شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں  

انکی نگاہِ ناز جدھر ہمنوا گئی

انکی نگاہِ ناز جدھر ہمنوا گئی
واللہ کہہ رہا ہوں قیامت مچاگئی
عشق نبیﷺ پہ عصر کو قربان کردیا
کیسے کہوں نماز تمہاری قضاگئی
ہے نام پاک اس کا علی﷜ جس کی جان پاک
بہر خدا تھی اور برائے خدا گئی
میرے نصیب تیرا نصیبہ چمک اٹھا
ماہ رجب کی تیرہویں تاریخ آگئی

...

سنتے ہیں کہ وہ جان چمن آئے ہوئے ہیں

سنتے ہیں کہ وہ جان چمن آئے ہوئے ہیں
پھر غنچے بتا کس لئے کمہلائے ہوئے ہیں
روشن نظر آتے ہیں دروبامِ تمنا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
پرواہ نہیں اپنا بنائیں نہ بنائیں
ہم تو انھیں اپنائے تھے اپنائے ہوئے ہیں
کیا بات ہے یہ داور محشر کے مقابل
ہم ہیں بت خاموش وہ شرمائے ہوئے ہیں
اخؔتر ہے بہت خوب یہ انداز تکلم
تنہا ہیں مگر بزم کو گرمائے ہوئے ہیں

...

زہے بخت مل جائے وہ آستانہ

زہے بخت مل جائے وہ آستانہ
جہاں جھک گئی ہے جبین زمانہ
جہاں کا مکیں ہو مرا کملی والا
وہیں پر الٰہی ہو ختم فسانہ
نہیں ہوں طلب گار انداز زاہد
ہمارا ہو ہر اک قدم حیدرانہ
فلک کو بھی روند آئے میرا نصیبہ
تراگر اشارہ ہو شاہِ زمانہ
فراق محمدﷺ میں آنسو بہا کر
مجھے آگیا دائمی مسکرانہ
ترے دست پہ چشم تشنہ لباں ہے
ادھر ساقیا جامِ رنگیں بڑھانا
ترے اک اشارے پہ ہو جائے آساں
خطر ناک طوفان سے کھیل جانا
زباں ہے میری خوگر نعت احمد
یہی ہے ہمارے لبوں کا ترانا
اے اخؔتر چلے آؤ طیبہ کی جانب
خدا کا کرم چاہتا ہے بہانہ

...

ہائے چشمان عنایت برق ساماں ہوگئیں

ہائے چشمان عنایت برق ساماں ہوگئیں
حسرتیں میری شہید عہد و پیماں ہوگئیں
ہم اسیران قفس کیا سوچ کر ہوں شادماں
کیا ہوا گر آندھیاں ابر بہاراں ہوگئیں
اللہ اللہ رے ندامت کی کرشمہ سازیاں
ساری عصیاں کاریاں بخشش  کا ساماں ہوگئیں
ان کے الطاف وکرم نے اک حسیں کروٹ جولی
سرخیاں داغِ عذار ماہ رویاں ہوگئیں
اللہ اللہ رے طلسم اشکہائے اضطراب
چشم ہائے ناز بھی گوہر بداماں ہوگئیں

...

رم جھم رم جھم پانی برسے یاد تمہاری دل کو ستائے

رم جھم رم جھم پانی برسے یاد تمہاری دل کو ستائے
میری دعا ہے اپنے رب سے ایسی ساعت آکے نہ جائے
لذت الفت غم کے اندرورنہ محبت نام کی اخؔتر
لطف محبت وہ کیا پائے جب تک نہ دل کو تڑپائے
کوئی ہو موسم کوئی زمانہ باز ہے پر نظروں کا دہانہ
اپنی  آنکھوں کے میں صدقے جن کو فقط برسات ہی بھائے
دل میں بسے ہیں شاہِ مدینہ معرفت اللہ کا زینہ
گود میں منظر گنبد خضریٰ رکھ کر کیوں نہ دل اترائے
پھر تو میرے غمگیں خاطر کی منھ مانگی خواہش بر آئے
میرا نصیبہ ہو اور اخؔتر بے سائے کے لطف کے سائے

...

کوئے طیبہ کی یاد جب آئے

کوئے طیبہ کی یاد جب آئے
کیوں نہ پہلو میں دل تڑپ جائے
انکے ہونٹوں پہ گر ہنستی آئے
چاند کی چاندنی بھی شرمائے
تیرے منگتا اے کملیا والے
ہیں تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے
اس کو اپنی خبر؟ معاذ اللہ
نگۂ ناز جس پہ پڑجائے
دست رحمت کو یہ گوارہ کہاں
خالی چوکھٹ سے کوئی پھر جائے
نوک غمزہ پہ کچھ ستارے ہیں
ان کی فرقت کے یہ ہیں سرمائے
دل میں وہ آنکھ کے دریچوں سے
مسکراتے ہوئے اتر آئے
آج پھرتے ہیں ان کے دیوانے
تخت و تاج شہی کو ٹھکرائے
کیا کریں ہم فراق کے مارے
جب مدینے کی یاد تڑپائے
دیکھ کر سبز جالیوں کا سماں
گلشن خلد کیوں نہ للچائے
وہ محمدﷺ کا آستانہ ہے
خود بخود سر جہاں پہ جھک جائے
رہ کے طیبہ سے دور جو گزرے
ہم تو اس زندگی سے باز آئے
بول اٹھیں انکی رحمتیں اخؔتر
ہر مصیبت زدہ ادھر آئے

...

غم کے مارو مسکرانے کا زمانہ آگیا

غم کے مارو مسکرانے کا زمانہ آگیا
عندلیبو! چہچہانے کا زمانہ آگیا
جس نے گرد کوئے جاناں سیکڑوں چکر کئے
اس قدم پر سر جھکانے کا زمانہ آگیا
بارگاہ نور رب العالمینﷺ سے آگئے
اپنی قسمت جگمگانے کا زمانہ آگیا
لیکے رحمت رحمتِ عالمﷺ کے در سے آگئے
بحرِ رحمت میں نہانے کا زمانہ آگیا
دیکھئے ہوتی ہے کس جانب نگاہِ نازنیں
اپنی قسمت آزمانے کا زمانہ آگیا

...

زینتِ دوسرا آیئے

زینتِ دوسرا آیئے
اے حبیب خداﷺ آیئے
رو رہی ہے میری زندگی
رحمتِ کبریاﷺ آیئے
ڈوب جائے نہ کشتی کہیں
اے مرے ناخداﷺ آیئے
کب تک آخر بھٹکتا رہوں
نور رَبّ العلاﷺ آیئے
گل نہ ہوجائے شمع امید
جلد بہر خداﷺ آیئے
ہوں گرفتار در دو الم
دافع ھربلاﷺ آیئے
کیا کہے اخؔتر مضمحل
ہے یہی التجا آیئے

...

ہیں اشک رواں آنکھ سے دل سوز ہیں نالے

ہیں اشک رواں آنکھ سے دل سوز ہیں نالے
افکار زمانہ سے مجھے آکے بچالے
اے کملیا والے
ہے قلزم الحاد میں اسلام کی کشتی
ایسا نہ ہو گودوں میں بھنور اس کو چھپالے
اے کملیا والے
گرتی ہے اگر برق تو برخرمن مسلم
گرتونہ سنبھالے تو بھلا کون سنبھالے
اے کملیا والے
اخؔتر ہے غریق غم و آلام سراپا
للّلہ اسے کوچۂ طیبہ میں بلالے
اے کملیا والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...