صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ
سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا
حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم
سنراوارِ تحسین و حمد و ثنا تھا
جبینِ مصفّا میں حُسنِ مصفّا
ہلال اور ماہِ تمام ایک جا ہیں
بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی
گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا
مدوّر جو کہتی ہیں چہرے عالَم
وہ تدویر سے بھی ورآء الورا تھا
وہ صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا
کہ غازہ رخِ عالمِ نور کا تھا
چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت
فروغ ملاحت دمکتا ہوا تھا
مزیّن بَہ پیرایۂ اعتدالی
خوش اندام اندامِ خیرُ الورا تھا
وہ چشمِ مبارک کی روشن سیاہی
کہ سر چشمۂ نور جس کا گدا تھا
وہ دندان و لب غیرتِ وردِ ہر جاں
وہ حُسنِ تبسم کا عالَم نیا تھا
وہ بحر تبسم میں موجِ تبسم
کہ دریوزہ گر جس کا آبِ تقا تھا
وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو
تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا
کروں اُس شمائل کا کیا وصف، کاؔفی!
سراپا سبھی خوبیوں سے بھرا تھا
جنابِ نبیﷺ نے مبارک زباں سے
یہ فرمایا اُس مردِ صلوات خواں سے
کہ آ میرے نزدیک تو لا دہن کو
کہ دوں تیرے، اے شخص! بوسہ دہن کو
سبب اس کا یہ ہے کہ تو میرے اوپر
درود اور صلوات پڑھتا ہے اکثر
بیان ایسا کرتا ہے اپنا وہ راوی
کہ اُس وقت مجھ کو بہت شرم آئی
نہ دیکھا یہ رتبہ کچھ اپنے دہن کا
کہ لاؤں قریبِ دہانِ مصفّا
مجھے پاسِ آداب گو روکتا تھا
مگر امرِ عالی بھی لانا بجا تھا
بجائے دہن اپنا رخسار لا کے
کیا سامنے سرورِ انبیا کے
مشرف ہوا بوسۂ شاہِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے
یکا یک اٹھا میں جو بیدار ہو کر
تو پایا سبھی اپنے گھر کو معطّر
مِرے گھر میں وہ نکہتِ جاں فزا تھی
کہ واں نکہتِ مشک بھی کم بہا تھی
رہی آٹھ دن تک یہ حالت حقیقت
کہ آتی تھی رخسار سے میرے نکہت
مہکتا تھا گھر اور رخسار میرا
ہوا واہ کیا بخت بیدار میرا
محبو! ذرا سوچنے کی یہ جا ہے
درودِ مبارک کا کیا مرتبہ ہے
کیا شیخ احمد نے مذکور ایسا
کہ شبلی ابوبکر کے پاس آیا
ابوبکر جس کا ’’مجاہد‘‘ لقب تھا
جو شبلی کو آتا ہوا اُس نے دیکھا
اٹھا سرو قد بہرِ تعظیمِ شبلی
بجا لایا عنوانِ تکریمِ شبلی
بہت کر کے اُلفت گلے سے لگایا
نہایت محبّت سے ماتھے کو چوما
یہاں قولِ اقلیسی اس طرح کا ہے
بیاں اُس محقق نے ایسا کیا ہے
کہ میں نے ابوبکر سے التجا کی
کہ یا سیّدی تم نے یہ بات کیا کی
سمجھیے کہ بغداد میں جو بشر ہے
وہ شبلی کو مجنون کہتا مگر ہے
کہا کرتے ہو تم بھی دیوانہ اُس کو
سبب ایسی توقیر کا کچھ بتاؤ
ابوبکر بولے کہ شبلی کی عزت
کہ کی آج میں نے بانواعِ اُلفت
یہ اپنی خوشی سے محبت نہیں کی
تبیعت یہ ہے سیّد المرسلیں کی
سنو اس حقیقت کا مذکور ہے یوں
کہ میں اس طرح خواب میں دیکھتا ہوں
کہ ہیں سرورِ انبیا جلوہ فرما
حضورِ مبارک میں شبلی بھی آیا
اٹھے دیکھ کر اُس کو ختمِ رسالت
ملاقات کی با کمالِ محبّت
میانِ دو چشم اس کے بوسہ دیا پھر
کیا عرض میں نے کہ کیا اس میں تھا سر
جواب ایسا مجھ کو دیا شاہ دیں نے
جنابِ نبی رحمت العالمیں نے
کہ شبلی کی یعنی یہ ٹھری ہے عادت
کہ پڑھ کر نماز اور ہوکر فراغت
پڑھا کرتا ہے یہ بطرز دوامی
لَقَدْ جَآءَ کُمْ کی یہ آیت تمامی:
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾
فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ٭۫ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاہُوَؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪
اِس آیت کو پڑھ کر کے وہ انتہا تک
پڑھا کرتا ہے پھر درودِ مبارک
غرض یہ کہ اُس پر جو یہ مرحمت ہے
یہی واسطہ موجبِ مکرمت ہے
لکھا ہے اس احوال کو مجدِ دیں نے
کیا ہے بیاں شیخِ اہلِ یقیں نے
کہ تھا میرے ہم سائے میں کوئی رہتا
قضائے الٰہی سے وہ مر گیا تھا
غرض بعدِ رحلت پسِ چند مدّت
نظر آ گیا خواب میں ایک نوبت
سوال اُس سے میں نے کیا دیکھتے ہی
کہ کیا کیفیت قبر میں نے تو نے دیکھی
کہا اُس نے احوال کیا پوچھتے ہو
اگر پوچھتے ہو تو اب مجھ سے سن لو
کہ جس وقت آئے نکیر اور منکر
ہوا عرصۂ عافیت تنگ مجھ پر
عجب تنگیِ حال نے مُنھ دکھایا
عجب طرح کا حال در پیش آیا
وہ دہشت وہ وحشت وہ تنگی کا عالم
بجز صورتِ غم نہ تھا کوئی ہمدم
اس اَحوال کو دیکھ کر میں نے جانا
نہیں دین، ایمان سے مجھ کو بہرا
کہ ناگاہ مرقد میں اک شخص آیا
مکرم مبارک بروئے مصفا
نکیر اور منکر کھڑے تھے اُدھر کو
مصیبت کے عالم میں تھا میں اِدھر کو
کہ آتے ہی وہ مردِ زیبا شمائل
ہوا مجھ میں اور اُن فرشتوں میں حائل
سکھایا جواب اُن فرشتوں کا مجھ کو
کہ دے تو جواب اس طرح مستقل ہو
غرض میں ہوا جب کہ ثابت بَہ حجت
ہوئی میرے اُوپر سے زائل مصیبت
ہوا واہ کیا موردِ لطفِ باری
ہوئی کیا ہی آسان مشکل ہماری
جو میں نے یہ احسان و اکرام دیکھا
تو اس شخص سے حال و احوال پوچھا
کہ تم کون ہو اور آئے کہاں سے
کہ میں چھٹ گیا امتحاں کے مکاں سے
مجھے آپ نے ایسی حجت سکھائی
کہ دستِ ملائک سے پائی رہائی
یہ کہنے لگا مجھ سے وہ پاک پیکر
کہ صلوات کو تو جو پڑھتا تھا اکثر
تو وردِ درودِ نبیﷺ کے سبب سے
ملی ہے یہ صورت مجھے لطفِ رب سے
مِرا یہ تمامی وجودِ مصفا
نتیجہ ہے صلوات خوانی کا گویا
نہیں ہے ولادت مِری اُمّ و اب سے
بنا ہوں درودِ نبیﷺ کے سبب سے
تِرے ساتھ ہوں ہر جگہ، ہر مکاں پر
رہوں گا وہیں تو رہے گا جہاں پر
بَہ وقتِ مصیبت بَہ ہنگامِ شدّت
کروںگا تِری میں رفاقت معیت
کیا کعب احبار نے ذکر اِس کا
کہ موسیٰ نبی کو یہ پیغام آیا
کہ گر میرے مدّاح و حامد نہ ہوئیں
تو باراں کے قطرے فلک سے نہ برسیں
جماؤں زمیں پر نہ میں ایک دانہ
معطّل رکھوں اور سب کارخانہ
اگر تجھ کو اس بات کی ہے تمنّا
کہ میں تجھ سے نزدیک ہو جاؤں ایسا
کہ جیسے کلام و زباں متصل ہے
و یا کالبد اور جاں متصل ہے
و یا جس طرح چشم و نورِ بصر ہے
کہ ہر وقت اُنھیں قربتِ یک دگر ہے
کیا عرض موسیٰ نے، اے ربِّ عزت!
عطا مجھ کو ایسی ہی کیجے معیت
ہوا حکم گر یہ عطا مانگتا ہے
درودِ محمد سے ملتی عطا ہے
درود اُن کے اُوپر جو اکثر پڑھے گا
یہ سب نسبتِ قرب حاصل کرے گا
روایت ہوئی دوسری اور مروی
کہ موسیٰ کو پہنچا یہ حکمِ الٰہی
کہ گر تجھ کو منظور و مطلوب یہ ہو
کہ دیکھے نہ محشر کی تو تشنگی کو
تو پڑھیے محمد پہ صلوات اکثر
درودوں میں ہو صَرف اوقات اکثر
ابی بکر صدّیق سے ہے روایت
کہ کہتے ہیں وہ صدرِ بزمِ صداقت
کہ پڑھنا درود و تحیت نبیﷺ پر
گناہوں کو کرتا ہے نابود یک سَر
مٹاتا ہے جرم و گناہ اِس طرح سے
کہ آتش کو جس طرح پانی بہا دے
کہوں کیا سلامِ نبی کی فضیلت
کہ ثابت ہوئی اُس کی ایسی فضیلت
کہ ابلاغِ صلوات حضرت نبیﷺ پر
ہے بردے کے آزاد کرنے سے بہتر
کہوں وصف کیا حبِ خیرالورا کا
کہ ہیں حبِ احمد میں اوصاف کیا کیا
محبت نبیﷺ کی ہے کیا بے بدل شے
جہاد و غزا پر فضیلت اسے ہے
ہوا ہے یہ ثابت بیانِ انس سے
کہ جب دو مسلمان ہیں آپس میں ملتے
ملاقات کے وقت ہاتھوں کو اپنے
ملاتے ہیں وہ پنجۂ یک دگر سے
درود اور اُس وقت اپنے نبیﷺ پر
جو پڑھتے ہیں دونوں مسلماں برادر
جدا ہونے پاتے نہیں یک دگر سے
کہ جرم و گناہ اُن کےجاتے ہیں بخشے
گناہانِ اوّل گناہانِ آخر
سبھی بخش دیتا ہے خلّاقِ اکبر
روایت یہ منقول ہے بوالحسن سے
جنابِ علی شاہِ خیبر شکن سے
کہ سلطانِ دیں، سرورِ انبیا نے
کیا ایسا ارشاد خیر الورا نے
کہ جو حجِ اسلام کرنے کو آئے
ادا کر کے حج پھر وہ غزْوے کو جائے
تو ہے ایسے غزْوے کا یہ اجرِ کامل
کہ ہے چار سو حج سے غزوہ مقابل
غرض سُن کے اس بات کو وہ جماعت
نہ تھی جن کو حج اور غزْوے کی طاقت
ہوئے دل شکستہ وہ بے طاقتی سے
سُنی جب فضیلت یہ حضرت نبیﷺ سے
وہیں حکم آیا خدائے جہاں کا
جنابِ شفیعِ قیامت کو ایسا
کہ جو کوئی بھیجے درودِ مبارک
تِرے اوپر اے میرے محبوب بے شک
وہ پہنچے گا ثواب و جزا کو
کیا چار سو بار گویا غزا کو
وہ ہر ایک غزْوے کا رتبہ ہے ایسا
عوض چار سو حج کا ہوتا ہے جیسا
کہا بو مظفر نے احوال اپنا
کہ میں اتفاقاً رہِ کعبہ بھولا
وہیں سامنے میرے دو شخص آئے
مجھے جادۂ راستہ پر وہ لائے
کہا میں نے تم کون ہو او عزیزو
مجھے اپنے نام و نشاں تو بتاؤ
کہا ایک نے خضر ہے نام میرا
یہ الیاس ہے دوسرا ساتھ والا
پھر اُن سے کہا میں نے یہ بھی بتادو
کہ دیکھا ہے تم نے رسولِ خدا کو
بیاں خضر و الیاس نے کی حقیقت
کہ کی ہے رسولِ خدا کی زیارت
کیا عرض پھر میں نے، اے رہنماؤ!
قسم ربِّ عزت کی دیتا ہوں تم کو
کہ جو کچھ جنابِ نبیﷺ سے سنا ہے
بیاں کیجیے مجھ سے وہ حال کیا ہے
اُنہوں نے کہا ہم نے ایسا سُنا تھا
جناب نبیﷺ سے کہ جو یوں کہے گا
...