اور اِس آرزو میں رہتے تھے
کاش! ہم ہوتے اُمّتِ احمد
دیکھتے
فیضِ صحبتِ احمد
مومنو! سوچ کر ذرا دیکھو
اُمّتِ
افضلِ بشر دیکھو
اپنے محسن نبی کی اُلفت میں
مستقل تم رہو شریعت میں
چاہتے ہو اگر رہائی کو
ساتھ حُبِّ مصطفائی کو
گور میں بھی یہ کام آئے گی
حشر میں حق سے بخشوائے گی
اور یہ التماس ہے میرا
تم سے او دوستانِ راہِ خدا
کہ یہ نظمِ چہل حدیث شریف
جو مرتّب ہُوئی بَہ فکرِ نحیف
شوق سے یعنی یہ کتاب لکھی
حُبِّ خیرالورا میں موزوں کی
نظم کا التزام ہے مشکل
بے تکلّف یہ کام ہے مشکل
کہیں لفظوں کا ترجمہ لایا
کہیں حاصل لیا ہے معنیٰ کا
میرے شعر وں میں جو خطا دیکھو
کلک اصلاح سے بنا دیجو
اب خدا ئے کریم سے ہے دعا
اِس دعا کو کرے قبولِ دعا

 

...

اِتمام ہُوئی نسیمِ جنّت

تاریخِ  اِتمامِ نسیمِ جنّت

از مصنّف

 

اِتمام ہُوئی نسیمِ جنّت
یہ جادۂ مستقیمِ جنّت
سیرا
بیِ گلستانِ جاں ہے
جو طالبِ روئے مصطفیٰ ہے
اُس عا
شقِ زار کی دوا ہے
یہ ہے عرق بہار، کاؔفی
آرام دلِ ہزار، کاؔفی
تاریخ بھی خوب ہائی آئی
’’بوئے گُلِ باغِ اِصطفائی‘‘

 

۱۲۶۲ھ

 

تمام شد

 

بتاریخ چہار دہم ذی الحجہ ۱۲۹۵؁ھ باختتام رسید۔

 

 

...

دردماں درد کا کیا بنا کربلا

دردماں درد کا کیا بنا کربلا
سارے عالم پہ بس چھا گیا کربلا

مشکلیں ہو کے حل ساتھ دینے لگیں
میں نے جب دے دیا واسطہ کربلا

خونِ آلِ نبی سے وہ سینچا گیا
زندگی موت کو دے گیا کربلا

مشکلوں پر بھی میں نے تبسُّم کیا
جب نظر اشک میں آگیا کربلا

جبلِ غم مجھ کو سُرمے کے مانند لگے
عقل کے مرغ کو جب ملا کربلا

تیری آغوش میں سو گئے مہر و ماہ
مرحبا مرحبا واہ واہ کربلا

عشق کو صبر کا درس تجھ سے ملا
رہبرِراہِ اُلفت بنا کربلا

حشر میں پیرہن کا دِکھا دبدبہ
بخششیں یوں لُٹاتا گیا کربلا

صدقِ صدیق کو عدلِ فاروق کو
شارحینِ کُتب نے لکھا کربلا

خون شاہ شہیداں میں وہ جود تھا
دیکھ کر دیکھتا رہ گیا کربلا

ڈھونڈتا ہے ابھی تک نواسے کو وہ
حاصلِ دید کی التجا کربلا

تیری فاران بخشش ہوئی ذکر سے
کر گیا کربلا کربلا کربلا

...

عزیزوں یہ وصیت ہے یہی پیغام لکھ دینا

عزیزوں یہ وصیت ہے یہی پیغام لکھ دینا
کفن پر تم میرے مرشد مشاہد نام لکھ دینا

پلا کر ہی ہزاروں کو صراطِ حق چلا ڈالا
ہمارے واسطے بھی ساقیا وہ جام لکھ دینا

جو فہرست ہو مرتب مشربِ شاہِ مشاہد کی
نِکمّا ہی سہی لیکن ہمارا نام لکھ دینا

پرندوں کی حفاظت میکدے کی شاخ پر ہی ہے
زمینوں کی کشش پر تم شکاری دام لکھ دینا

صلح کُل کے قفس گر پھنسیں یہ بلبلیں ساری
ہزاروں چہچہاہٹ میں سُکُوتِ شام لکھ دینا

تمہیں مُرشد ہو شاہد ہو مشاہِد ہو مشاہَد ہو
سرِ محشر گواہی تم سرِ انجام لکھ دینا

تصلب جانِ بلبل تو صلح کل موتِ بلبل ہے
نمائش کے تصلب پر فریبی دام لکھ دینا

اگر فاراں طلب ہو کچھ نگاہِ مرشدی ڈھونڈو
بغیر اس واسطے کے تم خیالِ خام لکھ دینا

...