قطعات
سمجھ ہی میں نہیں آتی چمن والوں کی دانائی
قطعہ
سمجھ ہی میں نہیں آتی چمن والوں کی دانائی
جہاں پر چاہئے ماتم وہاں بجتی ہے شہنائی
چمن پر یہ اثر تیرا پڑا رنگ خود آرائی
نہ کوئی دلکشی باقی نہ کوئی زیب و رعنائی
...
یہ مانا میرے عصیاں کی نہیں ہے کوئی حد شاہا
دیوانِ شفاعت
قطعہ نعتیہ
یہ مانا میرے عصیاں کی نہیں ہے کوئی حد شاہا
مجھے تسلیم اپنی ہر خطا بے رد و کد شاہا
مگر تم چاہو تو ہر جرم، رحمت سے بدل جائے
کہ دیوانِ شفاعت میں تو ہے ایسی بھی مدشاہا
دنیائے رنگ و بو میں جلوہ طراز ہوجا
سرکار کی گلی میں
قطعہ نعتیہ
دنیائے رنگ و بو میں جلوہ طراز ہوجا
یعنی غبارِ راہِ شاہِ حجاز ہوجا
سجدے جبیں کے وقفِ درگاہِ ناز کردے
سرکار کی گلی میں جانِ نیاز ہوجا
اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو
دامانِ مصطفیٰﷺ
قطعہ نعتیہ
اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو
جب موت کا وقت آئے اور روح خراماں ہو
دنیائے تصور میں دربار ترا دیکھوں
سر ہو ترے قدموں پر، سر پر ترا داماں ہو
بھروسہ ہے ہمیں تو شافعِ محشر کی رحمت کا
توبہ توبہ
قطعہ نعتیہ
بھروسہ ہے ہمیں تو شافعِ محشر کی رحمت کا
نہ ہوا ایماں جسے لَاتَقْنَطُوْ پر وہ کرے توبہ
امیدِ عفو و بخشش پر تو عصیاں کو خریدا تھا
تری رحمت سے میں مایوس ہوجاؤں ارے توبہ
چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں
کیا میں سہرا کہدوں
قطعہ
چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں
بدلیاں جھومتی آئیں میں وہ سہرا کہدوں
عرش تک نعتِ محمدﷺ کے ترانے گونجیں
حوریں فردوس میں گائیں میں وہ سہرا کہدوں
عطر میں ڈوبی ہوئی آئے نسیم سحری
پھول برسائیں ہوائیں میں وہ سہرا کہدوں
عندلیبانِ چمن بھی مترنم ہوں خلیؔل
قمریاں جھوم کے گائیں میں وہ سہرا کہدوں
جب عشق کا سودا مول لیا احباب سے رشتہ ٹوٹ گیا
دلِ خلیل
جب عشق کا سودا مول لیا احباب سے رشتہ ٹوٹ گیا
وہ دل کی تمنا خاک ہوئی، وہ دامن عشرت ٹوٹ گیا
دل بھی تو خلیؔل خستہ کا شیشے سے زیادہ نازک تھا
صدمے جو پڑے تو مَول گیا، نظروں سے گرا تو پھوٹ گیا
شورداریگر
انقلاب دہر کی تصویر کیا؟
خواب کیا ہے؟ خواب کی تعبیر کیا؟
زندگی شوریدگی کا نام ہے
پھر مالِ شورِ دار و گیر کیا؟
وفا و خطا
دو چار خطاؤں کو خاطر میں نہ لانا تھا
اور میری وفاؤں کو دل سے نہ بھلانا تھا
تم اپنی نگاہوں سے بجلی ہی گرادیتے
مجھکو تو نہ نظروں سے اس طرح گرانا تھا
عشق
بیتاب ہے دل بے چین جگر اور منہ کو کلیجا آتا ہے
ماحول پہ وحشت طاری ہے جی آج مرا گھبراتا ہے
کیا یہ بھی کوئی بیماری ہے یا عشق اسی کو کہتے ہیں
تسکین جو کوئی دیتا ہے دل اور بھی بیٹھا جاتا ہے
الوداع
(حالات سے متأثر ہوکر)
ہر لمحہ سکونِ دل ہو جہاں اک ایسی منزل ڈھونڈینگے
طوفاں نہ جہاں پر کوئی اٹھے ہم ایسا ساحل ڈھونڈینگے
برتا ہے خلیؔل اپنوں کو بہت اب غیروں کو اپنائینگے
جس بزم میں سب بیگانے ہوں ہم ایسی محفل ڈھونڈینگے
(۱۵ محرم الحرام ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء بروز پنجشنبہ)
ہے تختۂ گل، جبین عالی
جبینِ نُور
ہے تختۂ گل، جبین عالی
پر نُور، صحیفۂ جمالی
ہے مصحفِ قدرتِ الہٰی
آئینۂ حکمت الہٰی
ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں
ابروئے پاک
ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں
محراب سجود گاہِ جاں ہیں
عیدین کے دو ہلال انور
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَویٰ کے مظہر