شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں  

تیری چوکھٹ تک رسائی گر شہا ہو جائے گی

تیری چوکھٹ تک رسائی گر شہا ہو جائے گی
بے وفا تقدیر بھی پیک وفا ہو جائے گی
انکے در پر گروفور عشق میں سر رکھ دیا
ایک سجدے میں ادا ساری قضا ہوجائے گی
ننھے طائر تک اٹھیں گے لیکے جوش انتقام
ابرہہ کے ظلم کی جب انتہا ہوجائے گی
میں تو بس ان کی نگاہِ لطف کا مشتاق ہوں
غم نہیں گر ساری دنیا بے وفا ہوجائے گی
خیر امت کی سند سرکارﷺ سے جب مل گئی
میری قسمت مجھ سے پھر کیسے خفا ہو جائے گی
ہورہی ہیں چاند پر جانے کی پیہم کوششیں
محو حیرت ہوں یہ دنیا  کیا سے کیا ہوجائے گی
گر کہیں جان چمن اخؔتر چمن میں آگیا
پتی پتی اس چمن کی ہم نوا ہوجائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

جبین شوق کو جب مصطفیٰﷺ کے در سے ٹکرایا

جبین شوق کو جب مصطفیٰﷺ کے در سے ٹکرایا
ستارہ میری قسمت کامہ و خاور سے ٹکرایا
کریمی ان کاشیوہ ہے وہی ہیں رحمت عالم
بھریں گی جھولیاں سر کو جو ان کے در سے ٹکرایا
ہزاروں زندگی قربان ہوجاتی ہیں ایسوں پر
خدا کے واسطے جن کا گلا خنجر سے ٹکرایا
ستارہ ہم گنہگاروں کی قسمت کا چمک اٹھا
نبیﷺ نے حشر میں جب سرخدا کے در سے ٹکرایا
فضا میں اس کی اڑتی دھجیاں دیکھی زمانے نے
کوئی بدبخت جب بھی شافع محشر سے ٹکرایا
زمانہ جانتا ہے، ہے عیاں سارے زمانے پر
ہوا فِی النَّار جو اللہ کے دلبر سے ٹکرایا
ہوئے ہیں آہینی ابواب بھی دونیم اے اخؔتر
کہ جب دست علی شیر خدا ﷜ خیبر سے ٹکرایا

...

تیرہ بختوں کی ہوگئی معراج

تیرہ بختوں کی ہوگئی معراج
چرخ پر ہے طلوعِ بدرالدّاج
سبز گنبد میں یوں ہے جلوہ فگن
جیسے اک شمع ہو بہ قصر زجاج
تابش مہر اور جمال سحر
ہیں فقط عکس چہرۂ وہاّج
پیش پرواز شہپر احمد
برق کیا؟ خیرہ ہمدم معراج
کیوں نہ ہو عرش متّکا ان کا
جبکہ وہ فرق مرسلیں کے ہیں تاج
کون آیا ہے رشک مہر و قمر
فرش سے عرش تک ہے نور کا راج
موج باطل کو کردیا پسپا
مٹ گیا بت پرستیوں کا رواج
شادکامی عنادلوں کی نہ پوچھ
آمد نازشِ بہار ہے آج
اپنے بندوں پہ ہو نگاہِ کرم
گلشنِ آس ہوگیا تاراج
روز محشر نبیﷺ نے اے اخؔتر
مجھ گنہگار کی بھی رکھ لی لاج

...

تخت شاہی نہ سیم و گہر چاہیے

تخت شاہی نہ سیم و گہر چاہیے
یانبیﷺ آپ کا سنگِ در چاہیے
ماہ و خورشید کی کوئی حاجت نہیں
زلف کی شام رخ کی سحر چاہیے
کیا کرونگا میں رضواں تری خلد کو
آمنہ﷝ کے دلارےﷺ کا گھر چاہیے
چشم دل کے لئے کحل درکار ہے
خاک پائے شہ بحر و بر چاہیے
مجھ کو دنیا کی نظروں سے کیا واسطہ
چشم الطاف خیر البشر چاہیے
اپنا دل عشق احمد سے معمور کر
رحمت کبریا تجھ کو گر چاہیے
ان کی یادوں میں رونا بھی ہے بندگی
یاالٰہی مجھے چشم تر چاہیے
زندگانی ہے مطلوب اخؔتر مجھے
سوزش داغہائے جگر چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

وہ جان بہاراں مرے روبرو ہے

وہ جان بہاراں مرے روبرو ہے
نہیں اب مجھے خلد کی آرزو ہے
گراں ہے چمن پروہی نکہت گل
چمن کی حقیقت میں جو آبرو ہے
ترے دستِ نازک میں لڑیاں گلوں کی
مرے ہاتھ میں بلبل پر لہو ہے
مرے دل کی بربادیاں رنگ لائیں
پریشان سا کاکل مشکبو ہے
تری دید اول تری دید آخر
یہی آرزو تھی یہی آرزو ہے
سلامت رہے نرگس مست آگیں
نہیں کچھ بھی پروائے جام وسبو ہے

...

جہاں جاؤں وہاں نور ہدایت ہو تو کیا کہنا

جہاں جاؤں وہاں نور ہدایت ہو تو کیا کہنا
تصور میں رخ پاک رسالت ہو تو کیا کہنا
گھٹا چھائی فضا ٹھنڈی، ہوا محو نوا سنجی
اب ایسے میں اگر ان کی زیارت ہو تو کیا کہنا
مہک اٹھے ہیں میرے بوستان دل کے گل بوٹے
مرے سرکارﷺ آنے کی عنایت ہو تو کیا کہنا
یہاں عقدہ کشائی ہے وہاں رمز آشنائی ہے
یہ جلوت ہو تو کیا کہنا وہ خلوت ہو تو کیا کہنا
وہی دل ہاں وہی یعنی اسیر کاکل مشکیں
مرے آقاﷺ ترا دارالحکومت ہو تو کیا کہنا
نہ آئے یاد کچھ بھی ماسوائے گنبد خضریٰ
مجھے سارے جہاں سے ایسی غفلت ہو تو کیا کہنا
سبق دیتی ہے اے اخؔتر یہی شانِ اُویسانہ
شہید نرگس رعنائے فرقت ہو تو کیا کہنا

...

اللہ رے تیرے در و دیوار مدینہ

اللہ رے تیرے در و دیوار مدینہ
سرتا بقدم سب ہیں پُر انوار مدینہ
اے جلوہ گہہ احمد مختار مدینہ
اللہ کے دلدار کے دل دار مدینہ
دنیا میں ہے تو رحمت باری کا وسیلہ
ہردم یہ سمجھتے ہیں گنہہ گار مدینہ
ذرے ہیں تیرے چرخ کے تابندہ ستارے
فردوس بھی ہے تیری طلب گار مدینہ
طیبہ سے ہم آئے ہیں یہی آرزو لے کر
اللہ دکھا دے تو پھر اک بار مدینہ
سینے پہ ترے نقشِ کفِ پائے نبیﷺ ہے
گودوں میں صداقت کے ہیں ابحار مدینہ
شمشیر شجاعت ہے کہیں جوئے سخاوت
شیدا ہے تیرا حیدر کرّار﷜ مدینہ
فردوس کا منظر نظر آئے اسے پھیکا
اک بارجو دیکھے ترا گلزار مدینہ
آغوش محبت میں طلبگارِ سکوں ہے
مداح تیرا اخؔتر ناچار مدینہ

...

آج کچھ حد سے فزوں سوز نہانی ہے حضورﷺ

آج کچھ حد سے فزوں سوز نہانی ہے حضورﷺ
مضمحل میری طبیعت کی روانی ہے حضورﷺ
تیرے ہاتھوں میں مِرے ناز غلامی کی ہے لاج
بے لئے در سے نہ اٹھوں گا یہ ٹھانی ہے حضورﷺ
تیرا کہلانے کے لائق میں نہیں ہوں نہ سہی
میری نسبت تری چوکھٹ سے پرانی ہے حضورﷺ
خود سے آتا ہے یہاں کون؟ یہ میرا آنا
آپ کی چشم عنایت کی نشانی ہے حضورﷺ
آنسوؤں کو مرے دامن کا کنارہ دے دو
اس میں مضمر مری پر درد کہانی ہے حضورﷺ
آپ سے شرح تمنا کی ضرورت کیا ہے؟
سامنے آپ کے ہرسرٌ نہانی ہے حضورﷺ
در پہ لایا ہوں گرفتار خدارا کرلو
نفس بد میرا بڑا دشمن جانی ہے حضورﷺ
قطرۂ اشک کویہ اوج ترے در سے ملا
قطرۂ اشک نہیں درّیمانی ہے حضورﷺ
میرے اعمال پہ للّلہ نہ مجھ کو چھوڑو
آپ ہی کو مری تقدیر بنانی ہے حضورﷺ
کھو نہ جاؤں میں خیالات کی تاریکی میں
نور کی شمع مرے دل میں جلانی ہے حضورﷺ
اپنے اخؔتر کی سنو گے یہ سبھی کہتے ہیں
آبرو میری غلامی کی بچانی ہے حضورﷺ

...

تمہیں تو ہو خاتم پیمبرﷺ تمہیں تو ہو شانِ حق کے مظہر

تمہیں تو ہو خاتم پیمبرﷺ تمہیں تو ہو شانِ حق کے مظہر
تمہیں ہمارے شفیع محشر تمہیں تو ہو دوجہاں کے رہبر
نہ کوئی والی نہ کوئی ہمسر ہوا ہے سارا زمانہ دشمن
خبر تو لیجئے میرے پیمبرﷺ بھٹک رہا ہے غلام در در
ہزاروں نبیوں کے جمگھٹے میں بجز تمہارے اے کملی والے
ہوئے کلیم و خلیل لیکن ہوا نہ کوئی حبیب داور
کریم تم ہو شفیع تم ہو تمہارے ہاتھوں میں ساری دولت
میں خالی جاؤں بتاؤ کیونکر ہمارے مولا ہمارے سرورﷺ
یہی ہے اک التجا ہماری یہی ہے اک آرزو ہماری
بروز محشر اے کملی والےﷺ تو رکھنا سایہ ہمارے سر پر
مدینے والے بچانا اس دم لبوں پہ اخؔتر کے جاں ہو جس دم
بس آخری التجا ہے اتنی اے میرے آقا اے میرے سرورﷺ

...

محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ چرخِ بریں یہ قمریہ ستارے
سمندر کی طغیانیاں یہ کنارے
یہ دریا کے بہتے ہوئے صاف دھارے
یہ آتش کی سوزش یہ اڑتے شرارے
محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
عنادل کی نغمہ سرائی نہ ہوتی
ہنسی گُل کے ہونٹوں پہ آئی نہ ہوتی
کبھی سطوت قیصرائی نہ ہوتی
خدا ہوتا لیکن خدائی نہ ہوتی
محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ راتوں کے منظر یہ تاروں کے سائے
خراماں خراماں قمر اس میں آئے
مرے قلب مخزوں کو آکر لبھائے
لٹاتا ہوا دولت نور جائے
محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بطن صدف میں‘ درخشندہ ہوتی
نہ سبزی قباؤں میں ملبوس گیتی
فلک پہ حسیں کہکشاں بھی نہ ہوتی
زمیں کی یہ پرکیف سوتا نہ سوتی
محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

...