لکھوں حال کچھ عبدِ حق دہلوی کا
لکھوں حال کچھ عبدِ حق دہلوی کا
محدّث، محقق، محبِّ نبی کا
...
لکھوں حال کچھ عبدِ حق دہلوی کا
محدّث، محقق، محبِّ نبی کا
...
کہ جس چیز سے کوئی اُلفت رکھے گا
بہت ذکر اُس کا وہ کرتا رہے گا
...
مناجات کرتا ہوں میں اے عزیزو!
ذرا لفظِ ’’آمین‘‘ تم بھی کہوں تو
...
لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا
کہ ہے ا صلِ صلوات کا وہ نتیجہ
...
سلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی
سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی
...
کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے
...
سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا
...
خیابانِ فردوس جب لکھ چکا میں
ہوئی سالِ تاریخ کی فکر مجھ کو
عجب مصرعۂ سالِ تاریخ پایا
’’بہارِ خیابانِ فردوس دیکھو‘‘ (1267ھ)
ہے جو یہ خدا صلو علیہ و سلمو
اور امیر کبریا صلو علیہ و سلمو
...
فخرِ دو عالمِ حبیبِ یزدانی
عینِ رحمت رسولِ رحمانی
رازدارِ رُموزِ ما اوجٰے
محرمِ قربِ سرِّ ربّانی
حسن و خلق و جمال و خوبی میں
بے مثال و نظیر و لاثانی
فخر ہے واسطے سلیماں کے
درِ دولت کی اُن کے دربانی
اُن کے خورشید رخ کا تھا پرتو
حُسنِ بے مثل ماہِ کنعانی
بحرِ جود ِ قسیمِ کوثر کا
ایک قطرہ ہے ابرِ نیسانی
اُس کو کاؔفی ہے مغفرت کا صلہ
جس نے کی آپ کی ثنا خوانی