ابو الحماد حضرت مفتی احمد میاں حافظ برکاتی  

ہر سمت تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے

منقبت

اقطاب کی زمیں ہے

ہر سمت تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
مارہرہ تیری قسمت اقطاب کی زمیں ہے
سب کیلئے ہی راحت اقطاب کی زمیں ہے
دنیا میں گویا جنت اقطاب کی زمیں ہے
ہر ذرہ ہے منور انوارِ قادری سے
یعنی حریفِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
حیرت سے دیکھتا ہے جھک کر فلک بھی تجھ کو
حاصل وہ تجھ کو رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ہیں شمس معرفت کے کُل اولیاء یہاں کے
ان سے ہی تیری زینت اقطاب کی زمیں ہے
پاتے ہیں فیض ہر دم، اس سرزمیں سے ہم سب
کیونکر نہ ہو عقیدت اقطاب کی زمیں ہے
فیضِ حسؔن﷜ یہاں ہے فیضِ حسیؔن﷜ بھی ہے
مولا علؔی﷜ کی جلوت اقطاب کی زمیں ہے
ہر سمت ہے بہارِ سرکارِ غوث اعظم﷜
ان کی بڑی عنایت اقطاب کی زمیں ہے
برکاتیو یہ سن لو پندرہ قطب یہاں ہیں
اور ہر قُطُبْ کی جنت اقطاب کی زمیں ہے
یہ ہیں جلیؔل امت، ’’در گہہ بڑی‘‘ ہے اِن کی
آتی ہے یاں پہ خلقت اقطاب کی زمیں ہے
شیخ جلاؔل بھی ہیں، شیخ اِبرَاہِیْمؔ بھی
اعلیٰ ہے ان کی سیرت، اقطاب کی زمیں ہے
اک چھت کے نیچے یکجا، ہیں قطبِ وقت ساتوں
پائے نہ کیوں یہ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ساتوں قطب کے مرکز بیشک ہیں شاہ برکؔت
ان سے ہی تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
قطبِ زمان ثانی آل محؔمدیﷺ ہیں
کیا خوب ان کی عظمت اقطاب کی زمیں ہے
حمزؔہ کی ذات سے ہیں روشن یہ ماہ پارے
کیسی عیاں ہے لمعت اقطاب کی زمیں ہے
اچھؔے میاں سے اچھی، ستھرےؔ میاں سے ستھری
بنتی ہے یاں پہ سیرت اقطاب کی زمیں ہے
آلِؔ رسولﷺ کا ہے یہ فیض جس سے ہر دم
گہوارۂ مسرت اقطاب کی زمیں ہے
کامل کیا رضاؔ کو پل میں گلے لگا کر
ایسی مثالِ نُدرت اقطاب کی زمیں ہے
نوریؔ میاں کے قرباں فیض و کرم سے ان کے
بستانِ علم و حکمت اقطاب کی زمیں ہے
شاہ جیؔ میاں کا قبّہ جو آٹھویں قطب ہیں
گویا نشانِ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ببّا حضوؔر بھی ہیں اقطاب کے جہاں میں
سید میاںؔ کی خلوت اقطاب کی زمیں ہے
اور یہ حسنؔ میاں ہیں جو گیارہویں سے چمکے
کیسی حسیں نُضارت اقطاب کی زمیں ہے
میم محمدی ہے مارہرہ تیری قسمت
گنبد نشانِ عظمت اقطاب کی زمیں ہے
میم مدینہ سے ہے مارہرہ ایسا روشن
گم ہے نشانِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
دیتے ہیں درسِ وحدت یاں پر امینؔ ملت
بے شک امین وحدت اقطاب کی زمیں ہے
ہاں اک قطب یہاں کے مفتی خلیؔل بھی ہیں
اور ان کی وجہ شہرت اقطاب کی زمیں ہے
حافظؔ زمانہ جس سے برکات پارہا ہے
وہ خانقاہِ برکت اقطاب کی زمیں ہے
(۴ صفر الخیر ۱۴۳۷؁ھ/ ۱۷ نومبر ۲۰۱۵؁ء)

...

رب کی جو ہیں عنایت نوری میاں وہی ہیں

منقبت

نوری میاں وہ ہی ہیں

رب کی جو ہیں عنایت نوری میاں وہی ہیں
جو فخر ہر کرامت نوری میاں وہی ہیں
جو معدن شرافت نوری میاں وہی ہیں
جو منبع ذکاوت نوری میاں وہی ہیں
ہر جام عشق و الفت اس در سے ہی ملا ہے
جو مرکز موَدّت نوری میاں وہی ہیں
ہم فیض نور احمد جس در سے پارہے ہیں
جو سب کی ہیں نضارت نوری میاں وہی ہیں
ہر دور پُر فتن میں ہر راہِ پُر خطر میں
جس سے ملی ہدایت نوری میاں وہی ہیں
برکت نگر میں دی تھی میرے رضا کو جس نے
فرزند کی بشارت نوری میاں وہی ہیں
ان کی ضیاء سے ہم نے پائی ہر اِک بصیرت
جو نور ہر بصارت نوری میاں وہی ہیں
جو غوث عارفاں ہیں، جو قطب سالکاں ہیں
جو رہبر سعادت نوری میاں وہی ہیں
حافظؔ تجھے ملا ہے جس در سے فیض مرشد
جو مرکز حمایت نوری میاں وہی ہیں
(۵ رمضان ۱۴۳۷ھ/ ۱۰ جون ۲۰۱۶؁ء) نزیل مدینہ منورہ

...

آپ کا عرفاں دوبالا سیدی احمد رضا﷫

منقبت

(سیدی احمد رضا﷫)

آپ کا عرفاں دوبالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کا فرمان والا سیدی احمد رضا﷫
آپ نے ہم کو سنبھالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کا ہے بول بالا سیدی احمد رضا﷫
ذہن و دل، فکر و نظر، روشن سے روشن ہوگئے
آپ نے کیسا اُجالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کے نوری قلم نے وہ سیاہی پھیر دی
دشمنوں کا منہ ہے کالا سیدی احمد رضا﷫
آپ کی علمی جلالت دشمنوں پہ چھا گئی
لگ گیا ہے منہ پہ تالا سیدی احمد رضا﷫
آپ نے عشق نبیﷺ کا وہ پڑھایا ہے سبق
ہوگیا ایماں ہمالا سیدی احمد رضا﷫
ہاں یہی چشم و چراغِ محفلِ برکات ہیں
اسطرح ہے ذات بالا، سیدی احمد رضا﷫
کل جہاں کہنے لگا ہے اعلیٰ حضرت﷫ آپ کو
یوں کیا آقا نے اعْلَا سیدی احمد رضا﷫
قادری ہوں، سہروردی، نقشبندی چشتیہ
ہر زباں پر قولِ بالا، سیدی احمد رضا﷫
ہے یہ فیضِ حضرت مفتی خلیل قادری
مل گیا ہے بابِ والا، سیدی احمد رضا﷫
ان کو حافؔظ کیا کہے جو شکل مرشد بن گئے
خود عیاں ہے شانِ والا سیدی احمدی رضا﷫
(۴ نومبر ۲۰۱۵؁ء/ ۲۱ محرم الحرام ۱۴۳۷؁ھ)

...

کیسے چمکے جگمگائے، اے شجاعت قادری

منقبت

بخدمت حضرت استاذی المکرم علامہ جسٹس مفتی سید شجاعت علی قادری﷫

کیسے چمکے جگمگائے، اے شجاعت قادری
پھول بن کر مسکرائے اے شجاعت قادری
آپ کے تلمیذ جو ہیں ہر طرف پھیلے ہوئے
ان سے عالم مسکرائے اے شجاعت قادری
ہاں گلاب ان میں بنے ہیں موتیا بھی یاسمیں
تم نے جو پودے لگائے اے شجاعت قادری
آپ کے مداح تھے جملہ مشائخ، اہل فن
آپ نے وہ رنگ جمائے اے شجاعت قادری
آپ کا درس قرآں بھی خوب ہی مشہور تھا
جس سے سب نے حصّے پائے اے شجاعت قادری
آپ کے فتوے، کتابیں، ترجمے، جو بھی پڑھے
اس کا سینا جگمگائے اے شجاعت قادری
آپ جب جسٹس رہے اعلیٰ شریعت کورٹ میں
کاش وہ دن لوٹ آئے اے شجاعت قادری
آپ منظورِ، نظر مفتی خلیل و کاظمی
جن سے عالم فیض پائے اے شجاعت قادری
آپ کی تلمیذیت پر فخر ہے حافؔظ کو وہ
سب سے ہی یہ داد پائے اے شجاعت قادری
(منقبت ایک گھنٹے میں پوری ہوئی)

۹ رجب المرجب ۱۴۳۸ھ ۷ اپریل ۲۰۱۷ء

...

جہاں میں عظمت تبلیغ کا مینار ہیں گویا

مبلغ اسلام

علامہ ابراہیم خوشتر صدیقی قادری برکاتی رضوی﷫ کی نذر

جہاں میں عظمت تبلیغ کا مینار ہیں گویا
مزاج اعلحضرت﷫ کا وہ ایک معیار ہیں گویا
ادب کے اور محبت کے قریں ہیں خوشتر رضوی
بہ فیض سید برکت وہ ایک گلزار ہیں گویا
فصاحت میں بلاغت میں خطابت میں بھی اے حافؔظ
مثال خوش کلامی میں وہ ایک معیار ہیں گویا
۱۵ جمادی الاخریٰ ۱۴۳۹ھ/ ۴ مارچ ۲۰۱۸ء

...

کرم کر اے خدا مجھ پر شہِ ابرارﷺ کے صدقے

مناجات

کرم کر اے خدا مجھ پر شہِ ابرارﷺ کے صدقے
خطائیں معاف کر میری شہ اختیارﷺ کے صدقے
رجب خالی گیا میرا نہ کی شعبان میں نیکی
عطا فرما دے رمضاں میں شب انوار کے صدقے
کریمی تیری پنہاں ہے ھُوَ فِی شَان میں مولا
خطا میری چھپا دے رب ان ہی اسرار کے صدقے
فقط تو غافِرُ الذنبِ فقط تو قابلُ التوبہ
کریما بخش دے مجھ کو صفت غفّار کے صدقے
کرم تو تیری سنت ہے سخاوت تیری عادت ہے
تو مجھ سے در گزر فرما میرے سرکار کے صدقے
درودوں سے سلاموں سے نبیﷺ کی نعت پڑھتا ہوں
خدایا بخش دے مجھ کو نبی مختارﷺ کے صدقے
یہ حافؔظ خاطی و عاصی نبیﷺ کے در پہ آیا ہے
خدایا پھر کرم فرما شہِ ابرار کے صدقے
(۱۳ رمضان ۱۴۳۸ھ، ۹ جون ۲۰۱۷ء)

...

اے حضرت حسّان یہ ساعت ہو مبارک

ہدیہ تبریک

ولدی الاعزّ محمد حسان رضا خاں برکاتی سَلّٰمہ، برساعت حاضری حرمین شریفین

اے حضرت حسّان یہ ساعت ہو مبارک
روضہ پہ حضوری کی سعادت ہو مبارک
پُر کیف سفرِ حج زیارت ہو مبارک
تم کو اَبَدِیْ کیف و مَسرّت  ہو مبارک
میخانۂ مکّہ کی وہ سرمست فضائیں
وہ بادۂ زم زم کی حلاوت ہو مبارک
آغوش میں رحمت کی وہ دن رات کا عالم
عَرفَات کے میدان کی وسعت ہو مبارک
وہ عطر میں ڈوبی ہوئی پر کیف ہوائیں
وہ وقت سحر بارش نگہت ہو مبارک
بوسے ہوں مبارک درِ والائے نبیﷺ کے
دربارِ شہنشاہِ رسالت ہو مبارک
ہر گام پہ بخشش کا وہ پیغام مسرت
ہر گام پہ سرکارﷺ کی رحمت ہو مبارک
جن کے لبِ رحمت پہ ہے منْ زَاْر کا مژدہ
اُس جانِ مسیحا کی شفاعت ہو مبارک
اب آپ دعا کیجئے احمدؔ کیلئے بھی
پھر مجھ کو عطا اور بھی ساعت ہو مبارک
ذوالحجہّ ۱۴۳۸؁ہجری ستمبر ۲۰۱۷؁ء

...

ایک کوہ غم دلِ حساں پہ ہے

تاریخ ہائے وفات

غنچۂ جنت، رباب بنت حسان رضا خاں بن مفتی احمد میاں حافؔظ البرکاتی جو صرف دو دن زندہ رہ کر، اپنے ماں  باپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گئیں۔ (حافؔظ البرکاتی)

ایک کوہ غم دلِ حساں پہ ہے
غم زدہ حافؔظ ہیں قلب و جان لکھ
فکر تھی تاریخ کی دل نے کہا
رحلتِ دختر حسان لکھ

۲۰۱۶ء

آہ رخصت ہوئیں جہاں سے رباب
فکر تاریخ میں تھا میں غلطاں
آئی کانوں میں یہ ندا حافؔظ
لکھ رحلتِ دختر حساں

۲۰۱۶ء

زیست کا حصہ ہے کتنا ایک پل میں کہہ گیا
ہائے وہ غنچہ کہ جو ادھ کھلا ہی رہ گیا


۱۴۳۷ھ

کیا بتاؤں آج حافؔظ غم سے ہیں اشکبار
لب پہ آہیں اور آنکھیں اشکبار
چین آئے گا کجا دل کو بھلا
دامن ہستی ہوا ہے تار تار
ایسے آئیں اور گئیں دنیا سے حساںؔ کی ربابؔ
سب کو حیرت ہے یہ حافؔظ معاملہ ہے کچھ عجب
عیسوی و ہجری کی تاریخ ہے یوں ساتھ ساتھ
پاک بازو نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب

۱۴۳۷ھ

۲۰۱۶ء

 

کچھ نہ آنے کی خبر تھی اور نہ  جانے کا پتہ
اُن کا آنا اور جانا بھی تھا حافؔظ کچھ عجب
آمد و رخصت کی اب تاریخ لکھو اس طرح
پاک باز و نیک نیت، خلد میں داخل ہیں اب
۱۴۳۷۵۷۹ھ ۲۰۱۶ء

...

ہے جو نعمان سجا تیری جبیں پر سہرا

سہرا

یہ تقریب شادی برادر انجنیئر نعمان رضا خاں برکاتی زید حبہ ولد مفتی احمد میاں برکاتی

(از: محمد حسّان رضا خاں نوری، برادر نوشاہ) اصلاح شدہ: مفتی احمد میاں حافؔظ البرکاتی

ہے جو نعمان سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہن کی ارمانِ برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب و معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
بھائی کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشامِ جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
گرچہ حسّان ہمیں کوئی بھی دعویٰ تو نہیں
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء)

...

صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم

سلام

صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
حبیب رب امام المرسلینﷺ ہو
تم ہی تو عرش کے مسند نشین ہو
تم ہی تو سرور دنیا و دیں ہو،
تم ہی تو رحمۃً للعلمینﷺ ہو
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
نبئ مصطفی حامد ممجدﷺ
خدا نے کردیا جن کو محمدﷺ
فرشتوں سے ہوئے ہیں وہ مؤید،
خدا کا حکم آیا ہے مؤکد
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
مثال مصطفیﷺ آیا کوئی کب،
عیاں تھا مرتبہ اسریٰ کی اس کی شب
سلامی دے رہے تھے انبیاء﷩ جب،
تھے اہل عرش بھی نغمہ سرا سب
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
تم ہی ہو راز دارِ سرّ وحدت،
تم ہی ہو مالکِ ہر جمع و کثرت
تم ہی تو ہو جہاں میں رب کی نعمت
دو عالم کے لئے ہو تم ہی رحمتﷺ
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
شہ ہر دوسر تشریف لائے،
حبیب کبریاﷺ تشریف لائے
امام الانبیاءﷺ تشریف لائے،
محمد مصطفیﷺ تشریف لائے
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
فضا پر کیف ہے نوری جھڑی ہے،
تبسم ریز ہر گل کی لڑی ہے
دوشالا ہر کلی اوڑھے کھڑی ہے
نبیﷺ تشریف لائے وہ گھڑی ہے
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
جہاں میں بول بالا ہو رہا ہے،
وَرَفَعْنَا ذِکْرَکَ کا شور سا ہے
عجب نوری سماں سا بندھ گیا ہے،
ہر اک اب جھوم کر یہ پڑھ رہا ہے
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
تمھارے در پہ سر میرا جھکا ہے
نظر کے سامنے عرش عُلیٰ ہے
زمیں سے آسماں تک نور سا ہے،
ہر اک جانب سے بس یہی صدا ہے
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
عجب کچھ نور سے پھیلے ہوئے ہیں،
حجابات نظر اُٹھے ہوئے ہیں
تھے جتنے فاصلے سمٹے ہوئے ہیں،
در آقاﷺ پہ ہم آہی گئے ہیں
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
امام اعظم﷜ کا صدقہ شاہِ امکاں،
بہ فیض سیدی احمد رضا خاں﷫
ہر اک کے دل کا پورا ہو یہ ارماں،
پہنچنا ہو درِ اقدس پہ آساں
صَلٰوۃٌ یَا رَسُوْلَ اللہْ عَلَیْکُم
سَلَامٌ یَا رَسوْلَ اللہْ عَلَیْکُمْ
شہ برکات حافؔظ پر نظر ہو،
بہ لطف غوث﷜، طیبہ کا سفر ہو
سنہری جالیوں پر جبکہ سر ہو،
زباں پر بس یہ، شاہ بحروبرﷺ ہو

...