ابو الحماد حضرت مفتی احمد میاں حافظ برکاتی  

کہیں بھی زندگی میں چین وہ پایا نہیں کرتے

رحمت کی کیاری

 

کہیں بھی زندگی میں چین وہ پایا نہیں کرتے
جو بدقسمت در محبوب پر جایا نہیں کرتے
چُنے لَاتَقْنَطُوْا کے گُل جو رحمت کی کیاری سے
ہمیشہ تر ہی رہتے ہیں یہ مرجھایا نہیں کرتے
مرے آقا سے جو مانگو عطا فرماہی دیتے ہیں
ذرا بھی میل اپنی  آنکھ  میں لایا نہیں کرتے
بڑھاؤ جھولیاں اپنی نبی سے مانگنے والو
کہ اس در کے جو سا ئل ہیں وہ شرمایا نہیں کرتے
تمہارے چاہنے والوں کا عالم ہی نرالا ہے
زمانے میں کسی سے خوف وہ کھایا نہیں کرتے
نہ آزردہ نہ آشفتہ ہو ہرگز اُمّتِ عاصی
کہ آقا لطف کرتے ہیں غضب ڈھایا نہیں کرتے
گنہگاران امت کو جو مژدہ مل گیا حاؔفظ
’’نبی شَافِعْ مُشَفَّعْ‘‘ ہیں تو گھبرایا نہیں کرتے
(نومبر۱۹۷۴ء)

...

جس کی کہیں مراد نہ پوری ہوا کرے

تجلئیِ ماہ مدینہ

(بموقع طرحی مشاعرہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)

جس کی کہیں مراد نہ پوری ہوا کرے
آئے در حبیب پہ وہ التجا کرے
دھندلا چکا ہے آیئنہ روئے کائنات
’’ماہ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے‘‘
دامِ فریبِ میں نفس میں ہے مُرغِ دل اسیر
مشکل کشائی ناخُنِ عُقْدہ کُشا کرے
معجز نمائیِ لبِ عِیْسٰی ‎بجا  ۔۔۔۔۔ مگر
جو آپ کا مریض ہو وہ کیوں دوا کرے
آنکھوں سے اشک روز بہیں تیری یاد میں
اے کاش روز جشن چراغاں ہوا کرے
ہے رحمت خدا کی نظر چشم ناز پر
رخ دیکھئے کدھر نگہ مصطفی ﷺ کرے
میں سوز عشق سرور کونین ﷺ کے نثار
ٹھنڈی نہ ہو یہ آتش رحمت خدا کرے
خم ہو جو ان کے در پہ تو پھر سر نہ اٹھ سکے
ہو ختم زندگی کا سفر یوں خدا کرے
حاؔفظ جو چاہتا ہے کوئی قرب کبریا
آٹھوں  پہر درود نبی ﷺ پر پڑھا کرے
(مطبوعہ: ماہنامہ ماہ طیبہ سیالکوٹ اکتوبر ۱۹۷۰ء)

...

تجھ کو قسم ہے زائر

ایک اردو نظم کی پشتو طرز سے متاثر ہوکر نعت کہی

 

تجھ کو قسم ہے زائر
آنا نہ ہاتھ خالی
طیبہ کو جانے والے
میں بھی ہوں اِک سوالی

کہنا مِرے آقا سے
مولائے مدینہ سے
اُس جانِ تمنا سے
یعنی مرے داتا سے
سرکار میرے والی
میں بھی ہوں اک سوالی

یہ کہنا وہاں جا کر
اک آہ ذرا بھر کر
اے آقا ذرا مجھ پر
للہ کرم بھی کر
آیا ہوں ہاتھ خالی
میں بھی ہوں اک سوالی

اب سندھ کے سینے میں
کیا رکھا ہے جینے میں
پہنچوں جو مدینے میں
شہروں کے نگینے میں
چوموں گا اُن کی جالی
میں بھی ہوں اِک سوالی

اللہ رے ترا گفتہ
اشعار کا گلدستہ
اے حاؔفظ آشفتہ
اب ہو جا کمر بستہ
تو نے مراد پالی
میں بھی ہوں اِک سوالی
(اکتوبر ۱۹۷۲ء)

...

آفتاب آگیا ماہتاب آگیا ‘ غمزدہ دل سکوں سے ٹھہر جائیں گے

صدقہ رسول ﷺ

 

آفتاب آگیا ماہتاب آگیا ‘ غمزدہ دل سکوں سے ٹھہر جائیں گے
گرمئی روز محشر سے گھبرائیں کیوں ‘ ان کے صدقے یہ لمحے گزر جائیں گے
اور کچھ دیر آہ و فغا ں کا ہے شور‘ تشنہ کامی کے لمحے گزر جائیں گے
میرے آقا کو کوثر پہ آنے تو دو ‘ جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
مثردہ جَاؤُکْ کا عاصیوں کو ملا ‘ اب تو سب کے مقدر سنور جائیں گے
اپنا سویا مقدر بھی جاگے گا اب ‘ طیبہ لَارَیْبْ شام وسحر جائیں گے
اے دو عالم کے آقا حبیبِ خداﷺ‘ میرے ماں باپ بھائی ہوں تم پر فدا
رَبِّ سَلِّمْ کا سایہ جو ہم پر رہے ‘ پل سے ہم وَجْد کرتے گزر جائیں گے
بحر عصیاں میں ہیں غرق عصیاں شعار‘ تابہ ساحل پہنچنے کی طاقت نہیں
رحمتِ مُصْطَفٰیٰ ﷺ گر اشارہ کرے  غم میں ڈوبے ہوئے سب ابھر جائیں گے
تھام لے ان کا دامن جو حاؔفظ یہاں‘ بگڑی اس کی بنے گی یہاں اور وہاں
بس درود وسلام ان پہ بھیجا کرو ‘ خود بخود کام بگڑے سنور جائیں گے
(ستمبر ۱۹۷۱ء)

...

خود کو عشق مصطفےٰ ﷺ میں جو مٹاتے جائیں گے

ایقان مومن

 

خود کو عشق مصطفےٰ ﷺ میں جو مٹاتے جائیں گے
وہ بہر لمحہ یقیناً چین پاتے جائیں گے
سَیّدِ کونین ﷺ سے جو لَوْ لگاتے جائیں گے
وہ خدا کو باخدا نزدیک پاتے جائیں گے
جو نبی ﷺ کے عشق میں جلتے ہیں یاں پروانہ وار
وہ بروز حشر ہر دم جگمگاتے جائیں گے
خود بخود چومیں گی آکر منزلیں ان کے قدم
 ان کے نقش پاپہ جو سر کو جھکاتے جائیں گے
نزع کے عالم میں جب جلوہ دکھائیں گے حضورﷺ
اپنی اپنی لحد میں ہم مسکراتے جائیں گے
ٹھنڈے ٹھنڈے میٹھے میٹھے بھر کے وہ کوثر کے جام
ہم تو پیتے جائیں گے اور وہ پلاتے جائیں گے
جب سر محشر سنیں گے رَبِّ سَلِّمْ کی صدا
ان کے عاصی نعت پڑھتے گنگناتے جائیں گے
کوئی بھی پُرساں نہ ہوگا حشر میں حاؔفظ مگر
میرے آقا عاصیوں کو بخشواتے جائیں گے

...

اللہ اللہ کتنا عالی مرتبت دربار ہے

نعت سَیُّداْلَابْرارﷺ

 

اللہ اللہ کتنا عالی مرتبت دربار ہے
ہر طرف انوار کی یلغار ہی یلغار ہے
سُینّو مُثردہ کہ ساماں مغفرت کا ہوگیا
شافع محشر نبی ﷺ ہیں اور خدا  غَفَّار ہے
 دل کھنچے جاتے ہیں اس آواز پر پروانہ وار
کتنی دلکش کیسی شیریں آپ کی گفتار ہے
حشر میں کل ڈھونڈ لیں گی اس کو حق کی رحمتیں
جس کے لب پر آج نعتِ سید الابرار ﷺ ہے
حاؔفظ اب تجھ پر نہ ہو کیوں غوثِ اعظم کی نظر
تو بھی اک ادنی غلامِ احمدِ مُختارﷺ ہے
(اگست ۱۹۷۱ء)

...

قرآن مکمل سیرت ہے یہ شان رسالت کیا کہیئے

!کیا کہییے

 

قرآن مکمل سیرت ہے یہ شان رسالت کیا کہیئے
فاران کی چوٹی سے چمکا خورشید ہدایت کیا کہیئے
رہتی ہے تخیّل میں میرے اک چاند سی صورت کیا کہیئے
دل سوئے مدینہ ہوتا ہے ہوتی ہے عبادت کیا کہیئے
وہ بھیک عطا کر دیتے ہیں سائل کو طلب سے بھی پہلے
اس پاس بلانے والی کی یہ رحمت و شفقت کیا کہیئے
اَدْنٰی سا اشارہ پاتے ہی جب چاند بھی ٹکڑے ہوتا ہے
اس چاند کی طاعت کیا کہیئے اس نور کی طاقت کیا کہیئے
ڈوبا ہوا سورج بھی پلٹا واللہ جو پایا حکمِ نبیﷺ
ہے فرش سے تابا عرش بریں آقا کی حکومت کیا کہیئے
سرقدموں پہ خم ہیں شاہوں کے کونین ﷺتصرف میں اس کے
جو ان کے گدا کو حاصل ہے وہ شان اور شوکت کیا کہیئے
گلزار محمد ﷺ کی ہیں کلی بو بکر ﷜ و عمر ﷜ عثمان﷜و علی﷜
پھیلے نہ زمانے میں کیسے ان کلیوں کی نکہت کیا کہیئے
کیا میری زباں کیا میرا قلم سب ان کا کرم ہےاے حاؔفظ
ہوں بزم سخن میں نغمہ سرا ‘ اللہ رے قسمت کیا کہیئے
(ماہ طیبہ ‘ جنوری ۱۹۷۰ء)

...

جانِ جاں تیری طلب میں جسے موت آئی ہے

کعبئہ نور ﷺ

 

جانِ جاں تیری طلب میں جسے موت آئی ہے
بخدا اس نے حیاتِ اَبَدِی پائی ہے
تیرے ہر ناز کی قرآں نے قسم کھائی ہے
تیرے رب کو تری اک اک ادا بھائی ہے
زُلف کب اس رخ روشن پر یہ لہرائی ہے
کعبئہِ نور پر رحمت کی گھٹا چھائی ہے
جستجو چاند کو تیری ‘ تیری سورج کو تلاش
ایک ہم کیا ہیں زمانہ تیرا شیدائی ہے
لوٹتا ہے کوئی قدموں پہ ‘ کوئی دامن پر
حشر میں آج گنہگاروں کی بن آئی ہے
یہ شگوفوں کا تبسم یہ ہنسی کلیوں کی
تیرے جلووں کی یہ سب انجمن آرائی ہے
میرے عصیاں مجھے لے آئے ہیں آقا کے حضورﷺ
ساتھیو! کتنی مبارک مری رسوائی ہے
چمنِ دل کا ہر اک پھول ہے فردوس بکف
تیری یاد آئی ہے یا آج بہار آئی ہے
باتوں باتوں میں چھڑی ہے تیری زلف کی بات
دیکھتے دیکھتے رحمت کی گھٹا چھائی ہے
آپﷺ کی یاد ہے ‘ آنسو ہیں ‘ شب ہجراں میں
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے
میں نے سر رکھ ہی دیا سنگ در اقدس پر
لوگ کہتے رہے دیوانہ ہے سودائی ہے
آج محشر میں ہے کس اوج پر حاؔفظ کا نصیب
دامن سرور عالم میں جگہ پائی ہے

(۲۳ صفر ۱۳۹۴ھ ‘ اکتوبر ۱۹۷۴ء برمشاعرہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)

...

ادب سے یاں چلے آؤ یہ آقا کی عدالت ہے

دربارِرسول ﷺ

 

ادب سے یاں چلے آؤ یہ آقا کی عدالت ہے
مرادیں مانگ لو اپنی کہ ’’جَاُؤکَ‘‘ بشارت ہے
شہِ لَوْلَاک حاضر اور شہِ لَوْلَاک ناظر ہیں
یہی اول یہی آخر ہیں خَتْمْ ان پہ رسالت ہے
نسیم صُبْح حاضر ہو اگر سرکار کے در پر
تو کہنا ہم غلاموں کو تمنائے زیارت ہے
خدا کے واسطے آقا ﷺ غلاموں کو اجازت ہو
دیار پاک میں پہنچیں تو دنیا کی نہ حاجت ہے
حریم ناز میں پہنچیں صدا روضے سے یوں آئے
مبارک تجھ کو آنا ہو ‘ بشارت ہی بشارت ہے
طلب کرنے سے پہلے ہی سوالی جھولی بھرتا ہے
یہ آقا کی ہی رحمت ہے یہ ان کی ہی سخاوت ہے
سر محشر اک ہنگامہ بپا ہے نفسی نفسی کا
تسلی دے کوئی ہم کو کسی میں یہ نہ طاقت ہے
مرے آقا ﷺ میرے مولاﷺہیں مالک روز محشر کے
فقط ان کی حکومت ہے فقط ان کی ولایت ہے
نہ آشفتہ نہ آزردہ ہو ہرگز امتِ عاصی
کہ وا تیرے لئے محشر میں آغوش شفاعت ہے
درود پاک پڑھ لینا کہ نجدی خاک ہو جائے
عبادت اس طرح کرنا کہ اس میں ہی حلاوت ہے
چپک کر ہونٹ رہ جاتے ہیں جب بھی نام لیتے ہیں
وہ شیرینی تمہارے نام میں ہے اور حلاوت ہے
لگی ہیں رات دن نظریں سوئے طیبہ مری حاؔفظ
پیام مصطفی ﷺ آئے تو کیا شی یہ مسافت ہے
(جولائی ۱۹۷۱ء)

...

نبیﷺ کی یاد میں مرنا نویدِ زندگانی ہے

قلزم رحمت

 

نبیﷺ کی یاد میں مرنا نویدِ زندگانی ہے
پیام مرگ میں پہناں حیاتِ جاودانی ہے
عرب میں آمدِ فصلِ بہارِ زندگانی ہے
نیا جوبن ہے کلیوں پر تو پھولوں پر جوانی ہے
شب فُرْقَتْ خُنَکْ کس درجہ اشکوں کی روانی ہے
کہ اک اک بوند گویا قُلزم رحمت کا پانی ہے
سراپا دیکھ کر ہم نے تو اتنی بات جانی ہے
کمال دست قدرت میں جمال مَنَْرَاَنِیْ ہے
اچانک زندگی کا غنچہ غنچہ مسکرا اُٹّھا
گلستاں میں یہ کس کی آمد آمد کی نشانی ہے
گہر ھائے شفاعت ہیں گناہگاروں کے دامن میں
سحاب لطف و احساں کی یہ کیسی دُرْفشانی ہے
ملے ہوں گے نہ جانے اس کو کتنے قیمتی موتی
تری گلیوں کی جس نے اے شہہ دیں خاک چھانی ہے
خوشا ان کی حضوری ان کی فرقت اے زہے قسمت
کرم وہ بھی ہے ان کا اور یہ بھی مہربانی ہے
ملی حاؔفظ کو شرکت کی سعادت پاک محفل میں
کہ  جشن عید میلاد النبی ﷺ میں نعت خوانی ہے
ملی حاؔفظ کو دستار فضیلت نیک ساعت میں
کہ جشن عرس بھی ہے اور بزم نعت خوانی ہے

(بموقع دستار بندی جلسہ دستار فضیلت دار العلوم امجدیہ کراچی مارچ ۱۹۷۴ء)

...