ابو الحماد حضرت مفتی احمد میاں حافظ برکاتی  

کتنے ترے انگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا

صبحِ رضا شامِ رضا

منقبت امام اہلسنّت ‘ مجدد دین و ملت ‘
﷜ مولانا شاہ امام احمد رضا خاں محدث بریلوی 

 

کتنے ترے انگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
خوب ترے رنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
رب نے جو فرمادیا کُوْنُوا مَعَ الصَّادِقِیْن
ہم تو ترے سنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
تیری دمک نے ہمیں خوب ہی چمکا دیا
دور سب ہی زنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
تیری شفق پُرضِیا تیری کرن پُر جمَال
بکھرے ترے رنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
تیری کتب دیکھ کر تیرا قلم دیکھ کر
آج بھی سب دنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
قعرِ مذلّت میں ہیں جتنے ہیں دشمن ترے
ان کے برے ڈھنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
’’ملک خدا تنگ نیست‘‘ سب کو معلوم ہے
دشمنوں پہ تنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
جتنے ہیں اعداء نبی سب کو ترا خوف ہے
ہارے ہوئے جنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
گرچہ یہ مشہور ہے ’’پائے گدا لنگ نیست‘‘
تیرے سوا لنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
شمع ھُدیٰ آج بھی دنیا کے عالم تمام
سب ترے پتنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
حافؔظِ خوشدل رضا مدح تری کیا کرے
قافیے جو تنگ ہیں صبحِ رضا شامِ رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

ذکرِ شاہِ ہُدیٰ کیجئے

مرحبا مرحبا

 

ذکرِ شاہِ ہُدیٰ کیجئے
مَرْحبا مصطفٰےﷺ کیجئے
شہ کی آمد یقینی ہوئی
وردِ صَلِّ عَلیٰ کیجئے
یا نبی واسطہ پیر کا
میرے دل میں رہا کیجئے
عاشقوں کے جو دولہا بنے
ذکر عشقِ رؔضا کیجئے
آج ہے عرس حضرت حسؔن
مرحبا مرحبا کیجئے
اک نگاہ مجھ پہ سید امؔین
 بس دعا اور دعا کیجئے
یہ ہے حاؔفظ حسؔن آپ کا
میرے مرشد بھلا کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

صبر و رضا و صدق کے پیکر حسن میاں

منقبت بہ حضور احسن العلماء علامہ سید مصطفےٰ حیدر
حسن میاں شاہ صاحب قادری برکاتی نوراللہ مرقدہ

صبر و رضا و صدق کے پیکر حسن میاں
نوری میاں کے نور کا مظہر حسن میاں
ایسا کرم ہے آپ کا سب پر حسن میاں
ہے پرسکون ہر دلِ مضطر حسن میاں
وہ جس میں آب اسوۂ خیر البشر کی ہے
اک ایسا آئینہ ہیں سراسر حسن میاں
نور نگاہ زھرا ہیں ‘ لخت دل علی ﷜
قالِ علی و آل پیمبر ‘ حسن میاں
اولادِ باب علم ہیں اور آلِ شہرِ علم
ہیں علم و آگہی کا سمندر حسن میاں
ان کی مہک سے سارا چمن عطر بیز ہے
ہیں باغِ قادری کے گل تر حسن میاں
ہیں چرخِ معرفت کے وہ رخشندہ آفتاب
شاہؔ جی میاں کا ناز ہیں حیدر حسن میاں
واللہ فخر و ناز محمدؔ میاں ہیں وہ
ہیں آلِ مصطفیٰﷺ کے جو دلبر حسن میاں
مارہرہ و بریلی کا ہر ایک ماہتاب
ہے آپ کی ضیاء سے منور حسن میاں
بس اک نگاہ لطف سے مٹتی ہے تشنگی
ہیں تشنگان شوق کے محور حسن میاں
جس نے ہمیں کیا غم دوراں سے بے نیاز
ہو وہ نگاہ لطف مکرر حسن میاں
منزل کی مشکلات کا کیوں مجھ کو خوف ہو
ہر کام پر ہیں جب مرے راہبر حسن میاں
دنیا کی ہر بلا سے وہ مامون ہوگیا
جو آگیا ہے آپ کے در پر حسن میاں
وہ گردش زمانہ سے گھبرائے کس لئے
حامی ہوں جس کے مصطفیٰ حیدر حسن میاں
مفتی خؔلیل آپ کے جلووں کا آئینہ
اور آپ ان کے علم کا مظہر حسن میاں
اس خار زار ہستی میں ہر اک مقام پر
ہیں گل بداماں آپ کے چاکر حسن میاں
نظؔمؔی میاں کے حُسْن میں حُسْنِ حَسَؔنْ کے ساتھ
شامل ہے حسن و شان برادر حسن میاں
بے شک امیؔن و اشؔرف و افؔضؔل نجیؔب ہیں
ہیں یہ جو آپ کے مہ و اختر حسن میاں
میں نے جہاں بھی جب بھی پکارا آپ کو
کی دست گیری ہے وہیں آکر حسن میاں
بخشا ہے آپ نے جو امؔین و نجیؔب کو
مجھ کو بھی ہو عطا وہی ساغر حسن میاں
حاؔفظ مزا تو جب ہے کہ یوں ہو بسر حیات
دل میں حسن میاں ہوں تو لب پر حسن میاں
(۲۰ اکتوبر ۱۹۹۵ء)

...

مجھ کو بھی اپنے در پہ بلالو حسن میاں

آرزوئے دل

 

مجھ کو بھی اپنے در پہ بلالو حسن میاں
ارماں یہ مرے دل کا نکالو حسن میاں
دامن میں مجھ کو اپنے چھپالو حسن میاں
سینے سے اپنے مجھ کو لگالو حسن میاں
محرومیوں کی دھوپ نے جھلسادیا مجھے
مجھ کو تمَازتوں سے بچالو حسن میاں
اس پا شکستگی نے تو مجبور کردیا
گرتا ہوں اب میں مجھ کو سنبھالو حسن میاں
کی ہیں کھڑی ہُنود نے رَہْ میں رکاوٹیں
قَدْغَنْ ہر ایک راہ سے اٹھالو حسن میاں
نوری میاں کے نور کا صدقہ کرو عطا
رستے یہ ظلمتوں کے اُجالو حسن میاں
روضے پہ آپ کے میں تصور میں آگیا
حرماں نصیبیوں سے بچالو حسن میاں
جو نکہت مدینہ ہے مارہرہ میں اسے
جی چاہتا ہے دل میں بسالو حسن میاں
آؤں نظر میں ‘ آپ کے جلووں کا آئینہ
ایسی نگاہ مجھ پہ بھی ڈالو حسن میاں
جو خوش نصیب نور نگاہ حضور ہیں
ان میں مجھے بھی آپ ملالو حسن میاں
حاؔفظ ملول کیوں ہے بلائیں گے وہ ضرور
کہہ صبح و شام ’’مجھ کو بلالو حسن میاں‘‘

جب عرس چہلم میں شرکت کیلئے ویزا نہ ملا تو یہ چند اشعار ہوئے۔
(۲۵ جمادی الاول ۱۴۱۶ ھ ۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۵ء)

...

آپ سے تازہ ہے ہر دل کا چمن

منقبت درشان حَسَنْ برموقع عرس مبارک

حسن مارہرہ مطہرہ‘ تاج العرفاء‘ نقیب الاصفیاء‘ احسن العلماء‘

حضور سیدی وسندی مولانا مفتی سید مصطفیٰ حیدر حسن

قادری برکاتی ابوالقاسمی نور اللہ مرقدہ

زیب سجادہ ‘ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ (ایٹہ)

 

آپ سے تازہ ہے ہر دل کا چمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ سے ہے زندگی کا بانکپن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ کی ہر ہر ادا باطل شکن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
لرزاں ہے ہیبت سے کاخ اہرمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
ہے منور بزم عرفاں آپ سے
ہے درخشاں مہر ایماں آپ سے
آپ آل مرتضیٰ ہیں آپ جان انجمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ کے در کی گدائی کیا ملی
دولت دنیا ؤ دیں گویا ملی
دور سارے ہوگئے رنج و محن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ ایسی راہ پر لے کے چلے
جس سے دیں کے دشمنوں کے دل جلے
آپ نے بخشی ہمیں سچی لگن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ بے شک علم کی روشن دلیل
آپ جانِ مصطفیٰ نازِ خلیؔل
آپ شانِ گلستان پنجتن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
معرفت کی آپ اک تفسیر ہیں
اور شریعت کی کھلی تحریر ہیں
اتباعِ مصطفےٰﷺ ہے پیرھن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ کی نسبت سے ہم مشہور ہیں
دل نبیﷺ کے عشق سے معمور ہیں
آپ پر قرباں ہمارے جان و تن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
آپ نے ہم کو امؔیں ایسا دیا
جس پہ ہے ہر افؔضل و اشرؔف فدا
ہے وہ ناز و افتخار انجمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
ہو بہو دو آپ کی تصویر ہیں
اول و آخر ‘ آپ کی تنویر ہیں
بالیقیں ہیں نازش سرو و سمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
گل کھلے ہیں دل کے ہے منظر عجیب
آئے ہیں شاید کہ شہزادے نجیؔب
آپ سے لیکر کوئی لعل یمن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن
ہر گھڑی محموؔد اب محمود ہے
وہ ملے گا سب کا جو مقصود ہے
ہر زباں پر آج ہے یہ ہی سخن
اے حسن میرے حسن پیارے حسن

(فقیر کی عرض کردہ منقبت جو عزیز دوست حاجی محمود احمد محمودد برکاتی نے ۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۹ھ کو کراچی میں عرس پر پیش کی)

...

کون نازِ اولیاء میرے حسن میرے حسن

﷜ میرے حسن 

 

کون نازِ اولیاء میرے حسن میرے حسن
کون تاجِ اصفیاء میرے حسن میرے حسن
یَااَللہُ یَارَحْمٰنُ یَارَحِیْمُ ہر پہر
تھا وظیفہ آپ کا میرے حسن میرے حسن
آپ مصداقِ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارْ ہیں
تیغِ عشقِ مصطفیٰﷺ میرے حسن میرے حسن
رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ کی ہو بہو تنویر ہیں
مجموعٔہ حلم و صفا میرے حسن میرے حسن
آپ منظور نظر بیشک ہیں پنجتن پاک کے
نوری گھرانہ آپ کا میرے حسن میرے حسن
خوش لباس و خوش مزاج و خوش بیان و خوش گلو
خوش نوا و خوش ادا میرے حسن میرے حسن
ہے جو فخر بوالحسین احمؔد نوری میاں
آپ ہیں وہ رہنما میرے حسن میرے حسن
قصر باطل میں جنہوں نے زلزلے پیدا کئے
آئینۂ احمد رضا میرے حسن میرے حسن
شانِ اولاؔدِ رسول ﷺ و حضرت شاؔہ جی میاں
آپ آلِ مجتبی میرے حسن میرے حسن
مفتی اعظم کو الفت جن سے ہر لمحہ رہی
ہیں وہی ماہ لقا میرے حسن میرے حسن
حُسن مارہرہ میں حاؔفظ جن کے دم سے ہے نکھار
وہ بہارِ بے بہا میرے حسن میرے حسنز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

جن کو ہے تم سے نسبت حضرت خلیل ملت

منقبت  درشان حضرت خلیل ملت مفتی محمد خلیل خاں مارھروی  برکاتی ﷫ و الرضوان

 

جن کو ہے تم سے نسبت حضرت خلیل ملت
قسمت ہے ان کی راحت حضرت خلیل ملت
خورشید اہلسنت ‘ حضرت خلیل ملت
ہرجا حریف ظلمت ‘ حضرت خلیل ملت
مہر درخشاں بیشک ‘ ہیں چرخ معرفت کے
ہیں منبع ولایت ‘ حضرت خلیل ملت
وہ راہ معرفت ہو یا ہو راہ شریعت
کی آپ نے امامت ‘ حضرت خلیل ملت
مہکے جو سندھ میں ہیں ‘ رضوی گلاب ان میں
ہے آپ سے طراوت ‘ حضرت خلیل ملت
روشن ہیں دیں کی شمعیں ‘ چلتن کی وادیوں میں
کیا خوب ہے کرامت حضرت خلیل ملت
علماء کی انجمن میں ‘ ہر محفل سخن میں
ہے آپ کی سیادت حضرت خلیل ملت
منزل سے دور جو تھے منزل وہ پاگئے ہیں
کیا خوب کی قیادت حضرت خلیل ملت
مشکل تھے جو مسائل لمحوں میں حل کئے ہیں
اللہ رے وہ ذکاوت حضرت خلیل ملت
ہیں جو تلامذہ سے ‘ آنکھیں جہاں کی خیرہ
ہے آپ کی نضارت حضرت خلیل ملت
ظاہر کیا نہاں کو خوشبو کو گل میں دیکھا
اللہ رے بصارت حضرت خلیل ملت
بیٹھا ہوا ہے سکہ ان کے قلم کا ہر جا
دریائے علم و حکمت حضرت خلیل ملت
خوش حال و کامراں ہے ‘ راہ طلب میں جسکو
ہے آپ سے ارادت حضرت خلیل ملت
تصویر یاس و غم ہیں محراب اور منبر
اے نازش خطابت حضرت خلیل ملت
حسن ازل کے جلوے پھر بے حجاب دیکھوں
پھر آئے ایسی ساعت حضرت خلیل ملت
حاؔفظ سخن کے موتی جو یوں لٹا رہا ہے
ہے آپ کی عنایت حضرت خلیل ملت

...

برکاتیوں کے دولہا سید امین ہیں

قصیدہ درشان حضرت امین البرکات ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی مدظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطھرہ

(برموقع عرس سید حسن میاں علیہ الرحمہ کراچی ۱۹۹۷ ء ۔ ۱۴۱۷ھ)

 

برکاتیوں کے دولہا سید امین ہیں
جن کے سجا ہے سہرا سید امین ہیں
ملتی ہے بھیک جن سے شاؔہ جی میاں کے در کی
وہ جانشین والا سید امین ہیں
جن کی نوید سب کو سیؔد میاں نے دی تھی
اس گل کا اک نظارا سید امین ہیں
ٹکرائیگا جو ان سے وہ پاش پاش ہوگا
کوہ بلند و بالا سید امین ہیں
جاری ہے فیض جن سے حضرت حسن میاں کا
وہ چشمہ اجالا سید امین ہیں
مفتی شؔریف ہوں یا مفتیؔ خلیل حاؔفظ
 ان کی نظر کا تارا سید امین ہیں

...

ہیں یہ امین دین رسالت پناہ کے

قطعہ

 

نذر بحضور‘ آفتاب سندھ‘ منبع ولایت‘ مرکز سخاوت سخی سرکار سیدنا عبدالوہاب شاہ جیلانی قادری ﷜

(حیدرآباد ، سندھ)

ہیں یہ امین دین رسالت پناہ کے
اقلیم معرفت کے یہی تاجدار ہیں
حاؔفظ یہ جن کے فیض سے روشن ہے میرا دل
شمع علی ہیں آل شہ ذی وقار ہیں

مذکورہ  قطعہ‘ درگاہ سخی سیدنا عبدالوہاب شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی  تعمیر نو کے وقت کہا گیا‘ اور یہ شرف عطا ہوا کہ حضرت کے دربار میں ‘ مرقد منور کی زینت بنا ۔ یہ قطعہ ’’برکات محل‘‘ میں شامل ہو نے سے رہ گیا تھا ‘ حتی کہ حصہ منقبت کی تمام کا پیاں تیار ہوگیئں ‘ لیکن یہ آخری صفحہ خالی تھا ۔ حضرت کی کرامت سے اچانک القاء ہوا کہ یہ قطعہ دیوان میں شامل نہیں ہوسکا ہے۔ فوری طور پر اسے دربارشریف سے نقل کروایا اور اس آخری صفحہ پر لگایا ۔ مگر دل میں اس بے ترتیبی پربے چینی رہی تو حضرت نے دوسرا القاء فرمایا کہ ’’برکات محل‘‘ کا پہلا صفحہ ہمارے نام سے شروع کیا ہے ‘ تو ختم بھی ہمارے نام پر کرو ‘ اس خیال سے دل مطمئن ہوا۔ اس طرح حصہ حمد ‘ نعت ‘ منقبت ‘ حضرت کے ذکر پر پورا ہوا۔ اور اس سے یہ نیک فال لی کہ ان شاءاللہ مقبول ہے ۔

                                  فقیر قادری برکاتی غفرلہ مولف’’برکات محل‘‘

...