شہیدِ جنگِ آزادی حضرت مولانا سیّد محمد کفایت علی کافی مراد آبادی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

عِشقِ احمد سے دل کو راحت ہے

 

حدیثِ اوّل

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  قَالَ قالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

ہے انس اِس حدیث کا راوی
خادمِ بارگاہِ مصطفوی
خبرِ معتبر سناتا ہے
بات ایمان کی بتاتا ہے
واہ کیا جاں فزا اِشارت ہے
او محبّو! تمھیں بِشارت ہے
کہ رسولِ خدا نے فرمایا
دین کے رہ نما نے فرمایا
یعنی تم میں سے ایک بھی انساں
کر سکے کیوں کہ دعویِ ایماں
جب تلک میری الفتِ کامل
ہووے نہ اُس کو اِس قدر حاصل
کہ مجھے اپنے باپ و بیٹے سے
وہ بہر حال دوست تر سمجھے
اور کوئی بشر زمانے کا
اُس کو محبوب ہو نہ میرے سوا
ہووے اِس درجہ مجھ پہ جب قرباں
ہے بجا اُس کو دعویِ ایماں
الغرض حُبِ احمدِ مختار
اُن کے اوپر سلام لاکھوں بار
مومنوں کو تو
عینِ ایماں ہے
دین داروں کو راحتِ جاں ہے

غزل در نعت شریف جناب رحمۃ للعالمین

 

عِشقِ احمد سے دل کو راحت ہے
کیا ہی اللہ کی عنایت ہے
ذاتِ پاکِ محمد ِ عربی
عَینِ رحمت ہےعَینِ رحمت ہے
حُبِ احمد کا نام ہے ایماں
او محبّو! تمھیں بِشارت ہے
گر میسّر ہو آپ کی چاہت
کیا ہی دولت ہےکیا ہی دولت ہے
روش و راہِ دینِ مصطفوی
واہ کیا کوچۂ سلامت ہے
ہو سکے کس سے نعتِ پاک رقم
کس کے کام و زباں میں طاقت ہے
جرمِ کؔافی تو بخش دے، یا رب!
یہ بھی خیر البشر کی اُمّت ہے

...

!دے مجھے راہِ راست، یا اللہ

۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔

 

دے مجھے راہِ راست، یا اللہ!
نہ رہوں کج نگاہ، یا اللہ!
بَہ طُفیلِ نبی شَفیعِ اُمم
بخش میرے گناہ، یا اللہ!
دمِ آخر تلک ہو میرے نصیب
دین و ایماں کی چاہ، یا اللہ!
ہو مِرا خاتمہ مع الاثبات
کلمۂ لا الٰہ، یا اللہ!
اور محمد کو بھی رسول کہوں
تیرا بے اشتباہ، یا اللہ!
ہونا تو گور میں بَہ وقتِ سوال
میرا پشت و پناہ، یا اللہ!
کہ محمد کی میں رسالت پر
رہوں شاہد گواہ، یا اللہ!
آلِ احمد نبی کے صدقے سے
ہو مِرا واں پناہ، یا اللہ!
از برائے صحابۂ حضرت
رکھ مِرا عزّ و جاہ، یا اللہ!
بحرِ عصیاں کے جوش سے بھی نہ ہو
میری کشتی تباہ، یا اللہ!
تیری رحمت سے پار ہو کؔافی
مثلِ برگِ گیاہ، یا اللہ!
بَہ جنابِ نبی درود و سلام
بھیج شام و پگاہ، یا اللہ!

 

...

جان و دل اس شہِ لولاک پہ قرباں کیجے

حدیثِ دوم                                                                             

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قَالَ اِنَّ مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِیْ لِیْ حُبًّا نَاسٌ یَّکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ رَاٰنِیْ بِاَھْلِہٖ وَمَالِہٖ۔(رَوَاہُ مُسْلِمٌ)

 

یہ روایت ابو ہُریرہ کی
اس صحابی سے یوں ہُوئی مروی
کہ بَہ تحقیق حضرتِ احمد

اُن پہ نازل ہو رحمتِ ایزد
لبِ اعجاز کو ہلاتے تھے
ہم کو اِس طرح سے سناتے تھے
کہ مِرے بعد ہوں گے کچھ اَشخاص
روشِ دوستی میں با اخلاص
ہوں گے کامل مِری محبّت میں
سخت تر ہوں گے راہِ اُلفت میں
میرے دیدار کے فدا ہوں گے
طالبِ روئے مصطفیٰ ہوں گے
ہوگی اِس بات کی اُنھیں چاہت
کہ مجھے دیکھتے کسی صورت
زن و فرزند اور مال و تبار
کرتے سب کچھ اس آرزو میں نثار
کچھ نہ پروائے سیم و زر کرتے
میری صورت ہی پر نظر کرتے
یاں تلک اس حدیث کا مضموں
ہو چکا سلکِ نظم میں موزوں
اب یہ بہتر ہے کؔا
فیِ دل گیر
غزلِ تازہ کیجیے تحریر

 

غزل در نعتِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

 

جان و(؟) دل اس شہِ لولاک پہ قرباں کیجے
اُن کے قدموں پہ تَصدّق یہ دل و جاں کیجے
۔۔۔(؟) کیا چیز ہے  اک جاں کی حقیقت کیا ہے
۔۔۔(؟) جان فرش رہ مقدمِ جاناں کیجیے
بچ(؟) گئے جس کی شفاعت کے سبب دوزخ سے
ایسے محسن کا ادا شکر کس عنواں کیجے
۔۔۔(؟) جب دولتِ دیدار ہی ہم کو نہ ملے
کیوں(؟) نہ اِس عمر کو صرفِ غَمِ ہجراں کیجے
سامنے آپ کے اے مہرِ سپہرِ رحمت
عرض کیا کیا المِ شامِ غریباں کیجے
شدّتِ مرض و محن، جرم و گنہ کی کثرت
تا غم و درد کو اظہار نمایاں کیجے
اب تو اے رحمتِ عالَم لب اعجاز کے ساتھ
کؔافیِ خستۂ دل ریش کا درماں کیجے

...

کیجیے کس زباں سے شکرِ خدا

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

 

کیجیے کس زباں سے شکرِ خدا
کیں عطا اُس نے نعمتیں کیا کیا
ہر سرِ مو ہو گر ہزار زباں
ہر زباں سے کروں ہزار بیاں
مو برابر نہ ہو سکے تقریر
حمدِ خلّاق و شکرِ ربِّ قدیر
ہے وہ معطی و منعم و وہّاب
جس کی رحمت کا کچھ نہیں ہے حساب
ہے عنایات ِ ایزدِ غفّار
یوں تو ہم سب پہ بے حساب و شمار
ہے مگر یہ عجیب فضل و کرم
کہ مخاطب کیا بَہ خیرِ اُمَم
شکر کس طرح سے کریں اس کا
 کہ کیا اُمّتِ حبیبِ خدا
وہ رسولِ خدا شفیعِ اُمَم
ہے لقب جن کا رحمتِ عالَم
اُن کے حق میں خدا نے فرمایا
تم کو رحمت کے واسطے بھیجا
ہم پہ احسان یہ کیا کیسا
اُن کی اُمّت میں جو کیا پیدا
واہ کیا ذاتِ پاکِ حضرت ہے
عینِ رحمت ہے عینِ رحمت ہے
تھا شمائل کا ترجمہ جو لکھا
نام اُس کا ’’بہارِ خلد‘‘ رکھا
نام اِس کا ’’نسیمِ جنّت‘‘ ہے
جادۂِ مستقیمِ جنّت ہے
نگہتِ باغِ مصطفائی ہے
بوئے ایماں یہاں سمائی ہے
اُن حدیثوں کے نظم کا ہے خیال
جن میں ہے حُبِ احمدی کا حال
اور وردِ دُرود کی تفصیل
وصف جس کا ہے خارجِ تفصیل
اور توصیفِ اہلِ بیتِ کرام
اُن کے اوپر ہزار بار سلام
اور وصفِ صحابۂ حضرت
اُن پہ نازل خدا کی ہو رحمت
اور گور و لحد کی وہ شدّت
الم و درد و دہشت و وحشت
ہے جو وہ گورِ امتحاں کا مقام
واں بھی آتا ہے کام  آپ کا نام
وحشتِ گور جب ستاتی ہے
حُبِ احمد ہی کام آتی ہے
یا الٰہی! بَہ حَقِّ آلِ رسول
نَظمِ کاؔفی کو کیجیو مقبول
اب تو دل چاہتا ہے یوں میرا
کہ لکھوں یک غزل بَہ ضِمنِ دعا

...

رحمتِ عالَم جنابِ مصطفیٰﷺ کا ساتھ ہو

مُناجات

 

 
رحمتِ عالَم جنابِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی! ہے یہی دن رات میری التجا
روزِ محشر شافِعِ روزِ جزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب قریبِ نیزہ آئے آفتاب
اُس سزاوارِ خطابِ
وَالضُّحٰی کا ساتھ ہو
یا الٰہی! حشر میں نیچے لوائے حمد کے
سیّدِ سادات فخرِ انبیا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! پُل کے اوپر بھی بَہ ہنگامِ گزر
دستگیرِ بے کساں اُس پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب عمل میزان میں تُلنے لگے
سیّدِ ثقلین ختم الانبیا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب قیامت میں صفیں بندھنے لگیں
اہلِ بیتِ مجتبیٰ آلِ عبا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! شغلِ نعتِ مصطفائی میں رہوں
جسم و جاں میں جب تلک میرے وفا کا ساتھ ہو
بعد مرنے کے یہی ہے کؔافی کی، یا رب! دعا
دفترِ اَشعارِ نعتِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

...

لبِ جاں بخش سے کیا خوب فرمایا

حدیثِ چہارم از ’’مَشَارِقُ الْاَنْوَار‘‘

 

عَنِ اَنَسٍ رَّضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(۔۔۔قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ۔(رَوَاہُ بُخَارِیٌّ وَّمُسْلِمٌ)

 

اس طرح سے بیان انس نے کیا
کہ جنابِ نبی نے فرمایا
کہ محبّت ہے جس کسی سے تجھے
اور اُلفت ہے  جان و جی سے تجھے
تو تو اے شخص ہے اُسی کے ساتھ
جس کی اُلفت میں صرف کی اوقات
اس روایت میں جو رہا اِجمال
ہے مناسب لکھوں مفصّل حال
ہے جو شرحِ ’’مَشارق الاَنوار‘‘
اس کے شارح نے یہ کیا اظہار
کہ جنابِ شَفیعِ محشر سے
فخرِ عالَم قسیمِ کوثر سے
ایک سائل نے یہ سوال کیا
کہ قیامت کا دن کب آئے گا
آپ نے اِس طرح کیا ارشاد
تو جو محشر کو کر رہا ہے یاد
تو نے ساماں برائے روزِ جزا
کر رکھا ہے تیار یاں کیا کیا
اُس نے یہ عرض کی کہ اے شہِ دیں
کوئی(؟) سامان میرے پاس نہیں
نہ تو کچھ کثرتِ عبادت ہے
نہ مَتاعِ وُفورِ طاعت ہے
ہاں مگر دوستی خدا سے ہے
اور الفت بھی مصطفیٰ سے ہے
آپ نے تب یہ بات فرمائی
اور ارشاد یہ حقیقت کی
کہ تجھے جس کسی سے اُلفت ہے
سبب و موجبِ معیّت ہے

 

غزل در نعتِ رسول

 

لبِ جاں بخش سے کیا خوب فرمایا
حُبّ و اُلفت کی حقیقت کو عیاں فرمایا
اُس لبِ لعل کے اور کام و زباں کے صدقے
جس زباں سے یہ
سخنِ جانِ جہاں فرمایا
ا
ہلِ ایماں کے لیے تو وہ کلام حق ہے
تم نے جو ا
فضلِ پیغامبراں فرمایا
شبِ فرقت میں ہوئی عید محبّوں کے لیے
مژدۂ وصل جو اے سروِ رَواں فرمایا
گو کہ ہم آج تڑپتے ہیں شبِ فرقت میں
کل کا وعدہ تو بھلا آپ نے واں فرمایا
قابلِ نار ہُوا جس کو کہا ناری ہے
وہ بہشتی ہے جسے ا
ہلِ جناں فرمایا
رشکِ فردوس ہُوا دیر کہن اے کؔافی!
جب سے یاں سرورِ عالَم نے مکاں فرمایا

 

...

جس کو خیرالوریٰ سے اُلفت ہے

حدیثِ پنجم از ’’اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنِّیَّۃُ‘‘

 

عَنِ اَنَسٍ رَّضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مَرْفُوْعًا: مَنْ اَحْیَا سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ۔(رَوَاہُ فِی الْمَوَاھِبُ اللَّدُنِّیَّۃُ)

 

یہ روایت بَہ صورتِ مرفوع
رکھتی ہے اِس طرح ظہورِ وقوع
کہ انس نے بیاں کیا ایسا
یعنی حضرت نبی نے فرمایا
کہ جس انسان نے مِری سنّت
جہد و کوشش سے زندہ کی سنّت
اُس نے تحقیق مجھ کو دوست رکھا
دوستی میں مِری یہ کام کیا
اور جو میری دوستی میں ہو
حُبّ و اخلاص اُس کے جی میں ہو
ساتھ میرے وہ ہوگا جنّت میں
کہ رہا ہے مِری محبّت میں
ہیں جو اَفعال و عادت ِ نبوی
اُس کو کہتے ہیں سنّتِ نبوی
جو کہ طالب ہُوا صفائی کا
روش و راہِ مصطفائی کا
آپ نے اُس کو یہ بِشارت دی
۔۔۔(؟) مشتاق کی تسلّی دی

 

 

غزل در نعتِ رسول

 

جس کو خیرالوریٰ سے اُلفت ہے
بس وہی دوستدارِ سنّت ہے
سالکِ راہِ مصطفیٰ کے لیے
شہِ کونین کی معیّت ہے
حا
صلِ حُبِ سرورِ عالَم
باغِ رضواں ریاضِ جنّت ہے
ہے جو عامل بَہ سنّتِ نبوی
اُس کو دونوں جہاں کی دولت ہے
شاہِ دیں خاتَمِ نبوّت کو
۔۔۔(؟) رحمت بَہ حالِ اُمّت ہے
۔۔۔(؟) کدھر طالبانِ راہِ صفا
واسطے اُن کے یہ بِشارت ہے
۔۔۔(؟) حضرت ہمیں تو اے کؔافی
۔۔۔(؟) و ایماں کی حقیقت ہے

 

...

بارِ عشقِ احمدی، کؔافی! اُٹھانا چاہیے

حدیثِ ششم

 عَنِ عَبْدِاللہِ بْنِ ھُشَّامٍ رَّضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  قَالَ کُنَّا معَ النَّبِیٍّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَ ھُوَ اَخَذَ بِیَدِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَنْتَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِلَّا نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ فَاِنَّہُ الْاٰنَ وَاللہِ لَاَنْتَ  اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْاٰنَ یَا عُمَرُ۔

 راویِ خوش کلام ابنِ ہشام
خادمِ بارگاہِ خیرِ انام
اِس روایت کو ہے رواں کرتا
اور یہ حال ہے بیاں کرتا
عاشقانہ کلام کرتا ہے
یہ سخن دل میں کام کرتا ہے
کہ ہمراہِ سرورِ عالَم
یعنی تھے ایک روز حاضر ہم
اس گھڑی عین مرحمت کے ساتھ
تھے وہ پکڑے ہُوئے عمر کا ہاتھ
بختِ فاروق تھا بلندی پر
اور معراجِ ارجمندی پر
کیا ہی رتبہ عمر کو حاصل تھا
دست دستِ نبی سے واصل تھا
دستگیرِ خلائقِ عالَم
ساتھ اُس یار کے تھے گرم کرم
جس گھڑی یہ عمر نے دیکھا حال
یہ عنایات اور یہ افضال
بَہ جنابِ نبی حبیبِ خدا
اپنی اُلفت کا حال عرض کیا
کہ مجھے آپ سے یہ اُلفت ہے
اور اس طرح کی محبّت ہے
کہ بجز ذاتِ سیّدِ ابرار
کوئی محبوب اب نہیں زنہار
دوست اب تم سوا نہیں کوئی
کچھ محبّت پر اپنی جان سے ہے
جب عمر نے یہ حال عرض کیا
سَرورِ انبیا نے فرمایا
کہ نہیں کام ایسی الفت سے
اور مطلب نہ اس محبّت سے
ہے قسم ذاتِ کبریائی کی
دستِ قدرت میں جس کے جاں ہے مِری
مجھ سے اِس درجہ چاہیے اُلفت
اور اُس درجہ ہو مِری چاہت
کہ مجھے اپنی جان سے بہتر
تو سمجھتا رہے مدامِ عمر
جب کہ فاروق نے یہ حال سنا
خاتمِ انبیا سے عرض کیا
کہ محبّت کا حال ایسا ہے
اب عمر آپ کا یہ شیدا ہے
ہے خدائے کریم کی سوگند
اپنے ربِّ رحیم کی سوگند
کہ مجھے آپ سے جو اُلفت ہے
اپنی جاں سے نہ وہ محبّت ہے
دوست تر تم جاں سے رکھتا ہوں
اپنی روح و رواں سے رکھتا ہوں
آپ نے سن کے اِس حقیقت کو
یوں کہا اُس ر
ہینِ اُلفت کو
کہ بس اب یہ جو حال تیرا ہے
میری اُلفت سے تجھ کو بہرہ ہے

  

غزل در نعت شریف

 

بارِ عشقِ احمدی، کؔافی! اُٹھانا چاہیے
گر نہیں یہ غم تو غم سے مر ہی جانا چاہیے
جب کہ ٹھہری عَینِ ایماں حبِ محبوبِ خدا
اپنے ایماں کو بھلا پھر کیا چھپانا چاہیے
دین و ایمان آپ کی اُلفت سے ہوتا ہے حصول
طالبِ ایمان کو یہ باتیں سنانا چاہیے
ہیں کدھر وہ منکرانِ الفتِ خیرالبشر
بے تمیزوں کو ذرا مجھ تک بُلانا چاہیے
شاید آجائیں طریقِ راستی پر بے ادب
درسِ عشقِ مصطفائی کو سنانا چاہیے
جس کو کچھ بہرہ نہیں حُبِ شہِ ابرار سے
اُس کو جھوٹا دعوی الفت میں جانا چاہیے
قول یہ میرا نہیں ، قولِ شہِ اَبرار سے
مخبرِ صادق کے فرما نے کو مانا چاہیے
کچھ بھی گر دل میں تمھارے خواہشِ ایمان ہے
ہر بشر سے آپ کو محبوب جانا چاہیے
جان و دل قرباں کرو حُبِ شہِ اَبرار میں
مغفرت کے واسطے کچھ بھی ٹھکانا چاہیے
گر رضائے حق تعالیٰ دوستو! منظور ہے
نقشِ حُبِ احمدی دل پر بٹھانا چاہیے
روئے اطہر جو ہے والا
حَبَّذَا صَلِّ عَلٰی
ایسے محبوبِ خدا پر دل لگانا چاہیے
شاہدِ اَخلاقِ حضرت آیتِ خُلقِ عظیم
وَالضُّحٰی وصفِ رخِ پُر نور جانا چاہیے
واصفِ چشمِ مبارک آیتِ
مَا زَاغ ہے
وصفِ گیسو سورۂ
وَاللَّیْل جانا چاہیے
جانِ احمد کی خدائے پاک نے کھائی قسم
ہم کو سوگندِ نبی کیوں کر نہ کھانا چاہیے
یاد کر لطفِ تبسّم سیّدِ کونین کا
دل یہی کہتا ہے ہر دم مسکرانا چاہیے
سیریِ کاؔفی نہیں ممکن ہے نعتِ پاک سے
عندلیبِ زار کو گُل کا فسانا چاہیے

...

صبح محشر شانِ محبوبی دکھانا چاہیے

حدیثِ ششم

 

عَنِ عَبْدِاللہِ بْنِ ھُشَّامٍ رَّضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  قَالَ کُنَّا معَ النَّبِیٍّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَ ھُوَ اَخَذَ بِیَدِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَنْتَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِلَّا نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ فَاِنَّہُ الْاٰنَ وَاللہِ لَاَنْتَ  اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْاٰنَ یَا عُمَرُ۔

 

صبح محشر شانِ محبوبی دکھانا چاہیے
خندۂ دنداں نما سے مسکرانا چاہیے
آب و تابِ حُسنِ عالَم گیر کے اعجاز سے
آفتابِ حشر کی تیزی بجھانا چاہیے
گیسوِ مشکیں دکھا کر عرصۂ عرصات میں
اپنے مشتاقوں کو دیوانہ بنانا چاہیے
جلوۂ قدِّ مبارک سایۂ قامت کے ساتھ
ہم کو خورشیدِ قیامت سے بچانا چاہیے
تم شفیع المذنبیں، تم رحمۃ للعالمیں
اپنی اُمّت کو خدا سے بخشوانا چاہیے
اہلِ محشر بھول جائیں گے مَصائب حشر کے
جلوۂ روئے مبارک کو دکھانا چاہیے
دیکھ کر جاہ و جلالِ شانِ محبوبِ خدا
تجھ کو او خورشیدِ محشر مُنھ چھپانا چاہیے
گر نہ آیا دامنِ دیدار، کاؔفی! ہاتھ میں
دھجیاں جیب و گریباں کی اُڑانا چاہیے

...