ابو الحماد حضرت مفتی احمد میاں حافظ برکاتی  

ترک کیجے ممبری اور خاک اسپر ڈالئے

استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی الازھری﷜کی خدمت میں

کرسی

ترک کیجے ممبری اور خاک اسپر ڈالئے
اس میں دیمک لگ چکی ہے اب نہیں کرسی میں دم
آپ کی مسند عظیم الشان ہے ’’شیخ حدیث‘‘
چھوڑئیے کرسی کو ‘ ہوگی آپ کی عزت نہ کم
(جنوری ۱۹۷۷ء)

...

بے ربط ہے کلام شکستہ حروف ہیں

ہدیہ تشکر

 

بے ربط ہے کلام شکستہ حروف ہیں
تحریر لکھ رہا ہوں یہ اپنے قلم سے خود
یارو ہوا نہ تم کو ’’سفر خرچ‘‘ بھی نصیب
بے ساختہ لکھا ہے ‘ یہ میں نے قلم سے خود

(بزم امجدی کی دعوت پر کراچی حاضری ہوئی (جنوری ۱۹۷۷ء)

...

ہزاروں انبیاء ﷩ آئے رسول و مجتبی بن کر

نعت سیدالمرسلین

اس نعت میں اسماء رسول اکرمﷺ ۱۳۰ سے زیادہ مذکور ہیں

ہزاروں انبیاء ﷩ آئے رسول و مجتبی بن کر
محمد مصطفیﷺ آئے امام و مقتدؔا بن کر
رسول مرسلاں آئے حبیؔب کبریا بن کر
وہ احمؔد مجتبیؔﷺ آئے شفاؔ بن کر دوا بن کر
وہ آئے ہیں خدا واصف ہے قرآن میں جن کا
حمیؔد و حامؔد و محمودؔ، شاہد مرتضؔیﷺ بن کر
خدا کا ہے کرم دیکھو کہ آئے رحمتِ عالمﷺ
رشید و ھادیؔ و داعؔی منیر و مقتدؔاﷺ بن کر
مُطاع کل جہاں ہیں جو امان ہر دو عالم ہیں
وہ فخرؔ انبیاء آئے اماؔم الانبیاءﷺ بن کر
حبیؔب اللہ، نجؔی اللہ،  صفؔی اللہ مبشرّؔ ہیں
ولؔی و شاہؔد، و مشہوؔد سب کے منتہیﷺ بن کر
یہ فاتح ہیں یہ حاشؔر ہیں یہ قاسؔم ہیں یہ خاتؔم ہیں
ان ہی پہ ختم رحمت ہے دوا بن کر دعا بن کر
تہامؔی ہاشمؔی امؔی قوؔی و محترمؔ یہ ہیں
رسولؔ ابطحیﷺ آئے زمانے میں سخا بن کر
یہی امیؔ، یہی منجیؔ یہی عاقؔب یہی طٰہٰؔ
شکورؔ و مقتصؔد یہ ہیں جو آئے ہیں ھُدٰیؔ بن کر
نبؔی و آمؔر و ناھؔی، شفیع و صادقؔ و مومن
وہ ﷺ آئے ناصرؔ و منصور محبوبؔ خداﷺ بن کر
مصدّق یہ ہیں طیّبؔ یہ مطیعؔ و اکمؔل و اَولیٰؔ
رحیمؔ و مدّثؔر بن کر یہ آئے ہیں شناؔ بن کر
یہ اول ہیں یہ آخر ہیں یہی ظاہر یہی باطن
یہی حٰؔم و یٰسیںؔﷺ ہیں جو آئے انتہا بن کر
یہ عبداللہ کلیم اللہ یہی مامونؔ و سیّؔد ہیں
شھیرؔ و حافظؔ و اکرمؔﷺ یہ آئے ہیں شہا بن کر
عزیزؔ بھی رؤفٌ بھی بشیرؔ بھی نذیرٌﷺ بھی
قریبؔ امت کے آئے ہیں خدا کی وہ رضا بن کر
حریص مومناں یہ ہیں امیؔن و حقؔ مبیں یہ ہیں
سہاراؔ ہیں ہر اک کا یہ غریبوںؔ کا عصاؔ بن کر
رسول ملحمہ بھی ہیں رسول الراحمۃؔ بھی ہیں
ہر اک ذرے کو چمکا یا سراج کبریاﷺ بن کر
یہ قرشیؔ بھی نزاریؔ بھی حجازیؔ بھی مطھؔر بھی
ہمیشہ بھر کے دیتے ہیں زمانے کو عطاؔ بن کر
نبؔی رحمتِ کاملؔ شفیعؔ امّت و صادقؔ
ہر اک خوبی نمایاں ہے خلیؔل ارتضیٰؔ بن کر
نبیؔ توبہ ان کی ذات ہے طاسیںؔ بھی مکرّؔم بھی
ہوا محشر میں جلوہ عام جب آئے ذی لِوؔا بن کر
حبیبٌؔ یہ کریمٌ یہ متینٌؔ یہ حکیمٌؔ یہ
مجیبؔ کل جہاں یہ ہیں جو آئے ہیں ولؔا بن کر
مضر سے آپ کو نسبت یتیمِؔ منفردؔ یہ ہیں
یہی مصباحِ مرسل ہیں منوِّرؔ ہیں ضیاؔ بن کر
مزمّلؔ یہ ہیں اے حافؔظ خدا بھی جن پہ شیدا ہے
لئے ہیں اپنی چادر میں ہر عاصی کو قبَاؔ بن کر
(۲۴ صفر الخیر ۱۴۳۸ھ ۲۵ نومبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ)

...

حبیبِ کُلﷺ جہاں تم ہو دلیل کُنْ فَکاں تم ہو

نعت شریف

دلیل کُنْ فکاں تم ہو

حبیبِ کُلﷺ جہاں تم ہو دلیل کُنْ فَکاں تم ہو
خلیل بزم وحدت ہو خدا کے رازداں تم ہو
تم ہی تو جان رحمت ہو تمہیں شانِ نبوتﷺ ہو
امام المرسلیںﷺ تم ہو ہر اک عالَم کی جاں تم ہو
مکین گنبد خضراء تمہارا وصف ہے ورنہ
حقیقت میں اگر دیکھیں مکین کُل جہاں تم ہو
قرآں کے تیس پارے بھی فقط تم ہی پہ اترے ہیں
تمہاری ذات ہے جامع ہر اک شی کا بیاں تم ہو
ہوئی ہے چاک تم سے ہی رِدائے ظُلمتِ عالم
منور ہے جہاں تم سے کہ خورشید جہاں تم ہو
ابوبکر﷜ و عمر﷜ بھی تھے وہاں عثمان﷜ و حیدر﷜ بھی
نہ پائے جس حقیقت کو، وہ ہی سِّرِ نہاں تم ہو
وہ کوئی اور ہوں گے جو نہیں ملتے نشاں سے بھی
میں کیوں ڈھنڈوں تمہیں آقاﷺ یہاں تم ہو وہاں تم ہو
ہر اک محتاج و بیکس بس تمہارے پاس آتا ہے
ہر ایک نعمت میسّر ہے جہاں تم ہو جہاں تم ہو
جہاں میں لاج رکھی ہے تم ہی نے اپنے حافؔظ کی
سر محشر نکمّے کی اَماں تم ہو امَاں تم ہو
(۶ صفر المظفر ۱۴۳۹؁ھ ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۷ بوقت فجر) بروز جمعتہ المبارک

...

جمال و حسن کا منظر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے

نعت شریف

نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے

جمال و حسن کا منظر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
نوال و جُود کا مظہر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
نبوت اِنﷺ کی اعلیٰ ہے، رسالت اِنﷺ کی بالا ہے
زمانہ دیکھ لے آکر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
عطا اِن کی ہے دنیا میں، شفاعت اِن کی اُخریٰ میں
یہی ہیں صاحبِ کوثر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
خزانہ اِن کا بھاری ہے، عطا و فیض جاری ہے
سخی یہ لُطف کا محور، نہ یہ کم ہے، نہ وہ کم ہے
چمک ان کی زمانے میں، دمک دل کے خزانے میں
یہ ساری خلق سے برتر، نہ یہ کم ہے، نہ وہ کم ہے
ہر اک صاحب ستارہ ہے، ولی ہر ایک پیارا ہے
ہیں دونوں باغ کے گل تر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
جسے ہے اُلفتِ کامل، غلامی ہے اُسے حاصل
تجھے حافظِ سرِ منبر، نہ یہ کم ہے نہ وہ کم ہے
(۲ اگست ۲۰۱۵؁ء ۱۶ شوال ۱۴۳۶؁ھ)

...

سارا جگمگ جہاں آپ سے آپ سے

نعت شریف

آپ سے آپ سے

سارا جگمگ جہاں آپ سے آپ سے
رونق ہر مکاں آپ سے آپ سے
آپ تشریف لائے تو ظلمت گئی
چَھٹ گیا ہر دھواں آپ سے آپ سے
جاں میں جاں آگئی ہر جگہ مل گئی
بے زباں کو زباں آپ سے آپ سے
علم مَالَمْ تکن تَعْلمُ زیبِ سر
فہم و عرفاں رواں آپ سے آپ سے
ذکرِ خَیْرُ الرُّسُل بعدِ حق ہر جگہ
ہے مزیّن قُراں آپ سے آپ سے
واقفِ سرِّ حق نازشِ کُل جہاں
رازِ وحدت عیاں آپ سے آپ سے
حافظِؔ غمزدہ کو شفیعِ اُمم
مل گئی ہے اماں آپ سے آپ سے
(۲۷ اکتوبر ۲۰۱۵؁ء/ ۱۳ محرم الحرام ۱۴۳۷؁ھ)

...

صلہ خوب پائے اِدھر سے اُدھر سے

نعت شریف

اِدھر سے اُدھر سے

صلہ خوب پائے اِدھر سے اُدھر سے
مدینے جو آئے اِدھر سے اُدھر سے
نگاہوں میں جچتی نہیں کوئی جنت
جو طیبہ کو جائے اِدھر سے اُدھر سے
ترے در کے ٹکڑوں پہ جب ہے گزارہ
تو لو کیوں لگائے اِدھر سے اُدھر سے
درِ مصطفیﷺ سے چمک اٹھی قسمت
نہ اب آزمائے اِدھر سے اُدھر سے
غبارِ مدینہ جو سینے پہ مل لے
یہ دل جگمگائے اِدھر سے اُدھر سے
گدائے نبیﷺ ہوں تو در پہ پڑا ہوں
نہ کوئی اٹھائے اِدھر سے اُدھر سے
سگِ غوث﷜ و برکت ہوا جب سے حافؔظ
صلہ سب سے پائے اِدھر سے اُدھر سے
(۲۷ ستمبر ۲۰۱۵؁ء/ ۱۲ ذی الحجہ ۱۴۳۶؁ ھ)

...

جہاں میں دھومیں مچی ہیں جن کی فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ

نعت شریف

فلک پہ احمد یہاں محمد(ﷺ)

جہاں میں دھومیں مچی ہیں جن کی فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ
لبوں پہ نعتیں سجی ہیں جن کی فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ
نزاکتیں ہوں، لطافتیں ہوں، کرامتیں ہوں کہ نکہتیں ہوں
ہر ایک شی میں رچی ہیں جن کی فلک احمد یہاں محمدﷺ
بلندیاں بھی، فضیتلیں بھی، نُضارتیں بھی تو عظمتیں بھی
ہر ایک لمحہ بڑھی ہیں جن کی فلک احمد یہاں محمدﷺ
ان ہی سے عالم چمک رہے ہیں، ان ہی کی خوشبو چمن چمن ہے
دلوں میں یادیں بسی ہیں جن کی فلک احمد یہاں محمدﷺ
وہ اول آخر کو دیکھتے ہیں، زمیں زماں ان کے سامنے ہیں
جہاں پہ نظریں جمی ہیں جن کی فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ
اُن ہی کو رب نے عطا کیا ہے، ہر ایک نعمت اُن ہی کو بخشی
ازل سے مہریں لگی ہیں جن کی فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ
یہ فیضِ مرشد ملا ہے حافؔظ، رضؔا کے رستے پہ چل پڑا ہے
کہ تو نے نعتیں کہی ہیں جن کی ’’فلک پہ احمد یہاں محمدﷺ‘‘
(۲۸ مئی ۲۰۱۵؁ء/ ۹ شعبان المعظم ۱۴۳۶؁ھ)

...

درخشاں میری قسمت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ

نعت شریف

اُدھر کعبہ اِدھر روضہ

درخشاں میری قسمت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
مسلسل مجھ پہ رحمت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
غلافِ کعبہ آنکھوں سے لگایا ہے اِدھر جالی
مسّرت ہی مسّرت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
اُدھر میزاب رحمت ہے اِدھر سرکار خود رحمت
سراپا ظّل راحت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
اُدھر آغوشِ کعبہ ہے اِدھر آغوشِ جنت ہے
زِسرتا پاموَدّت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
مقام اِبْرَہیمی واں اِدھر محراب و منبر ہے
نُضارت ہی نضارت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
صفا مروہ اُدھر ہے تو قُبا کی اس طرف برکت
عبادت ہی عبادت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
حرا کے اُس طرف جلوے اُحُدْ ہے اِس طرف تاباں
بشارت ہی بشارت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
اُدھر عرفات و مزدلفہ‘ اِدھر ہے مشہدِ حمزہ
کرم ہے نور و نگہت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
چلو حافؔظ ذرا جلدی وہ دیکھو نوری نظّارے
مثال حُسن جنت ہے اُدھر کعبہ اِدھر روضہ
(۱۰ رمضان المبارک ۱۴۳۷ھ/ ۱۵ جون ۲۰۱۶؁ء نزیل، مدینہ منورہ)

...

میں مدینے کو چلا زائر روضہ ہو کر

نعت شریف

زائر روضہ

میں مدینے کو چلا زائر روضہ ہو کر
کِھل گیا غنچہء دل کیسا شگفتہ ہو کر
اسکی خوشیوں کا کہیں کوئی ٹھکانہ ہی نہیں
جو کوئی گھر سے چلا عازم طیبہ ہو کر
در آقاﷺ پہ جمائیں جو نگاہیں میں نے
دل چمکنے لگا پھر خوب مجلاّ ہو کر
در سرکار سے پائے جو ہزاروں تحفے
میں تو پھولا نہ سمایا ہوں شگفتہ ہو کر
میں مدینے میں رہوں آپکا نوکر بن کے
اور ٹھکانے سے لگوں خاک مدینہ ہو کر
قافلے والو رکو اتنی بھی جلدی کیا ہے
میں ذرا سانس تو لوں سوئے مدینہ ہو کر
جب سے انوار مدینہ میں دھلا ہے حافؔظ
تو وہ ذرہّ ہے جو چمکا ہے نگینہ ہو کر
(۲۰ فروری ۲۰۱۷۔ ۲۲ جمادی الاوی ۱۴۳۸ھ) نزیل مدینہ

...