منظومات  

چھائے غم کے بادل کالے

چھائے غم کے بادل کالےمیری خبر اے بدرِ دُجیٰ لے گرتا ہوں میں لغزشِ پا سےآ اے ہاتھ پکڑنے والے زُلف کا صدقہ تشنہ لبوں پربرسا مہر و کرم کے جھالے خاک مری پامال ہو کب تکنیچے نیچے دامن والے پھرتا ہوں میں مارا ماراپیارے اپنے دَر پہ بُلا لے کام کیے بے سوچے سمجھےراہ چلا بے دیکھے بھالے ناری دے کر خط غلامیتجھ سے لیں جنت کے قبالے تو ترے احساں میرے یاورہیں مرے مطلب تیرے حوالے تیرے صدقے تیرے قرباںمیرے آس بندھانے والے بگڑی بات کو تو ہی بنائےڈوبتی نا...

ساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں

ساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں کیوں نہیں دیتا ہمیں جامِ شرابِ ارغواں تشنہ کاموں پر ترس کس واسطے آتا نہیںکیوں نہیں سنتا ہے مے خواروں کی فریاد و فغاں جام کیوں اوندھے پڑے ہیں کیوں ہیں منہ شیشوں کے بندعقدۂ لاحل بنا ہے کیوں ہر اِک خُمِ مے کا دہاں کیوں صدا قلقل کی مینا سے نہیں ہوتی بلندکیوں اُداسی چھا رہی ہے کیوں ہوئی سونی دکاں کیوں ہے مہر خامشی منہ پر سبُو کے جلوہ ریزکچھ نہیں کھلتا مجھے کیسا بندھا ہے یہ سماں کس قدر اعضا شکن ہے یہ خم...

دنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیں

دنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیںجس کی مدد پہ حضرت فضل رسول ہیں منکر تری فضیلت و جاہ و جلال کی بے دیں ہیں یا حسود ہیں یا بوالفضول ہیں حاضر ہوئے ہیں مجلس عرسِ حضور میںکیا ہم پہ حق کے لطف ہیں فضل رسول ہیں کافی ہے خاک کرنے کو یک نالۂ رسادفتر اگرچہ نامۂ عصیاں کے طول ہیں خاکِ درِ حضور ہے یا ہے یہ کیمیایہ خارِ راہ ہیں کہ یہ جنت کے پھول ہیں ذوقِ نعت...

توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی

توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقینہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی زمانے نے ملائیں خاک میں کیفیتیں ساریبتا دو گر کسی شے میں رہا ہو کچھ مزا باقی نہ اب تاثیر مقناطیس حسن خوب رویاں میںنہ اب دل کش نگاہوں میں رہا دل کھینچنا باقی نہ جلوہ شاہد گل کا نہ غل فریادِ بلبل کانہ فضل جاں فزا باقی نہ باغِ دل کشا باقی نہ جوبن شوخیاں کرتا ہے اُونچے اُونچے سینوں پرنہ نیچی نیچی نظروں میں ہے اندازِ حیا باقی کہاں وہ قصر دل کش اور کہاں وہ دلربا جلسے...

اِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میں

اِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میںیہ وہ ہے آٹھ سو کم کر کے جو کچھ رہ گیا باقی مزارِ پیر نیچر سے بھی نکلے گی صدا پیہمچڑھا جاؤ گرہ میں ہو جو کچھ پیسا ٹکا باقی نئی ہمدردیاں ہیں لوٹ کر ایمان کی دولتنہ چھوڑا قوم میں افلاس عقبیٰ کے سوا باقی ظروفِ مے کدہ توڑے تھے چن کر محتسب نے سبالٰہی رہ گیا کس طرح یہ چکنا گھڑا باقی مریدوں پر جو پھیرا دست شفقت پیر نیچر نےنہ رکھا دونوں گالوں پر پتا بھی بال کا باقی مسلماں بن کے دھوکے دے رہا ہے اہل ایماں ...

نامیؔ خستہ نہ نالم بچہ رو

نامیؔ خستہ نہ نالم بچہ روکوہ افتاد دریغا افتاد دلم از فرقت استادم سوختازلبم چوں نہ برآید فریاد ہر کہ پُرسید زمن باعث غمگفتمش سوئے جناں رفت استاد سال فوتش ز جوابم جوئیددیگر امروز نمید ارم یاد ۱۳۲۶ھتمت٭ ...

گلریز بنا ہے شاخِ خامہ

گلریز بنا ہے شاخِ خامہ فردوس بنا ہوا ہے نامہ نازل ہیں وہ نور کے مضامیںیاد آتے ہیں طور کے مضامیں سینہ ہے تجلّیوں کا مسکنہے پیشِ نگاہ دشتِ ایمن توحید کے لطف پا رہا ہوںوحدت کے مزے اُڑا رہا ہوں دل ایک ہے دل کا مدعا ایکایماں ہے مرا کہ ہے خدا ایک وہ ایک نہیں جسے گنیں ہموہ ایک نہیں جو دو سے ہو کم دو ایک سے مل کے جو بنا ہووہ ایک کسی کا کب خدا ہو اَحْوَل ہے جو ایک کو کہے دواندھوں سے کہو سنبھل کے دیکھو اُس ایک نے دو جہاں بنائےاک ’کُنْ&ls...

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناںقابو میں نہیں دلِ پریشاں یاد آئی تجلیِ سرِ طورآنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور یا رب یہ کدھر سے چاند نکلااُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا کس چاند کی چاندنی کھِلی ہےیہ کس سے میری نظر ملی ہے ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کایا رب یہ کہاں خیال پہنچا آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میںبجلی سی چمک گئی نظر میں آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالمیاد آنے لگا ہے کس کا عالم اب میں دلِ مضطرب سنبھالوںیا دید کی حسرتیں نکالوں اللہ! یہ کس کی انجمن ہےدنیا م...

اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہے

اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہےمے خوار کے دل رُبا کہاں ہے بڑھ آئی ہیں لب تک آرزوئیںآنکھوں کو ہیں مَے کی جستجوئیں محتاج کو بھی کوئی پیالہداتا کرے تیرا بول بالا ہیں آج بڑھے ہوئے اِرادےلا منہ سے کوئی سبُو لگا دے سر میں ہیں خمار سے جو چکرپھرتا ہے نظر میں دَورِ ساغر دے مجھ کو وہ ساغرِ لبالببس جائیں مہک سے جان و قالب بُو زخم جگر کے دیں جو انگورہوں اہلِ زمانہ نشہ میں چُور کیف آنکھوں میں دل میں نور آئیںلہراتے ہوئے سُرور آئیں جوبن پہ اَداے بے خ...

تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلی

تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلیفرماتے ہیں اس میں یوں معالی جب زیب زماں ہوئے وہ سرورتھی ساٹھ برس کی عمر مادر یہ بات نہیں کسی پہ مخفییہ عمر ہے عمرِ نا اُمیدی اس اَمر سے ہم کو کیا عجب ہومولود کی شان کو تو دیکھو نومید کے درد کی دوا ہےمایوس دلوں کا آسرا ہے کیا کیجیے بیان دستگیریہے جوش پہ شانِ دستگیری گرتے ہوؤں کو کہیں سنبھالاڈوبے ہوؤں کو کہیں نکالا سب داغ الم مٹا دیے ہیںبیٹھے ہوئے دل اُٹھا دیے ہیں نومید دلوں کی ٹیک ہے وہامداد میں آج ایک ہے ...