سب مدینے چلیں
تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلے
...تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلے
...شمیم زلفِ نبی لا صبا مدینے سے
مریضِ ہجر کو لا کر سونگھا مدینے سے
...نظر پہ کسی کی نظر ہو رہی ہے
مری چشم کانِ گہر ہو رہی ہے
...جو ان کی طرف مری چشم التفات نہیں
کوئی یہ ان سے کہے چین ساری رات نہیں
...میری میت پہ یہ احباب کا ماتم کیا ہے
شور کیسا ہے یہ اور زاریٔ پیہم کیا ہے
...لبِ جاں بخش کا اے جاں مجھے صدقہ دیدو
مژدۂ عیشِ ابد جانِ مسیحا دے دو
...سوزِ نہاں اشک رواں آہ و فغاں دیتے ہیں
یوں محبت کا صلہ اہلِ جہاں دیتے ہیں
...وہی تبسم وہی ترنم وہی نزاکت وہی لطافت
وہی ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جن سے شوخی ٹپک رہی ہے
...تمہارے رخ کے جلووں سے منور ہوگیا عالم
مگر کیونکر گھٹا غم کی مرے دل سے نہیں چھٹتی
...منبع نورِ رسالت منظرِ اسلام ہے
درس گاہِ علم و سنت منظرِ اسلام ہے
...