متفرق  

تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے

تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے
دلی تصلب تمہیں ابھی بھی نہ ہاتھ آیا تو کیا کروگے

ابھی تو زندگی ہے جی لو ، شرابِ نفرت کو خوب پی لو
جو موت نے آکے پچھلے گھر کا حساب مانگا تو کیا کروگے

نبی کا رب سے کِیَا تقابُل ، پھنسا یوں شرکِ جلی میں جاہل
حمایت اسکی کرِی ہے تم نے، لحد میں پوچھا تو کیا کروگے

میری کُتُب میں تو سب تھا ظاہر، ہٹا کیوں اس سے بتا تو زاجر
رضا نے بھی حشر میں جھڑک کر ، اسی کو پوچھا تو کیا کروگے

صحابہ کو کہہ رہا ہے خاطی، پھر اُس کو تم نے پناہ کیوں دی
نبی کے اصحاب و آل نے بھی ، جو ساتھ چھوڑا تو کیا کروگے

قبولِ حق میں انا گر آئے ، لو ہم ہی ہارے تمہی تو جیتے
خدا نہ کردہ حسد کے اندر ، یہ دین کھویا تو کیا کروگے

تم اپنی منزل کی راہ لے لو ، نہ اتنا ڈھونڈو کہ خود ہی بہکو
صبح کا بھولا وہ شام کو بھی اگر نہ لوٹا تو کیا کروگے
-------------------------------

 

ہماری غربت پہ کیوں ہو ہنستے ، یہ فِقرے تم جو ہو خوب کستے
تمہارے فقروں نے طوق بن کر تمہیں پھنسایا تو کیا کروگے

ہے علم و شہرت کا تم کو دعوہ ، اُسی پہ بٹّا لگےتو شکوہ؟
حسابِ عشق عاشقوں نے تمہی کو سونپا تو کیا کروگے

پتا ہے مجھ کو سکونِ ساحل ، مگر ہوں پھر بھی بھنور میں حائل
میں ڈوبتا ہوں تو ہنس رہے ہو ، میں تَیر آیا تو کیا کروگے

ابھی تو ڈرتے ہو کشتیوں سے ، ہو خوب مانوس ساحلوں سے
او خوفِ غرق رکھنے والوں جو ایلا آیا تو کیا کروگے

نہیں ہے پچھم سے شمس نکلا ، بتا دو فاراں ہے وقتِ توبہ
نعوذ باللہ حجاب اُٹھتے خیال آیا تو کیا کروگے

...

تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی

تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی
سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی

ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں  دیوارِ روضہ کو
صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی

امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے
شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ  ہلاکت کی

بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا
ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی

میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو
کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی

چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو !
یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی

الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا
ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی

نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا
کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی

مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں
کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی

یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا
وگرنہ دیکھتا یہ بھی کہیں تاویل رحمت کی

ذرا ایمان تو پرکھو ،  ذرا اعمال تو دیکھو
بڑے آئے شکایت کرنے والے اپنی قسمت کی

یہ چاہت ہے تری فاراں سبھوں میں انقلاب آئے
چراغوں سے سحر ہوتی نہیں ہے ایسی ظلمت کی

...