کبھی رہتے وہ اس گھر میں
تلاطم ہے یہ کیسا آنسوئوں کا دیدۂ تر میں
یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں
...تلاطم ہے یہ کیسا آنسوئوں کا دیدۂ تر میں
یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں
...بوالہوس سُن سیم و زر کی بندگی اچھی نہیں
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں
...گر ہمیں ذوقِ طلب سا رہنما ملتا نہیں
راستہ ملتا نہیں اور مدعا ملتا نہیں
...عرش پر ہیں اُن کی ہر سو جلوہ گستر ایڑیاں
گہہ بہ شکل بدر ہیں گہہ مہر انور ایڑیاں
...تمہارے در پہ جو میں باریاب ہوجاؤں
قسم خدا کی شہا کامیاب ہو جاؤں
...اپنے در پہ جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو
میری بگڑی جو بناؤ تو بہت اچھا ہو
...درِ جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو
...وہ چھائی گھٹا بادہ بارِ مدینہ
پیئے جھوم کر جاں نثارِ مدینہ
...صبا یہ کیسی چلی آج دشت بطحا سے
امنگ شوق کی اٹھتی ہے قلب مردہ سے
...تختِ زریں نہ تاجِ شاہی ہے
کیا فقیرانہ بادشاہی ہے
...