شہیدِ جنگِ آزادی حضرت مولانا سیّد محمد کفایت علی کافی مراد آبادی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

مناجات کرتا ہوں میں اے عزیزو!

مناجات

 

مناجات کرتا ہوں میں اے عزیزو!
ذرا لفظِ ’’آمین‘‘ تم بھی کہوں تو
الٰہی الٰہی الٰہی الٰہی
کرم کر طفیلِ رسالت پناہی
ہمیں محوِ حُبِّ رسولِ خُدا کر
ہمیں دین  و ایمانِ کامل عطا کر
وہ ایمانِ کامل کہ حبِّ نبی ہے
مِرے دل کو اُس کے لیے بے کلی  ہے
مجھے حبِّ احمد کا شایاں عطا کر
الہٰی! مجھے دین و ایماں عطا کر
رہوں نعرہ زن، اُلفتِ مصطفیٰ میں
شب و روز حبِّ حبیبِ خُدا میں
مِرا عزم جب سُوۓ دارِ بقا ہو
مِرے لب پہ نامِ حبیبِ خُدا ہو
میں اپنے نبی کی محبّت میں اُٹھوں
شفیعِ قیامت کی اُلفت میں اُٹھوں
فوائد، فضائل درودِ نبی کے
حبیبِ خُدا ہاشمی اَبطحی کے
سنو او محبّانِ درگاہِ حضرت
پڑھو اُن کے اوپر درودِ تحیّت
سلام و صلاۃِ نبی کی فضیلت
ہوئی ہے کتابوں میں وارد بَہ کثرت
وہ اس طرح کی کثرتِ بے عدد ہے
کہ امکانِ طاقت سے باہر وہ حد ہے
مگر قدرِ طاقت جو علمائے دیں نے
احادیث کی واقفانِ متیں نے
روایت صحیح مستند معتبر سے
کہ مروی ہیں علمائے اہلِ خبر سے
بَہ اَسنادِ کامل جو ثابت کیا ہے
جدا منتخب کر کے اُس کو لکھا ہے
کیا ہی بانواعِ توصیفِ ظاہر
سنو مومنو! ہو کے تم دل سے حاضر

...

لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا

آغازِ فوائد و فضائلِ درود شریف

لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا
کہ ہے اصلِ صلوات کا وہ نتیجہ
ہوا ہے دُرود اس طرح کوئی مروی
کہ تقریب  ہے واں شمار و عدد کے
کسی کو ہے کیفیتِ خاص حاصل
بَہ وقتِ معیّن ہوا کوئی داخل
کوئی لازمِ حال میں پُر اثر ہے
کہ تاثیر اُس کی کسی حال پر ہے
غرض ایک یہ کیا بڑا فائدہ ہے
کہ حکمِ الٰہی کا لانا بجا ہے
کیا حکم اللہ نے مومنوں کو
کہ تم سب سلام و صلاۃ اُن پہ بھیجو
فرشتے بھی مامور اس امر کے ہیں
کہ حضرت نبی پر وہ صلوات بھیجیں
روایت میں یہ اور مذکور آیا
درود ایک جو کوئی بندہ پڑھے گا
جنابِ الٰہی سے دس بار اُس پر
نزولِ دُرود ہو عنایات گستر
مدارج بھی دس اس بشر کے بڑھیں گے
اور اُس کے لیے نیکیاں دس لکھیں گے
مٹا دیں گے دس جرم و عصیاں کا نقشا
درود ایک کا اتنا درجہ ملے گا
کیا یہ بھی ارشاد خیرالورا نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے
کہ جو میرے اوپر درود ایک بھیجے
تو ستر درود اُس کو پہنچیں خدا سے
ہُوا اور بعض حدیثوں میں وارد
پڑھے جو درود آپ پر بارِ واحد
تو اُس کا ثواب اِس قدر ہے مقرر
کیے اُس نے دس بَردہ آزاد لے کر
لکھا اور یہ ہے ثواب اُس کے بدلے
کہ وہ بیس نوبت لڑا کافروں سے
روایت میں یہ اور وارد ہوا ہے
درودوں کا پڑھنا قبولِ دعا ہے
وجوبِ شفاعت بھی اُس کے لیے ہے
گواہی بھی حضرت کی اُس کے لیے ہے
بروزِ قیامت یہ درجہ ملے گا
قریبِ حبیبِ خدا وہ رہے گا
رسولِ خدا بابِ جنّت پہ جس دم
کھڑے ہوں گے آ کر وہ مخدومِ عالَم
تو وہ شخص بھی آپ کے ساتھ ہوگا
حمایت میں ان کی اُس اوقات ہوگا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہا ہے
تو اُس دن قریب آپ کے اُس کی جا ہے
نہ پہنچے کوئی دوسرا اُس مکاں پر
یہ پہنچے گا نزدیکِ حضرت جہاں پر
قیامت کا دن کیا قیامت کا دن  ہے
مصیبت، فضیحت، ندامت کا دن ہے
تو اُس دن بھی حضرت وکیل اُس کے ہوں گے
شفیعِ قیامت کفیل اُس کے ہوں گے
اُسے بخشوائیں گے حضرت ہمارے
کریں گے اُسے بحرِ غم سے کنارے
جو ترکِ فرائض کسی سے ہُوا ہے
مگر وہ دُرود آپ پر پڑھ رہا ہے
فواتِ فرائض کا بدلا وہی ہے
عوض ایسے جرم و خطا کا وہی ہے
جہاں حشر میں ہے مکاں صادقوں کا
وہاں پڑھنے والا دُرودں کا ہوگا
یہ ہے اور رحمت نصیبِ مصلّی
شفا اُس کو بیماریوں سے ملے گی
نہ ہوگی جگہ اُس کے دل میں خطر کو
نہ دیکھے گا وہ روئے رنج و ضرر کو
صفائی سے دل اُس کا پُر نور ہوگا
سبھی خیر و برکت سے معمور ہوگا
سبھی اُس کے کاموں میں آجائے برکت
وہ اولاد و اموال میں پائے برکت
نہ آئے کبھی اُس پہ فقر و فلاکت
رہے ہر بلا سے وہ بندہ سلامت
سبھوں کو دمِ واپسیں کا خطر ہے
اُس ہنگام سے کانپتا ہر بشر ہے
مگر اس صفت کا جو ہے  کوئی بندا
کہ ورد و درود اُس کا ٹھہرا وظیفہ
جو اُس کے لیے مرگ کا وقت آئے
خلاصی وہ سکرات سے جلد پائے
نہ دیکھے وہ  تلخی دمِ داپسیں کی
نہ سختی اُٹھائے گا وہ یومِ دیں کی
کیا یہ بھی ارشاد خیرُ الوٰری نے
حبیبِ خدا سرورِ انبیا نے
کہ جو کوئی انساں مِرا نام سُن کر
نہ لایا وہ
صَلِّ عَلٰی کو زباں پر
ہوا اُس کو رتبہ بخیلی کا حاصل
ہوا وہ بخیلوں میں فی الحال شامل
یہاں اور بھی خوف پیشِ نظر ہے
کہ اُس کے لیے بد دعا کا خطر ہے
ہوا اور مسطور یہ وصفِ کامل
کہ ہوں جسں جگہ پر مجالس، محافل
پڑھیں لوگ وہاں کچھ درودِ  تحیت
تو آتی ہے اہلِ محافل پہ رحمت
بیاں کیجے وصفِ دُرود اور کیا کیا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہے گا
قیامت میں اُس کو ثباتِ قدم ہے
مصیبت سے واں کی بری لاجَرم ہے
عبورِ صراط اس کو مشکل نہیں ہے
کہ نورِ درود اُس جگہ ہم قریں ہے
اگرچہ فضائل ہیں مرقوم اکثر
مگر ایک یہ وصف ہے سب سے بہتر
کہ جو کوئی کہتا ہے
صَلِّ اِلٰہِیْ
بروحِ جنابِ رسالت پناہی
تو اُس لفظ کے ساتھ نام اُس بشر کا
حضورِ مبارک میں ہے عرض ہوتا
حضورِ جنابِ نبیِّ معظّم
کہ ہے مرجعِ قدسیانِ مکرم
وہاں نام جس شخص کا پہنچتا ہے‎
تو اُس شخص کا واہ کیا مرتبہ ہے
اب اے دوستو، محبو، عزیزو!
درودِ مبارک کے رتبے کو سوچو!
کہ ایک ایک کا نام جس کے سبب سے
حضورِ مبارک میں معروض ہووے
تو دن رات تم یہ وظیفہ نہ چھوڑو
کبھی اِس عریضے سے مُنھ کو نہ موڑو
درود و سلام عرض کرتے رہو تم
مناسب تو یہ ہے کہ ہر دم کہو تم
اِلٰہِیْ فَصَّلِ وَ سَلِّمْ کَثِیْرًا
عَلٰی مَنْ اَتَانَا بَشِیْرًا نَذِیْرًا
خواصِ دُرود اور ہے یہ بھی آیا
کہ اس ورد کا جو کہ شاغل رہے گا
تو چہرہ مبارک رسولِ خدا کا
رہے دلِ میں اُس کے بہت جلوہ فرما
ملے گی اُسے خواب میں بھی زیارت
مشرف وہ ہوگا بہ دیدارِ حضرت
بروزِ جزا شافعِ روزِ محشر
رکھیں ہاتھ پر اُس کے دستِ مطہر
محبت فرشتے بھی اُس سے کریں گے
درود و تحیت کی ترغیب دیں گے
طلائی قلم خامۂ نقرئی سے
لکھیں گے درودِ مبارک  فرشتے
کریں گے خدا سے دعا عافیت کی
اور اُس کے لیے التجا مغفرت کی
ہوئی اور وارد عجائب روایت
کہ جو کوئی غائب بدرگاہِ حضرت
سلامِ و درود آپ پر بھیجتا ہے
تو عنوانِ تبلیغ اس طرح کا ہے
کہ وہ جو فرشتے اسی کام پر ہیں
غریبانِ آفت کے پیغامبر ہیں
بَہ درگاہِ اقدس بہ دربارِ اطہر
سلام اِس طرح عرض کرتے ہیں جا کر
کہ یعنی وہ کاؔفی ولد رحم علی کا
یہ ہدیہ ہے معروض و اِبلاغ کرتا

...

سلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی

صلو علیہ واٰلہ


سلامٌ  علیک اے حبیبِ الٰہی
سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی
سلامٌ  علیک اے مہِ برجِ رحمت
سلامٌ علیک اے درِ دُرجِ رحمت
سلامٌ علیک اے سنراوارِ تحسیں
مناقب تمہارا ہے طٰہٰ و یاسیں
سلامٌ علیک اے شہِ دین و دنیا
اگر تم نہ ہوتے، کوئی بھی نہ ہوتا
سلامٌ علیک اے خدا کے پیارے
قیامت میں ہم عاصیوں کے سہارے
سلامٌ علیک اے خبردارِ اُمّت
یہاں اور وہاں آپ غم خوارِ اُمّت
درود آپ پر اور سلام ِ خُدا ہو
قیامت تلک بے حد و انتہا ہو
سنا واہ کیسا یہ جاں بخش مژدہ
کہ مژدہ نہیں کوئی اُس سے زیادہ
کہ جو اُمتی سرورِ انبیا کا
درود اور تسلیم  ہے عرض کرتا
تو اُس 
محفلِ خاصِ نور و ضیا میں
حضورِ جنابِ رسولِ خدا میں
بیاں ہونا ہے اُس کے نام و نشاں کا
کیا جاتا ہے ذکر صلوات  خواں کا
سنو اور بھی، اے محبو! بشارت
کہ تھی جاوداں آپ کی خاص عادت
کہ  جو کوئی کرتا سلام اُن کو آ کے
جوابِ سلام اُس کو فی الفور دیتے
یہاں بھی جوابِ سلامِ مصلّی
یقیں ہے کہ آئے بنامِ مصلّی
عجب، دوستو! یہ تفاخر کی جا ہے
کہ جس کے لیے پا
سخِ مصطفیٰ ہے
اگر عمر بھر ہم سلام اُن پہ بھجیں
اور اُس کا جواب بھی اُن سے سن لیں

جواب ایک وہ کیا ہے وافی ہمیں ہے
سبھی دین و دنیا میں کافی ہمیں ہے
بر آئیں مطالب، مقاصد تمامی
طفیلِ عنایات خیرالانامی
سعادت کوئی اس سے برتر نہیں ہے
کرامت کوئی اس کی ہمسر نہیں ہے
یہ اَخلاقِ اعظم تھے خیرالورا کے
کہ کرتے سلام آپ لوگوں سے آگے
کوئی پیش دستی نہ کرتا نبی سے
مقدم تھے تسلیم میں  وہ سبھی سے
جوابِ سلامِ غریبانِ اُمّت
بھلا کس طرح اب نہ ہوگا عنایت
وہاں سے جواب ایک بھی، اے کفایت!
تمامی مہمات کو ہے کفایت
بیاں کرتے یوں واقفانِ خبر ہیں
کہ وہ جو
مَلَک کاتبِ خیر و شر ہیں
گناہانِ مردِ مصلّی کو بے شک
نہیں لکھتے ہیں وہ
مَلَک تین دن تک
دُرود اک عجب نسخۂ کیمیا ہے
کہ پڑھنے سے جس کے یہ کچھ فائدہ ہے
درود اور ہے یہ بھی برکت
چھڑاتا ہے یہ ورد غیبت کی عادت
درود اور جو شخص پڑھتا رہے گا
اُسے حشر میں عرش سائے میں لے گا
عجب اُس کی قسمت کہ روزِ قیامت
ملے عرش کا جس کو
ظلِّ کرامت
ترازو جو واں ہونے والی نصب ہے
وہ جائے خطر ہے، مقامِ تعب  ہے
وہاں بھی گراں ہوگا پلّہ  اُسی کا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہے گا
ہوئی اور  مذکور یہ بھی حقیقت
کہ روزِ قیامت بوقتِ عدالت
حضورِ خدائی زمین و زماں میں
کسی شخص کو لائے گی اُس مکاں میں
فرشتوں کو ہوئے گا یہ حکم صادر
کہ تم نے کیا ہے جو یہ شخص حاضر
اِدھر اِس کا ویوانِ اعمال لاؤ
سبھی دفتر حال اِس کا دکھاؤ
فرشتے جو ہوئیں گے اُس وقت حاضر
تو دیکھیں گے اُس میں سراسر کبائر
تو اُس دم وہ عاصی گُنہ گار بندہ
نہایت ہے معْموم و محزون ہوگا
رکھیں گے جو میزاں میں اعمال اُس کے
تو پلّہ جھکے گا بہت وزنِ بد سے
نِکوئی کا پلّہ بہت ہوگا ہلکا
کہ واں وزن ہوگا نہ حُسنِ عمل کا
لرزنے لگے گا وہ بدکار عاصی
جو دیکھے گا اپنی خطا و معاصی
فرشے وہاں آئیں گے مستعد ہو
کہ داخل کریں جلد دوزخ میں اُس کو
کہ نا گاہ اک مردِ زیبا شمائل
کہ ہو جس کے مُنھ سے خجل ماہِ کامل
تجلّی کا عالَم جبیں سے قدم تک
منوّر مکرّم وہ روئے مبارک
وہ عارض کی خوبی وہ گیسو کا عالَم
وہ
عینِ حیا چشم و ابرو کا عالَم
وہ حُسنِ تبسم لبوں میں ہُویدا
ہر انداز سے لاکھ اعجاز پیدا
وہ
صَلِّ عَلٰی جلوۂ قدّ و قامت
کہ جانِ قیامت پہ لائے قیامت
عیاں چال سے صاف رفتارِ رحمت
وہ ہر ہر قدم نورِ اَنوارِ رحمت
غرض آن کر وہ خراماں خراماں
کھڑے ہوں گے یک بار نزدیکِ میزاں

وہ ہلکا جو ہو اُس کے میزاں کا پلّہ
رکھیں اُس میں کاغذ کا چھوٹا سا پرچہ
وہیں نیک کاموں کا پلّہ گراں ہو
رہائی کا ساماں اُس کی عیاں ہو
جو دیکھے وہ اس مرحمت کا تماشا
رہے دنگ، حیران، حیرت زدہ سا
کہا کون آئے تھے یہ ذاتِ عالی
کہ مجھ کو حیاتِ ابد آج بخشی
فرشتے کہیں گے یہ خیر الورا سے
رسولِ خُدا خاتمِ انبیا سے
یہ پرچہ ترازو میں جو رکھ دیا ہے
کہ جس نے گراں سنگ پلّہ کیا ہے
یہ پرچہ وہی کاغذِ با صفا تھا
کہ تو نے درود ایک اِس میں لکھا تھا
لکھا عمر بھر میں فقط ایک نوبت
ملی جس کے بدلے رہائی کی دولت
غرض اُس کو جنّت میں داخل کریں گے
سبھی عیش و عشرت کا سامان دیں گے
ہوا تھا دُرودِ مبارک کا کاتب
ملے اُس
کے بدلے یہ عالی مَراتب
لکھا اور یہ وصفِ صلوات خواں ہے
کہ ہر طرح سے  اُس کو امن و اماں ہے
قیامت کی بھی تشنگی سے نڈر ہے
دہن اُس کا واں سیر و سیراب تر ہے
جو پائے گا وہ عشرت و
عیشِ جنّت
تو اُس کے لیے ہوگی حوروں کی کژت
بہت اُس کو عزت کا ساماں ملے گا
ملے گی اُسے ثروتِ دین و دنیا
حصولِ سعادت بھی اُس کے لیے ہے
درودِ ہدایت بھی اُس کے لیے ہے
ہدایت، صلاحیت و رشدِ وافی
سبھی کچھ شرف ہے نصیبِ مصلی
پسِ نامِ حق یہ جو صلِّ علٰی ہے
تو اُس کا بہت ہی بڑا فائدہ ہے
کہ ہے پہلے نامِ خداوندِ اکبر
درود اس سے پیچھے جنابِ نبی پر
سپاس الٰہی بھی ہے اس سے پیدا
 اس عنواں سے ہے شکر اُس کا ہویدا
درودوں کے الفاظ سے ہے نمایاں
کہ ہے رفعتِ شانِ حضرت کا خواہاں
سوال و طلب یہ جو ہے کبریا سے
وہ راضی ہے ایسے سوال و دعا سے
یہ بے شبہ ایسا سوال و طلب ہے
کہ ہر طرح سے موجِبِ حُبِ رب ہے
نبی کو بھی اُس شخص سے دوستی ہے
کہ جو واصفِ جاہ و شانِ نبی ہے
اگر کوئی صلوات کو کر کے شامل
ہوا حق تعالیٰ سے حاجت کا سائل
تو وہ بس صلاۃِ نبی کے سبب سے
مقاصد کو پائے گا درگاہِ رب سے
ہوا قابلِ
فضلِ خاصِ الٰہی
طفیلِ صلاۃِ رسالت پناہی
کیا جو وسیلہ رسولِ خدا کا
ہوا مستحق وہ قبولِ دعا کا
یہاں اور ہے ایک برہانِ اظہر
کہ صدرِ درودِ مبارک میں اکثر
مقدّم ہے اسِمِ جنابِ الٰہی
کہ ہے بس وہی لا
ئقِ بادشاہی
یہی
اَللّٰھُمَّ کہ ہے اسمِ ذاتی
ہے مِرآتِ اَسمائے وصفی صفاتی
ہوا ا
ہلِ عرفاں سے منقول ایسا
کہ جو شخص
اَللّٰھُمَّ ہے کہتا
تو گویا باَسمائے حسنیٰ تمامی
بیادِ خدا اُس نے کی خوش کلامی
ہوا اب تو لازم یہ سب ا
ہلِ دیں پر
کہ ہیں وہ فدا سیّد المرسلین پر
کہ کرتے رہیں اس عبادت کی کثرت
کہ ہے نام جس کا درودِ تحیت
نہ ہوں اس عمل میں وہ زنہار قاصر
کہ ہے اس میں واللہ کیا فیض حاضر
شمارِ عدد کچھ وہ مخصوص کر کے
درودِ مبارک رہیں روز پڑھتے
یہ ہدیہ کریں وہ بطرزِ دوامی
روانہ بدربارِ خیرالانامی
شمارِ ہزار اس جگہ معمد ہے
کہ اعداد میں معتبر مستند ہے
جو اتنا نہ ہو، پانسو بار ہو تو
کہ ہے رتبۂ اکتفا
اس عدد کو
ہوا اور وارد حدیثِ نبی میں
حدیثِ نبی ہاشمی ابطحی میں
کہ کاموں میں وہ کام خیرالعمل ہے
کہ موقوف ہونے سے وہ بے خلل ہے
اگرچہ عمل وہ بہت مختصر ہو
مگر دائماً کوئی کرتا ہو اُس کو
یہ تھوڑا مگر اُس بڑے سے بڑا ہے
کہ موقوف اکثر وہ ہوتا رہا ہے
سنو اور یہ قول ا
ہلِ ولا کا
محبانِ درگاہِ خیرالورا کا
کہ دس سو پڑھو تم درودِ مبارک
اگر کم پڑھو تو پڑھو پانچ سو تک
اگر پانچ سو بھی نہ ہوئے میسر
تو ہاں تین سو ہی پڑھو تم مقرر
اگر تین سو میں بھی ہوتے ہو قاصر
تو دو سو پڑھو جان و دل کر کے حاضر
پڑھو صبح کو سو تو پھر شام کو سو
ہوا اس طریقے سے ہر روز دو سو
ارادہ جو سونے کا ہنگامِ شب ہو
تو وردِ درودِ مبارک بَہ لب ہو
لکھا ہے کسی نے یہ کیا قولِ لائق
کہ جو کوئی مومن، بَہ اِخلاصِ صادق
ہوا جس عبادت پہ مصروفِ عادت
تو ہوتی ہے  اُس کو وہ عادت عبادت
غرض جس پہ عادی ہوا کوئی انساں
وہ کام اُس کے اوپر ہوا سہل وآساں
سنو اس سے بھی اور جو سہل تر ہے
شرف میں زیادہ ہے گو مختصر ہے
کہ لفظِ ہزار آ گیا ہے جہاں پر
تو فضلِ ہزار اس جگہ ہے میسر
بَہ تحقیق طالب نے کی جب کہ کثرت
اور اُس ورد کے اُس کو آئی حلاوت
مذاقِ دل و جاں ہوا اُس کا شیریں
ہوئی روح کو تقویت اور تسکیں
ہوئی اُس کے باطن کو وہ بات حاصل
کہ ہے جیسے مشہور یہ قولِ قائل
فذکر الحبیب للمریض طبیب
کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے
تعجب ہے کہ ایماں کی مدعی سے
کہ غافل رہے وہ درود نبی سے
درودِ مبارک عجب نورِ جاں ہے
کلیدِ درِ برکتِ بے کراں ہے
بدرگاہِ شاہنشہِ دین و دنیا
کسی نے کیا آ کے معروض ایسا
کہ میں وقت اپنے تمامی مقرر
کروں بہرِ صلواتِ خوانی مقرر
کیا اس کو ارشاد خیر الورا نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے
کہ گر اس عمل کا تو عامل ہوا ہے
سبھی حلِ مشکل کو اکتفا ہے
کہ یعنی درودِ مبارک کی کثرت
مہمات سے بخشتی ہے فراغت
یہاں اور  قولِ جنابِ علی﷜ ہے
کلامِ علی ابنِ عمِّ نبی ہے
سنو حاصلِ قولِ شیرِ خدا کا
علیِ ولی نائبِ مصطفیٰ کا
کہ جو کیفیت ہے بذکرِ الٰہی
نہ اس لطف کی دوسری چیز پائی
جو بالفرض اس ذکر سے مطلبِ دل
نہ ہوتا ہمیں جو کہ ہوتا ہے حاصل
تو اس کے عوض ہم تمامی عبادت
سمجھتے درودِ مبارک کی کثرت
غرض یہ کہ اس کا عوض اور بدلا
جو ہوتا درودِ مبارک ہے ہوتا
جو ہیں سالکانِ طریقِ ولایت
تو اُن کے لیے ہے یہ راہِ ہدایت
کہ  اس کو فتوحِ عظیمہ سمجھ کر
زباں کو کریں معدنِ قند و شکر
مشائخ نے کی کیا ہی تقریرِ کامل
کہ ہوئے میسر نہ گر پیرِ کامل
تو اس وقت وردِ درودِ مبارک
مریدوں کو پیرِ طریقت ہیں بے شک
یہ ہے واسطہ اس طرح کا مکمل
کہ ہے طالبِ حق کو اک شیخ حاصل
مشایخ سے منقول یہ بھی ہوا ہے
کہ رتبہ عجب
قُلْ ھُوَ اللہُ کا ہے
کہ اس کی قراءت سے جانا اَحَد کو
ہے پہچانا اللہ واحد صمد کو
ہوا اور یہ بھی مشائخ سے مروی
کہ تاثیرِ وردِ درود ایسی پائی
عجب اس کی کثرت نے جلوہ دکھایا
ہوئی باریابِ حضورِ معلا
ملی سرورِ انبیا کی حضوری
تمنّائے دل ہوگئی اس کی پوری
کہا ہے یہ شیخِ علی متقی نے
طبیبِ مریضانِ دردِ دلی نے
کہ صلوات کی جو کہ کثرت کرے گا
وہ حضرت نبی کی زیارت کرے گا
اُسے خواب میں ہو میسر یہ دولت
کہ ملتی ہے سوتے میں اکثر یہ دولت
وہ یا بخت بیدار ہو جس کسی کا
وہ بیداری میں چشم سے دیکھ لے گا
وہ حکمِ کبیر اک کتابِ سند ہے
وہاں ہے بہ تحقیق یہ مسئلہ طے
لکھا اور یہ عبدِ حق دہلوی نے
کہ وہ عبدِ وہاب جو متقی تھے
کیا ایسا ارشاد اس مقتدا نے
محبِّ جنابِ حبیبِ خدا نے
کہ وقتِ درود و سلام، اے عزیزو!
عجب بحر رحمت میں تم تیرتے ہو
کہا جب کہ
اللہم زباِں سے
تو دیکھو کہاں تک گئی اس بیاں سے
وہ دریائے رحمت جو اللہ کے ہیں
بحارِ کرم اس شہنشاہ کے ہیں
وہاں مثلِ غواص غوطہ لگائے
دُر و گوہرِ بے بہا ہاتھ آئے
کہا جب کہ حضرت پہ
صَلِّ اِلٰہِیْ
تو آئے بہ بحرِ رسالت پناہی
تمہیں لے گئی موجِ دریائے رحمت
لگے ہاتھ کیا کیا گہرہائے رحمت
کہا جب کہ
صَلِّ عَلٰٓی اٰلِ اَحْمَد
تو آئی بدریائی اَفضالِ احمد
شمولِ صحابہ کیا جب یہاں پر
ہوئی بحر لطف و کرم کی شناور
غرض ایسے ایسے بحارِ عطا سے
نہ جاؤ گے مایوس تشنہ، پیاسے
کہ یاں ہر طرف مرحمت موج زن ہے
وہ ہر موج کوہِ معاصی شکن ہے
یہ رحمت کا قلزم جہاں جوش مارے
اساسِ گنہ بیخ و بن سے اُکھاڑے
ہمیں تو یقیں بل کہ حق الیقیں ہے
کہ جو واصفِ سیّد المرسلیں ہے
نہ دیکھے گا وہ عسرتِ دین و دنیا
روا اُس کی ہو حاجتِ دین و دنیا
مشایخ جو ہیں شاذلی خانداں کے
مشرف اُنھوں نے کیا اس بیاں سے
کہ پیرِ طریقت نہ ہو گر میسّر
تو کیجے درودِ مبارک کو رہبر
یہ اس طرح کا مرشِدِ پُر ضیا ہے
کہ طالب کے باطن کو دیتا جِلا ہے
درودِ نبی کا یہ ہے فیضِ کامل
نظر جس سے آتی ہے عرفاں کی منزل
بلا واسطہ سرورِ انبیا سے
مشرف وہ کرتا ہے نورِ ہدا سے
فیوضِ جنابِ نبیِ مکرم
دکھاتا ہے وردِ درودِ معظّم
محیطِ کراماتِ دریائے عرفاں
کہ ہیں عبدِ قادر وہ محبوبِ سبحاں
جنابِ سیادت نسب غوثِ اعظم
سپہرِ ولایت کے قطبِ مکرّم
بہارِ ریاضِ امامِ حسن ہیں
وہ سرمستِ صہبائے جامِ حسن ہیں
سپہدارِ میدانِ شیرِ الٰہی
سزاوارِ ایوانِ مشکل کشائی
وہ ہیں قطبِ افراد دور زماں کے
وہ غوثِ معظّم ہیں فریاد خواں کے
جہاں بہرہ ور اُن کے دستِ کرم سے
قوی پشت ہیں اولیا اس قدم سے
طریقہ یہ ہے آپ کے خانداں کا
کہ وہ خانداں فخر ہے سب جہاں کا
کہ جس نے کیا وردِ صلوات حاصل
عجب اُس کو حاصل ہوا فضلِ کامل
کہ بے  واسطہ خاتمِ مرسلاں سے
مشرف ہوا نعمتِ جاوداں سے
سخاوت محدّث بڑا نامور ہے
کیا اُس نے اس نقل کو مشتہر ہے
سوا اُس کے بھی اور اہلِ خبر نے
لکھا راویانِ خجستہ سِیَر نے
کہ اک شخص تھا نام اُس کا محمد
وہ کرتا تھا اس کام میں کوشش و کد
معین درود اُس نے کچھ کر رکھا تھا
کہ ہنگامِ خفتن وہ تھا اُس کو پڑھتا
غرض ایک شب اُس نے پائی زیارت
جنابِ رسولِ خدا کی زیارت
وہ سوتے میں ناگاہ کیا دیکھتا ہے
کہ گھر میرا پُر نور روشن ہوا ہے
مِرے گھر میں ہیں آپ تشریف لائے
عجب شوکت و شانِ رحمت سے آئے
فروغ جمالِ مبارک سے اُس دم
ہوا میرے گھر میں تجلی کا عالَم
یہاں مدح خواں کب خموشی کی جا ہے
مقامِ سراپائے خیرالورا ہے

...

سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ

سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا
حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم
سنراوارِ تحسین و حمد و ثنا تھا
جبینِ مصفّا میں حُسنِ مصفّا
ہلال اور ماہِ تمام ایک جا ہیں
بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی
گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا
مدوّر جو کہتی ہیں چہرے عالَم
وہ تدویر سے بھی ورآء الورا تھا
وہ
صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا
کہ غازہ رخِ عالمِ نور کا تھا
چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت
فروغ ملاحت دمکتا ہوا تھا
مزیّن بَہ پیرایۂ اعتدالی

خوش اندام اندامِ خیرُ الورا تھا
وہ چشمِ مبارک کی روشن سیاہی
کہ سر چشمۂ نور جس کا گدا تھا
وہ دندان و لب غیرتِ وردِ ہر جاں
وہ حُسنِ تبسم کا عالَم نیا تھا
وہ بحر تبسم میں موجِ تبسم
کہ دریوزہ گر جس کا آبِ تقا تھا
وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو
تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا
کروں اُس شمائل کا کیا وصف، کاؔفی!
سراپا سبھی خوبیوں سے بھرا تھا
جنابِ نبی نے مبارک زباں سے
یہ فرمایا اُس مردِ صلوات خواں سے
کہ آ میرے نزدیک تو لا دہن کو
کہ دوں تیرے، اے شخص! بوسہ دہن کو
سبب اس کا یہ ہے کہ تو میرے اوپر
درود اور صلوات پڑھتا ہے اکثر

بیان ایسا کرتا ہے اپنا وہ راوی
کہ اُس وقت مجھ کو بہت شرم آئی
نہ دیکھا یہ رتبہ کچھ اپنے دہن کا
کہ لاؤں قریبِ دہانِ مصفّا
مجھے پاسِ آداب گو روکتا تھا
مگر ا
مرِ عالی بھی لانا بجا تھا
بجائے دہن اپنا رخسار لا کے
کیا سامنے سرورِ انبیا کے
مشرف ہوا بوسۂ شاہِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے
یکا یک اٹھا میں جو بیدار ہو کر
تو پایا سبھی اپنے گھر کو معطّر
مِرے گھر میں وہ نکہتِ جاں فزا  تھی
کہ واں نکہتِ مشک بھی کم بہا تھی
رہی آٹھ دن تک یہ حالت حقیقت
کہ آتی تھی رخسار سے میرے نکہت
مہکتا تھا گھر اور رخسار میرا
ہوا واہ کیا بخت بیدار میرا
محبو! ذرا سوچنے کی یہ جا ہے
درودِ مبارک کا کیا مرتبہ ہے
کیا شیخ احمد نے مذکور ایسا
کہ شبلی ابوبکر کے پاس آیا
ابوبکر جس کا ’’مجاہد‘‘ لقب تھا
جو شبلی کو آتا ہوا اُس نے دیکھا
اٹھا سرو قد بہرِ تعظیمِ شبلی
بجا لایا عنوانِ تکریمِ شبلی
بہت کر کے اُلفت گلے سے لگایا
نہایت محبّت سے ماتھے کو چوما
یہاں قولِ اقلیسی اس طرح کا ہے
بیاں اُس محقق نے ایسا کیا ہے
کہ میں نے ابوبکر سے التجا کی
کہ یا سیّدی تم نے یہ بات کیا کی
سمجھیے کہ بغداد میں جو بشر ہے
وہ شبلی کو مجنون کہتا مگر ہے
کہا کرتے ہو تم بھی دیوانہ اُس کو
سبب ایسی توقیر کا کچھ بتاؤ
ابوبکر بولے کہ شبلی کی عزت
کہ کی آج میں نے بانواعِ اُلفت
یہ اپنی خوشی سے محبت نہیں کی
تبیعت یہ ہے سیّد المرسلیں کی
سنو اس حقیقت کا مذکور ہے یوں
کہ   میں اس طرح خواب میں دیکھتا ہوں
کہ ہیں سرورِ انبیا جلوہ فرما
حضورِ مبارک میں شبلی بھی آیا
اٹھے دیکھ کر  اُس کو
ختمِ رسالت
ملاقات کی با کمالِ محبّت
میانِ دو چشم اس کے بوسہ دیا پھر
کیا عرض میں نے کہ کیا اس میں تھا سر
جواب ایسا مجھ کو دیا شاہ دیں نے
جنابِ نبی رحمت العالمیں نے
کہ شبلی کی یعنی یہ ٹھری ہے عادت
کہ پڑھ کر نماز اور ہوکر فراغت
پڑھا کرتا ہے یہ بطرز دوامی
لَقَدْ جَآءَ کُمْ کی یہ آیت تمامی:


لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ٭۫ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاہُوَؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪

 

اِس آیت کو پڑھ کر کے وہ انتہا تک
پڑھا کرتا ہے پھر درودِ مبارک
غرض یہ کہ اُس پر جو یہ مرحمت ہے
یہی واسطہ موجبِ مکرمت ہے
لکھا ہے اس احوال کو مجدِ دیں نے
کیا ہے بیاں شیخِ اہلِ یقیں نے
کہ تھا میرے ہم سائے میں کوئی رہتا
قضائے الٰہی سے وہ مر گیا تھا
غرض بعدِ رحلت پسِ چند مدّت
نظر آ گیا خواب میں ایک نوبت
سوال اُس سے میں نے کیا دیکھتے ہی
کہ کیا کیفیت قبر میں نے تو نے دیکھی
کہا اُس نے احوال کیا پوچھتے ہو
اگر پوچھتے ہو تو اب مجھ سے سن لو
کہ جس وقت آئے نکیر اور منکر
ہوا عرصۂ عافیت تنگ مجھ پر
عجب تنگیِ حال  نے مُنھ دکھایا
عجب طرح کا حال در پیش آیا
وہ دہشت وہ وحشت وہ تنگی کا عالم
بجز صورتِ غم نہ تھا کوئی ہمدم
اس اَحوال کو دیکھ کر میں نے جانا
نہیں دین، ایمان سے مجھ کو بہرا
کہ ناگاہ مرقد میں اک شخص آیا
مکرم مبارک بروئے مصفا
نکیر اور منکر کھڑے تھے اُدھر کو
مصیبت کے عالم میں تھا میں اِدھر کو
کہ آتے ہی وہ مردِ زیبا شمائل
ہوا مجھ میں اور اُن فرشتوں میں حائل
سکھایا جواب اُن فرشتوں کا مجھ کو
کہ دے تو جواب اس طرح مستقل ہو
غرض میں ہوا جب کہ ثابت بَہ حجت
ہوئی میرے اُوپر سے زائل مصیبت
ہوا واہ کیا موردِ لطفِ باری
ہوئی کیا ہی آسان مشکل ہماری
جو میں نے یہ احسان و اکرام دیکھا
تو اس شخص سے حال و احوال پوچھا
کہ تم کون ہو اور آئے  کہاں سے
کہ میں چھٹ گیا امتحاں کے مکاں سے
مجھے آپ نے ایسی حجت سکھائی
کہ دستِ ملائک سے پائی رہائی
یہ کہنے لگا مجھ سے وہ پاک پیکر
کہ صلوات کو تو جو پڑھتا تھا اکثر
تو وردِ درودِ نبی کے سبب سے
ملی ہے یہ صورت مجھے لطفِ رب سے
مِرا یہ تمامی وجودِ مصفا
نتیجہ ہے صلوات خوانی کا گویا
نہیں ہے ولادت مِری اُمّ و اب سے
بنا ہوں درودِ نبی کے سبب سے
تِرے ساتھ ہوں ہر جگہ، ہر مکاں پر
رہوں گا وہیں تو رہے گا جہاں پر
بَہ وقتِ مصیبت بَہ ہنگامِ شدّت
کروںگا تِری میں رفاقت معیت
کیا کعب احبار نے ذکر اِس کا
کہ موسیٰ نبی کو یہ پیغام آیا
کہ گر میرے مدّاح و حامد نہ ہوئیں
تو باراں کے قطرے فلک سے نہ برسیں
جماؤں زمیں پر نہ میں ایک دانہ
معطّل رکھوں اور سب کارخانہ
اگر تجھ کو اس بات کی ہے تمنّا
کہ میں تجھ سے نزدیک ہو جاؤں ایسا
کہ جیسے کلام و زباں متصل ہے
و یا کالبد اور جاں متصل ہے
و یا جس طرح چشم و نورِ بصر ہے
کہ ہر وقت اُنھیں قربتِ یک دگر ہے
کیا عرض موسیٰ نے، اے ربِّ عزت!
عطا مجھ کو ایسی ہی کیجے معیت
ہوا حکم گر یہ عطا مانگتا ہے
درودِ محمد سے ملتی عطا ہے
درود اُن کے اُوپر جو اکثر پڑھے گا
یہ سب نسبتِ قرب حاصل کرے گا
روایت ہوئی دوسری اور مروی
کہ موسیٰ کو پہنچا یہ حکمِ الٰہی
کہ گر تجھ کو منظور و مطلوب یہ ہو
کہ دیکھے نہ محشر کی تو تشنگی کو
تو پڑھیے محمد پہ صلوات اکثر
درودوں میں ہو صَرف اوقات اکثر
ابی بکر صدّیق سے ہے روایت
کہ کہتے ہیں وہ صدرِ بزمِ صداقت
کہ پڑھنا درود و تحیت نبی پر
گناہوں کو کرتا ہے نابود یک سَر
مٹاتا ہے جرم و گناہ اِس طرح سے
کہ آتش کو جس طرح پانی بہا دے
کہوں کیا سلامِ نبی کی فضیلت
کہ ثابت ہوئی اُس کی ایسی فضیلت
کہ ابلاغِ صلوات حضرت نبی پر
ہے بردے کے آزاد کرنے سے بہتر
کہوں وصف کیا حبِ خیرالورا کا
کہ ہیں حبِ احمد میں اوصاف کیا کیا
محبت نبی کی ہے کیا بے بدل شے
جہاد و غزا پر فضیلت اسے ہے
ہوا ہے یہ ثابت بیانِ انس سے
کہ جب دو مسلمان ہیں آپس میں ملتے
ملاقات کے وقت ہاتھوں کو اپنے
ملاتے ہیں وہ پنجۂ یک دگر سے
درود اور اُس وقت اپنے نبی پر
جو پڑھتے ہیں دونوں مسلماں برادر
جدا ہونے پاتے نہیں یک دگر سے
کہ جرم  و گناہ اُن کےجاتے ہیں بخشے
گناہانِ اوّل گناہانِ آخر
سبھی بخش دیتا ہے خلّاقِ اکبر
روایت یہ منقول ہے بوالحسن سے
جنابِ علی شاہِ خیبر شکن سے
کہ سلطانِ دیں، سرورِ انبیا نے
کیا ایسا ارشاد خیر الورا نے
کہ جو حجِ اسلام کرنے کو آئے
ادا کر کے حج پھر وہ غزْوے کو جائے
تو ہے ایسے غزْوے کا یہ اجرِ کامل
کہ ہے چار سو حج سے غزوہ مقابل
غرض سُن کے اس بات کو وہ جماعت
نہ تھی جن کو حج اور غزْوے کی طاقت
ہوئے دل شکستہ وہ بے طاقتی سے
سُنی جب فضیلت یہ حضرت نبی سے
وہیں حکم آیا خدائے جہاں کا
جنابِ شفیعِ قیامت کو ایسا
کہ جو کوئی بھیجے درودِ مبارک
تِرے اوپر اے میرے محبوب بے شک
وہ پہنچے گا ثواب و جزا کو
کیا چار سو بار گویا غزا کو
وہ ہر ایک غزْوے کا رتبہ ہے ایسا
عوض چار سو حج کا ہوتا ہے جیسا
کہا بو مظفر نے احوال اپنا
کہ میں اتفاقاً رہِ کعبہ بھولا
وہیں  سامنے میرے دو شخص آئے
مجھے جادۂ راستہ پر وہ لائے
کہا میں نے تم کون ہو او عزیزو
مجھے اپنے نام و نشاں تو بتاؤ
کہا ایک نے خضر ہے نام میرا
یہ الیاس ہے دوسرا ساتھ والا
پھر اُن سے کہا میں نے یہ بھی بتادو
کہ دیکھا ہے تم نے رسولِ خدا کو
بیاں خضر و الیاس نے کی حقیقت
کہ کی ہے رسولِ خدا کی زیارت
کیا عرض پھر میں نے، اے رہنماؤ!
قسم ربِّ عزت کی دیتا ہوں تم کو
کہ جو کچھ جنابِ نبی سے سنا ہے
بیاں کیجیے مجھ سے وہ حال کیا ہے
اُنہوں نے کہا ہم نے ایسا سُنا تھا
جناب نبی سے کہ جو یوں کہے گا

...

نفاق اُس سے ہو جائے گا یوں روانہ

صلی اللہ علی محمد

 

نفاق اُس سے ہو جائے گا یوں روانہ
کہ ہو پاک پانی سے اطرافِ خانہ
انھیں چار لفظوں کے یہ بھی فضائل
ہوئے ہیں بَہ اَسنادِ مذکور حاصل
کہ جو کوئی لائے گا اُن کو زباں پر
درِ رحمتِ حق کھلیں اس پہ ستّر
 کہا خضر و الیاس نے اور یہ بھی
کہ تقریبِ اوقات ایسی ہوئے تھی
کہ یعنی کوئی جانبِ شام سے تھا
حضورِ حبیبِ الٰہی میں آیا
کیا غرض اس نے کہ غم خوارِ اُمّت
مِرا باپ ہے ناتواں کم بصارت
اُسے ضعفِ پیرانہ سالی ہے لاحق
نہیں آپ تک آنے جانے کے لائق
تمہارا ہے پر
اُس کو شوقِ زیارت
دل و جاں سے ہے محوِ ذوقِ زیارت
کیا ایسا ارشاد محبوبِ رب نے
کہ تِرا پدر سات شب اُس کو پڑھ لے
پڑھے یعنی ان چار لفظوں کو ہر شب
تو بر آئے گا باپ کا تیرے مطلب
میسر اُسے خواب میں ہو زیارت
مناسب ہے اب اس خبر کی روایت
غرض اُس نے ارشادِ خیر البشر سے
کیا جا کے اظہار اپنے پدر ہے
کیا باپ نے اُس کے اس کا وظیفہ
ہوا واہ مقبول کیسا وظیفہ
مشرف ہوا وہ حضوری کا سائل
ہوا خواب میں اُس کو دیدار حاصل
ہوئی اور مروی یہاں یہ روایت
کہ راوی نے کی ہے بیاں یہ روایت
کہ یعنی اگر محفلوں میں تم آؤ
و یا اُٹھ کے تم واں سے باہر کو جاؤ
کہو اس طرح سے بوقتِ نشستن
پڑھو اور یہ ہی بَہ ہنگامِ رفتن

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

موکل کو بھیجے گا واں ربِّ اکبر
رہے گا فرشتہ موکل وہ تم پر
نہ غیبت کسی کی وہاں پر کرو تم
نہ غیبت تمہاری کریں اور مردم

سنو مومنو یہ عجائب روایت
لکھی دہلوی شیخ نے کیا حکایت
کہ دیکھا تھا کعبے میں میں نے کسی کو
بسر کر رہا تھا وہ یوں زندگی کو
کبھی تو طوافِ حرم تھا وہ کرتا
صفا اور مروہ میں بھی دوڑتا تھا

تمامی مواقف مناسک میں حج کے
وہ تھا گرم کوشش خلوصِ دلی سے
کہ اطرافِ کعبہ میں آتا جہاں تھا
رسولِ خدا پر وہ صلوات خواں تھا

کہا کہنے والے نے او مردِ ناداں
دعائیں پڑھا کرتے ہیں اور کچھ یاں
یہاں کے لیے اور آئی دعا ہے
بھلا کب یہ صلوات خوانی کی جا ہے
جواب اُس نے ایسا دیا معترض کو
کہ ہے تو یہی بات کہتا جو ہے تو
و لیکن کیا میں نے ہی عہدِ کامل
کہ صلوات میں کچھ کروں گا نہ شامل
پڑھے جاؤں گا یعنی صلوات اکثر
جنابِ نبی خاتم المرسلیں پر
سبب اس کا یہ اور ہے یہ حقیقت
کہ میرے پدر کی ہوئی جب کہ رحلت
پسِ مرگ میں نے جو مُنھ اُس کا دیکھا
بَہ
شکلِ حمار اُس کا چہرہ ہوا تھا
مجھے اِس طرح کا ہوا دیکھ کر غم
کہ میں سو گیا غم کی حالت میں اُس دم
مِرے بختِ بیدار نے کی جو یاری
حضوری ہوئی مجھ کو حضرت نبی کی
جو میں نے وہ پُر نور دیدار پایا
بَہ دامانِ خیرالورا ہاتھ لایا
شفاعت
شفیعِ قیامت کی چاہی
کہ ہو باپ پر میرے
فضلِ الٰہی
سبب ایسے جرم و خطا کا بھی پوچھا
کہ اُس کے لیے موجبِ مسخ کیا تھا
کیا مجھ کو حضرت نے ارشاد ایسا
کہ سود و رِبا باپ تھا تیرا کھاتا
خورندہ غرض سود کا جو کوئی ہے
جزا و سزا اُس بشر کی یہی ہے
مگر وقتِ خفتن بَہ وِردِ مقرر
درود ایک سو بار پڑھتا تھا مجھ پر
سو اس کے سبب سے بحالِ مصلّی
ہوئی ہے شفاعت مشفَّع نبی کی
زبانِ مبارک سے مژدہ یہ سن کے
ہوا جلد بیدار خوابِ گراں سے
جو مُنھ کھول کر باپ کا اپنے دیکھا
شبِ چار دَہ کا وہ گویا قمر تھا
غرض قبر میں بھی پس و د
فنِ میّت
سنی ہاتفِ غیب سے یہ بشارت
کہ یہ باپ تیرا جو صلوات خواں تھا
رسولِ خدا پر تحیت رساں تھا

یہ اورادِ  صلوات کا ہی سبب ہے
کہ یہ ہو گیا موردِ لطفِ رب ہے
کیا لکھنے والوں نے مرقوم ایسا
کہ اک مردِ صالح کسی شہر میں تھا
ہوئے تیس سو قرض دینار اُس پر
ہوا اس سبب سے وہ حیران مضطر
یہاں تک ہوا اس کے اوپر تقاضا
کہ دارالقضا تک یہ مقروض پہنچا
کہا اُس سے قاضی نے اے نیک طینت
تجھے میں مہینے کی دیتا ہوں مہلت
مہینے میں تو قرض اپنا ادا کر
یہ بارِ گراں رکھ نہ گردن کے اوپر
غرض مردِ صالح بدرگاہِ باری
ہوا گرم اظہار فریاد و زاری
وسیلہ درودِ مبارک کا کر کے
وہ خواہانِ مطلب تھا درگاہِ رب ہے
بَہ وِردِ درود اور آہ و فغاں میں
بسر اُس نے کیں بیس اور سات راتیں
شبِ بست و ہفتم وہ کیا دیکھتا ہے
کہ اُس سے کوئی شخص یوں کہہ رہا ہے
کہ ہے  تیرے اُوپر جو قرضِ نمایاں
کیا حق تعالیٰ نے یوں اُس کا ساماں
کہ وہ  جو وزیر ابنِ موسیٰ علی ہے
تِرے قرض کی اُس پہ تنخواہ کی ہے
علی ابنِ موسیٰ سے جا کے بیاں کر
کہ ہے تجھ کو حکمِ جنابِ پیمبر
کہ دے تیس سو مجھ کو دنیار اس دم
یہی حکم کرتے ہیں سردارِ عالَم
یہ کہتا ہے صالح کہ جب خواب دیکھا
تو بس خرّم و شادماں ہو کے چونکا
مگر دل میں میرے یہ تشویش آئی
کہ جو مجھ سے وہ شخص مانگے گواہی
تو پھر کس کو لاؤں گا بہرِصداقت
صداقت نہ ہوگی تو ہوگی ندامت
اِسی فکر میں دوسری رات آئی
ہوئی پھر رسولِ خدا تک رسائی
کیا اوّلِ شب تھا ارشاد جیسا
کیا دوسری رات بھی حکم ویسا
مجھے پھر ہوئی فکرِ راہِ صداقت
کہ ہے کون میرا گواہِ صداقت
کہوں کیا کہ پھر تیسری رات میں بھی
وہی حال پایا وہی خواب دیکھی
کیا پھر بھی حضرت نے ارشاد مجھ کو
گیا کیوں نہیں ابنِ موسیٰ تلک تو
کیا میں نے معروض سلطانِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے
کہ میں ہوں نشان و علامت کا خواہاں
کہ روئے صداقت ہو جس سے نمایاں
جنابِ حبیبِ خدا نے یہ سن کر
یہ فرمایا ہو آفریں تیرے اُوپر
کہ تو ہے نشان و علامت کا طالب
قبولِ سخن پر صداقت کا طالب
اگر تجھ سے پوچھے علامت بتا دے
ہماری طرف سے یہ اُس کو پتا دے
کہ اے ابنِ موسیٰ یہ ہے تیری عادت
کہ ہوکر نمازِ سحر سے فراغت
یہاں تک کہ خورشید نکلے فلک پر
درودِ مبارک تو اٹھتا ہے پڑھ کر
معیّن ہی کی ہے یہ تعداد  دو عدت
ہزار ایک پڑھتا ہے تو پانچ نوبت
اس اوراد کے وقت اے ابنِ موسیٰ
کلام و سخن تو نہیں  اور کرتا
یہ ہدیہ جو تو بھیجتاجاوداں ہے
بجز عالم الغیب سب سے نہاں ہے
و یا وہ خبردار ہیں اس عمل سے
کہ ہیں کاتبِ خیروشر وہ فرشتے
کہا مردِ صالح نے جس وقت میں نے
ملاقات کی ابنِ موسیٰ سے جا کے
سبھی حال و احوال جو خواب کا تھا
بَہ تفصیل و تشریح اُس کو سنایا
ہوا  شاد و خرّم وہ سن اس خبر کو
ہوا میرا مدّاح اور آفریں گو
اُسی وقت وہ نقد دینار لایا
کہ لے جلد کر تو ادا قرض اپنا
دیے اور بھی مجھ کو دینار اس نے
کہ ہم وزنِ دینارِ اوّل سے ہی تھے
کہا یہ جو ہوں تجھ کو دینار دیتا
یہ نفقہ وظیفہ سمجھ اپنے گھر کا
سہ بارہ دیے دینار مجھ کو
کہ دینارِ اوّل سے تھے ہم ترازو
کہ کر اس سے حاصل متاعِ تجارت
کہ ہو تجھ کو روزی سے یعنی فراغت
قسم اور مجھ کو یہ اُس نے دلائی
کہ ثابت رہے شیوۂ آشنائی
اگر تجھ کو حاجت کوئی پیش آئے
مناسب ہے تو مجھ کو آ کر سنائے
غرض وہ جو دینارِ اوّل دیے تھے
گیا پاس قاضی کے میں اُن کو لے کے
سبھی میں نے قصّہ بھی اپنا سنایا
پھر اس نے میرے مدّعی کو بلایا
کہا اس کے ذمّے جو ہے قرض تیرا
ادا میں کروں گا یہ ذمّہ ہے میرا
سنا جب کہ قاضی سے یہ مدّعی نے
کہا قرض میں بخشتا ہوں خوشی سے
وہ قاضی نے دینار جو لا رکھے تھے
کہا یہ خدا کی رضا کے لیے ہے
اب ان کو بھی او مردِ صالح اُٹھا لے
تجھے بخشتا ہوں، براہِ خدا، لے
بیاں کیجیے اور کیا فضائل
کہ ہوتے ہیں صلوات خوا نی سے حاصل
کوئی وقت ہو یا کوئی حال لاحق
ہر اوقات میں ہے یہ اوراد لائق
خصوصِ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا
درود اور تسلیم ابلاغ کرنا
و یا روزِ آدینہ حضرت نبی پر
سلام اور صلوات کرنا مقرر
فضائل میں ہے اور روزوں سے بہتر
مراتب میں افضل مدارج میں اکبر
شرافت  جو اس روز و شب کے لیے ہے
ثبوت اُس کا اخبار و آثار سے ہے
ورودِ روایت یہاں اور بھی ہیں
ثبوتِ کلامِ جنابِ نبی ہیں
کہ کہتے تھے یوں دین و دنیا کے سرور
کہ اس دن پڑھو مجھ پہ صلوات اکثر
کہ اس کو بَہ تخصیص لاتے ہیں مجھ تک
مِرے سامنے عرض کرتے ہیں بے شک
تو میں خیر کی تم کو دیتا دعا ہوں
گناہوں کی بھی مغفرت چاہتا ہوں
روایت میں ہے اور اس طرح آیا
کہ ارشاد ہے خاتمِ انبیا کا
کہ تم روزِ آدینہ، اے مومنو، جو
درود اور صلوات کو بھیجتے ہو
گزر اُس کو ہوتا ہے عرشِ بریں پر
نہیں عرش سے اُس کا مسکن فرو تر
فرشتے یہ آپس میں کہتے ہیں یارو
تم اس پڑھنے والے پہ صلوات بھیجو
ہوا یہ بھی ا
ہلِ فضائل سے مروی
فضیلت شبِ جمعہ کی یہ بیاں کی
کہ کیا ہی خصوصیت اس رات کی ہے
کہ اس رات تسلیم میں جو کوئی ہے
جواب اُس کو دیتے ہے سردارِ عالَم
بَہ
نفسِ نفیس و بَہ ذاتِ مکرّم
کیا یہ بھی مرقوم علمائے دیں نے
کتابِ حدیثِ شریفِ نبی سے
کہ حضرت نے ارشاد ایسا کیا ہے
کہ یہ وصف یعنی شبِ جمعہ کا ہے
کہ اس شب میں جو کوئی  بندہ خدا کا
درود ایک سو بار مجھ پر پڑھے گا
تو سو حاجتیں اُس کی ہوئیں گی آساں
مگر اُس کی تفصیل کا ہے یہ عنواں
کہ پائے گا ستّر وہ حاجاتِ دنیا
رہیں تیس باقی وہ ہیں بہرِ عقبیٰ
یہاں اور بھی ہے ورودِ روایت
کہ ہے روزِ آدینہ کی یہ فضیلت
کہ وردِ درود اس میں جو یوں کرے گا
ہزار ایک اس روز یعنی پڑھے گا
نہ باندھے گا دنیا سے وہ رختِ رحلت
نہ دیکھے گا جب تک مکان  اپنا جنّت
شب و روزِ آدینہ میں جو فضائل
کہ صلوات خوانی سے ہوتے ہیں حاصل
اِسی طرح فاضل دو شنبہ کی شب ہے
حصولِ مَراتب کا عالی سبب ہے
ہوئی اور یوں ایک وارد روایت
کہ ہے پنج شنبہ کو بھی یہ فضیلت
کہ جو کوئی سو بار صلوات گن کر
پڑھے گا جنابِ رسولِ خدا پر
کبھی وہ نہ محتاج و مفلوک ہوگا
نہ ہوگا وہ مفلوک و محتاج ہوگا
کدھر ہیں  وہ دیدارِ حضرت کے طالب
کہاں ہیں وہ مشتاقِ حُسنِ مَطالب
کہ سن لیں مِرے اِس کلام و بیاں کو
کریں اِس بیاں پر فدا اپنی جاں کو
کہ بہرِ حصول و وصولِ زیارت
لکھی ہے درودِ مبارک کی کثرت
نہیں کوئی مومن زمانے میں ایسا
کہ مشتاقِ دیدارِ حضرت نہ ہوگا
بس اب لازمِ وقت ہے مومنوں پر
درود اور صلوات کا ورد اکثر
ذرا اور بھی خاتمے پر، عزیزو!
خداوندِ اکبر کا ارشاد سن لو

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ

خدائے جہاں بادشاہِ جہاں ہے
پناہِ زمین و پناہِ زماں ہے
ملائک، کواکب کا، جنّ و بشر کا
وہ خلّاق و معبود و روزی رساں ہے
دیے اپنے محبوب کو وہ مَراتب
کہ تعریف سے جس کی قاصر زباں ہے
کہا مومنوں سے کہ یہ حکم سن لو
نبی پر خدا اُس کا صلوات خواں ہے
ملائک بھی ہیں اس کو تسلیم کرتے
وہ ایسا نبی میرا با عز و شاں ہے
سلام اور صلوات تم بھی تو بھیجو
یہ حکمِ خدا تم کو، اے مومناں ہے
بس اب، مومنو! کؔافیِ خستہ جاں کا
یہی حرزِ جاں اور وردِ زباں ہے
سلام و صلاۃ و درود و تحیت
نثارِ جنابِ شفیعِ قیامت

...

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید

حدیثِ سی وہفتم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

لَا تَسَبُّوْٓا اَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّ اَحَدُکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نِصْفَہٗ۔‘‘ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

ہے یہ قولِ ابو سعید سعید
وہ صحابی ہے مقتدا و رشید
یعنی کہتے تھے دو جہاں کے امام
میرے اَصحاب کو نہ دو دشنام
جو کوئی تم سے از برائے خدا
خرچ کر دے پہاڑ سونے کا
یعنی وہ شخص
مثلِ کوہِ اُحُد
زر لُٹائے گا بے عدد بے حد
کوہِ زر سے زیادہ تر ہوگا
نیم پیمانہ اُس صحابی کا
یارِ حضرت کی کیا فضیلت ہے
اُن کی صحبت کی کیا فضیلت ہے
جب کہ ہوں اُن سے مصطفیٰ راضی
اُن سے کیوں کر نہ ہو خدا راضی
میری اُلفت کے واسطے اُن کو
تم یہ چاہیے کہ دوست رکھو
بعد میرے نہ کیجیو ایسا
 کہ نشانہ بناؤ تیروں کا
یعنی اُن کو نہیں کرو دُشنام
 اور نہ لو اُن کا تم بدی سے نام
ہے تقاضا مِری محبّت کا
میرے یاروں کو تم کہو اچھا
میرے یاروں سے جس نے بغض رکھا
بغض گویا کہ اُس نے مجھے سے کیا
اور جس نے کہ اُن کو دی ایذا
وہ تو ایذا مجھی کو دی گویا
اور میرے تئیں ستائے جو
اُس نے ایذا دی میرے خالق کو
اور جس نے مجھے کیا ناراض
اُس نے اللہ کو رکھا ناراض
اُس پہ آئے گا عنقریب عذاب
حق تعالیٰ کرے گا سخت عتاب
آفریں تجھ کو مرحبا کاؔفی
وصفِ اَصحاب کہہ سنا کاؔفی!

 

غزل

بیاں کس مونھ سے ہو ہو جو رتبۂ اَصحابِ حضرت ہے
کہ اُن میں ہر بشر کے واسطے کیا کیا شرافت ہے
صحابی
کَالنُّجُوْم اُن کے مَناقب میں ہُوا وارد
کہ اُن تاروں سے روشن بُرجِ اَفلاکِ ہدایت ہے
نہیں اس سے زیادہ اور کوئی رتبۂ عالی
 کہ حاصل اُن کو
فیضِ صحبتِ ختمِ رسالت ہے
بجا ہے گر ملائک رشک کھائیں اُن کے رتبے پر
جَوارِ سیّدِ کونَین میں جن کی سُکونت ہے
مشرف جو ہُوئے ہیں دولتِ دیدارِ حضرت سے
تو اُن کے واسطے باغِ جناں گُلزارِ جنّت ہے
تمامی عدل تھے اور سب کے سب راہِ خدا پر تھے
یہی ہے مذہبِ حق، اعتقادِ ا
ہلِ سنّت ہے
امیر المومنیں صدّ
یقِ اکبر نائبِ حضرت
بَہ ایوانِ خلافت صدرِ ایوانِ صداقت ہے
پھر اُس کے بعد ہے فاروقِ اعظم جاہد و غازی
کہ انسانِ بصیرت مردمِ عَینِ عدالت ہے
مَناقب کیا کروں عثمانِ ذی النورین کا ظاہر
کہ عین و شرم و
تمکیں مخزنِ جود و سخاوت ہے
خدا کا شیر حیدر ابنِ
عمِ سروَرِ عالَم
وہ جس کے دستِ بالا دست میں
تیغِ شجاعت ہے
؟؟؟ عادت اَصحاب سلطان رسل باہم
؟؟؟ فتوت ہے مودّت ہے محبّت ہے
؟؟؟ دولتِ دیدار محبوبِ خدا جس کو
؟؟؟ طالع زہے مقسوم کیا وہ نیک  قسمت ہے
؟؟؟ راضی ہے اُن سے اور وہ راضی خدا سے ہیں
؟؟؟ رحمتِ عالَم کو اُن کے ساتھ شفقت ہے
ثنا خوانِ نبی ہُوں اور اَصحابِ نبی، کاؔفی!
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے مجھ کو اُلفت ہے

 

...

ہے انس نے بیاں کیا ایسا

حدیثِ سی ونہم از مشکوٰۃ ،بابِ مَناقبِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم

 

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ صَعِدَ اُحُدًا وَّ اَبُوْ بَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ فَرَجَفَ بِھِمْ فَضَرَبَہٗ بِرِجْلِہٖ فِقَالَ اثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَ صِدِّیْقٌ وَ شَھِیْدانِ۔‘‘ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)

 

ہے انس نے بیاں کیا ایسا
کہ فرازِ اُحُد رسولِ خدا
ایک دن اس طرح سے آ نکلے
کہ ابو بکر ساتھ تھے اُن کے
اور فاروق بھی تھے آپ کے ساتھ
اور عثمان
مجمعِ حسنات
الغرض جب گزار فرمایا
زیرِ پائے نبی پہاڑ ہلا
جنبشِ کوہ جب ہوئی پیدا
آپ نے کوہ پر قدم مارا
اور اس طرح سے کہا اُس کو
کہ بس اب اے پہاڑ ساکن ہو
یعنی تو جانتا نہیں تجھ پر
اِس گھڑی کو کر رہا ہے گزر
ایک تو ہے رسول حق تحقیق
دوسرے ساتھ اُس کے ہے صدّیق
اور یہ دو شہید ہیں ہمراہ
یعنی ہمرا
ہیِ رسول اللہ
یاں زبانِ نبی سے بالتحقیق
ہوئی ثابت صداقتِ صدّیق
اور ثابت ہُوئی شہادت بھی
اُس جگہ سے عمر کی، عثماں کی
جن کا رتبہ زبانِ حضرت سے
ہوئے ثابت بیانِ حضرت سے
چاہیے ہم کو دوستی اُن سے
دوستی، اُلفتِ دلی اُن سے

 

مَناقب

 

مجھے اُلفت ہے یارانِ نبی سے
ابو بکر و عمر، عثماں، علی سے
محبّت اُن کی ہے ایمان میرا
میں اُن کا مدح خواں ہوں جان و جی سے
رسول اللہ کے یہ جا نشیں ہیں
نبی راضی ہے اُن سے، یہ نبی سے
یہ ہیں چرخِ نبوّت کے ستارے
جہاں روشن ہے اِن کی روشنی سے
صحابہ کا ہُوا ثابت مَناقب
زبانِ دُر فشانِ احمدی سے
رسول اللہ کب راضی ہیں اُن سے
جو ہو ناراض اَحبابِ نبی سے
جو ہیں اَصحاب اَنصار و مہاجر
مجھے حُسنِ عقیدت ہے سبھی سے
صحابہ کا یہ کاؔفی مدح خواں ہے
خلوصِ جان و اخلاصِ دلی سے

 

...

یہ انس کا بیانِ شافی ہے

حدیثِ چہلم از مشکوٰۃ ،بابِ اثبات عذاب القبر

 

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ:

 ’’اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِهٖ وَتَوَلّٰى عَنْهُ اَصْحَابُهٗٓ إِنَّهٗ  لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، اَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَہٗ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُوْلُ: اَشْهَدُ اَنَّهٗ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُهٗ، فَيُقَالُ لَهٗ: اُنْظُرْ اِلٰى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ اَبْدَلَكَ اللہُ بِهٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا - وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهٗ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَآ اَدْرِیْ كُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَہٗ: لَا دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَّسْمَعُهَا مَنْ يَّلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ‘‘۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)

 

یہ انس کا بیانِ شافی ہے
واسطے مومنوں کے کافی ہے
یعنی خیرالوریٰ رسولِ کریم
ہم کو اس طرح کرتے تھے تعلیم
کہ بَہ تحقیق بندۂ معبود
گور اپنی میں جب کرے ہے وُرود
یار و اَحباب مُنھ پھراتے ہیں
یعنی اپنے گھروں کو جاتے ہیں
اُٹھتی ہے جو صدائے
کفشِ پا
دو فرشتے غرض وہاں آ کر
اور اُس کو لحد میں بٹھلا کر
اُس سے کرتے ہیں اس طرح کا سوال
اور واں پوچھتے ہیں یہ اَحوال
یعنی دنیا میں تو جو رہتا تھا
کہتا اِس شخص کے  لیے کیا تھا
لفظِ ’’
ھٰذَا الرَّجُل‘‘ سناتے ہیں
شکلِ حضرت بھی آ دکھاتے ہیں
اور کہتے ہیں اُس سے وہ انسان

تجھ سے اس بات کے ہیں ہم پُرسان
کہ
بحقِ نبی حبیبِ خدا
کیسا تو اعتقاد رکھتا تھا
 گر وہ مومن ہے، ا
ہلِ ایماں ہے
اس کو اُن کا جواب آساں ہے
ہیں محمد نبی رسول اللہ
یعنی دیتا ہوں میں گواہی صاف
یہ نبی ہیں، نہیں ہے کچھ اس میں خلاف
حق تعالیٰ کے ہیں یہ بندۂ خاص
ہیں محمد خلاصۂ اَشخاص
جب یہ اَوصافِ سیّدِ اَبرار
مردِ مومن کرے گا واں اظہار
حال یہ سن کے وہ مَلک دونوں
گور میں یوں کہیں گے مومن کو
دیکھ لے یہ مکان دوزخ کا
واسطے تیرے جو بنایا تھا
تو نے اس وقت خوب کام کیا
کہ رسولِ خدا کو پہچانا
دی گواہی بحالِ
ختمِ رُسُل
ہادیِ راہِ مقتدائے سبل
اس جگہ سے تِری جگہ بدلے
عوضِ نار، جا بہشت میں دے
پھر وہ مومن وہاں بحالِ سُرور
دیکھتا ہے وہ جائے آتش و نور
یعنی اپنا وہ نار کا ہے مقام
اور جنّت کا وہ مقامِ قیام
کہ طُفیلِ محمدِ عربی
اس کو حاصل ہُوئی وہ جائے خوشی
جب رسولِ خداﷺ کو پہچانا
اُس کو جنّت میں یہ مکان ملا
اُس نے دیکھا نہ پھر عذابِ گور
دور اُس سے رہا عقابِ گور
اور جو کافر و منافق ہو
گور میں جس گھڑی رکھیں اُس کو
مثلِ مومن سوال اُس سے کریں
؟؟؟ مَلک کشفِ حال اُس سے کریں
؟؟؟ جو غافل وہ حالِ حضرت سے
؟؟؟ خاتمِ رسالت سے
گور میں اس طرح سے جو کہتا
ان کو میں جانتا نہیں اصلا
میں تو واقف نہیں محمد سے
اور اَوصافِ حالِ احمد سے
مجھ کو نسبت نہیں ہے ان کے ساتھ
پوچھتے مجھ سے کیا ہو تم ہیہات
ان کے حق میں وہی تھا میرا کلام
کہتے تھے جس طرح سے اور عوام
پھر وہ کہتے ہیں اُس سے او انسان
نہ پڑھا تو نے کس لیے قرآن
یعنی پڑھتا اگر کلامِ خدا
جانتا مرتبہ محمدﷺ کا
حال سے اُن کے تو رہا غافل
آج ہے تیرے واسطے مشکل
کہہ کہ یہ بات وہ مَلک دونوں
ہاتھ میں لے کے گُرزِ آہن کو
اُس کے اُوپر وہ چھوڑ دیتے ہیں
پشت و پہلو کو توڑ دیتے ہیں
اُس پہ پڑتی ہے اِس طرح کی مار
کہ وہ مقہور کافرِ بد کار
شورِ بے اختیار کرتا ہے
بعد مرنے کے غم سے مرتا ہے
شور ہوتا ہے اس قدر برپا
کہ اُسے وحش و طیر ہے سنتا
جن و انسان پر نہیں سنتے
کہ وہ غافل ہے مطلقًا اس سے
جن و انسان بھی اگر سن لیں
سارے عیش و نشاط کو چھوڑیں
اے محبانِ صاحبِ
لَوْلَاک
اب یہ کہتا ہے
کاؔفیِ غم ناک
تم کو وہ دولتِ تمام ملے
آرزو جس کی انبیا نے کی
میرے کہنے کو تم ذرا مانو
رتبۂ د
ینِ احمدی جانو
بیش تر انبیا یہ کہتے تھے
اور اِس آرزو میں رہتے تھے
کاش! ہم ہوتے اُمّتِ احمد
دیکھتے
فیضِ صحبتِ احمد
مومنو! سوچ کر ذرا دیکھو
اُمّتِ
افضلِ بشر دیکھو
اپنے محسن نبی کی اُلفت میں
مستقل تم رہو شریعت میں
چاہتے ہو اگر رہائی کو
ساتھ حُبِّ مصطفائی کو
گور میں بھی یہ کام آئے گی
حشر میں حق سے بخشوائے گی
اور یہ التماس ہے میرا
تم سے او دوستانِ راہِ خدا
کہ یہ نظمِ چہل حدیث شریف
جو مرتّب ہُوئی بَہ فکرِ نحیف
شوق سے یعنی یہ کتاب لکھی
حُبِّ خیرالورا میں موزوں کی
نظم کا التزام ہے مشکل
بے تکلّف یہ کام ہے مشکل
کہیں لفظوں کا ترجمہ لایا
کہیں حاصل لیا ہے معنیٰ کا
میرے شعر وں میں جو خطا دیکھو
کلک اصلاح سے بنا دیجو
اب خدا ئے کریم سے ہے دعا
اِس دعا کو کرے قبولِ دعا

 

...

ہے جو اِس دل کا مُدَّعا، یا رب!

مُناجات

 

ہے جو اِس دل کا مُدَّعا، یا رب!
اپنی رحمت سے کر عطا، یا رب!
بَہ طُفیلِ نبی رسولِ کریم
ہو اِجابت مِری دعا، یا رب!
اب تو میں بے طرح تڑپتا ہوں
ہوں مِری مشکلیں روا، یا رب!
اور یہ بھی تیری جناب میں ہے
اب کفایت کی التجا، یا رب!
یعنی نظمِ نسیمِ جنّت میں
ہو گئی ہو جہاں خطا، یا رب!
اپنے پیارے حبیب کے صدقے
اُس خطا کو بھی بخشنا، یا رب!
مُونِسِ روزگارِ کاؔفی ہو
نعت و اَوصافِ مصطفیٰ، یا رب!

 

...

جس کے باعث کیا جہاں روشن

غزل در نعت

 

جس کے باعث کیا جہاں روشن
اور خورشیدِ آسماں روشن
مشرق و مغرب و جنوب و شمال
د
ینِ احمد سے ہر مکاں روشن
خوبی و حُسنِ مصطفائی سے
حُسن و خوبی کا گلستاں روشن
ہے فروغِ جمالِ احمد سے
قصرِ ہستی کا تاب داں روشن
شبِ اسرا میں اُن کے قدموں سے
ہو گیا گُلشنِ جِناں روشن
ہے وہ شرعِ منوّرِ نبوی
جس سے ہے بزمِ اِنس و جاں روشن
نعت و اَوصافِ مصطفیٰ میں رہے
یا الٰہی! مِری زباں روشن

 

...