شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں  

اس روئے والضحیٰ کی صفا کچھ نہ پوچھئے

اس روئے والضحیٰ کی صفا کچھ نہ پوچھئے
آئینہ جمال خدا کچھ نہ پوچھئے
ہم سے سیاہ بختوں کو سائے میں لے لیا
فضل سحاب زلفِ دوتا کچھ نہ پوچھئے
قوسین پر وہ نورِ اَو ادنیٰ میں چھپ گئے
پھر کیا ہوا ہوا جو ہوا کچھ نہ پوچھئے
ان کے حضور ہاتھ اٹھانے کی دیر تھی
پھر کیا ملا ملا جو ملا کچھ نہ پوچھئے
اپنے کو دے دیا ہمیں خواجہ﷫ کی شکل میں
میرے نبیﷺ کی شان عطا کچھ نہ پوچھئے
وہ آخری گھڑی میری بالیں پہ آگئے
حیرت سے تک رہی تھی قضا کچھ نہ پوچھئے
خواجہ﷫ کے درکا ایک میں ادنیٰ غلام ہوں
آزاد ہوں بس اس کے سوا کچھ نہ پوچھئے
آواز دے رہا ہے یمن کا غریق عشق
فرقت کے روز و شب کا مزا کچھ نہ پوچھئے
اخؔتر فضائے خلد بریں خوب ترسہی
شہر نبیﷺ کی آب و ہوا کچھ نہ پوچھئے

...

ذکر جہاں میں ہم سب پڑکر کیوں ضائع لمحات کریں

ذکر جہاں میں ہم سب پڑکر کیوں ضائع لمحات کریں
آؤ پڑھیں والشّمس کی سورت روئے نبی ﷺکی بات کریں
جن کے آنے کی برکت سے دھرتی کی تقدیر کھلی
آؤ ہم سب ان چرنوں پر جان و دل سوغات کریں
نور خدا ہے نور نبی ہے نور ہے دیں اور نور کتاب
ہم ایسے روشن قسمت کیوں تاریکی کی بات کریں
رحمت والے پیارے نبی ﷺ پر پڑھتے رہو دن رات درود
آؤ لوگوں اپنے اوپر رحمت کی برسات کریں
کیا یہ صورت ان کو دکھانے کے لائق ہے غور کرو
سامنے ان کے ہوں شرمندہ کیوں ایسے حالات کریں
قبر میں ھَاھَالَااَدْرِیْ کہنے کی رسوائی سے بچو
بگڑی حالت کب بنتی ہے چاہے لاکھ ھَیْھَاتَ کریں
اہل عشق گزر جاتے ہیں دارونار کی منزل سے
اہل خرد کے بس میں نہیں ہے اہل عشق کی مات کریں
رات پر ان کی زلف کے سائے دن عارض کا صدقہ لائے
کیوں نہ پھر انکے دیوانے یاد انھیں دن رات کریں
یہ لذّات کی دنیا کب تک؟ اس کی اسیری ٹھیک نہیں
آؤ سمجھ سے کام لیں اخؔتر خود کو طالب ذات کریں

...

وہ مری جان بھی جان کی جان بھی میرا ایمان بھی روح ایمان بھی

وہ مری جان بھی جان کی جان بھی میرا ایمان بھی روح ایمان بھی
مہبط وحئی آیات قرآن بھی اور قرآن بھی روح قرآن بھی
نور و بشریٰ کا یہ امتزاج حسیں جیسے انگشتری میں چمکتا نگیں
عالم نور میں نور رحمٰن بھی عالم اِنس میں پیک انسان بھی
نے نبیﷺ کو ملی وسعتِ دم زدن نہ ملک کی زباں کو مجال سخن
لی مَعَ اللہ وَقتٌ سے ظاہر ہوا ہے تمہارے لئے ایک وہ آن بھی
مجھ سے مت پوچھ معراج کا واقعہ ہے مشیت کے رازوں کا اِک سلسلہ
دل کو ان کی رسائی پہ ایمان بھی عقل ایسی رسائی پہ حیران بھی
کیا بتاؤں قیامت کا میں ماجرا رحمتوں غفلتوں کا ہے اک معرکہ
دل کو انکی شفاعت پہ ایمان بھی عقل اپنے کئے پر پشیمان بھی
ناز سے اک دن آپ نے یہ کہا یہ بتا طائر سدرۃالمنتہیٰ
ہے ترے سامنے عالم کن فکاں تو نے پائی کسی میں مری شان بھی
بولے یہ حضرت جبرائیل امیں  اے نگاہ مشیت کے زہرہ جبیں
ہوتر امثل کوئی، کبھی اور کہیں رب نے رکھا نہیں اس کا امکان بھی
انکی رحمت یہ اخؔتر دل و جاں فدا جن کو کہتا ہے سارا جہاں مصطفیٰﷺ
گو  میری زندگی ان سے غافل رہی وہ نہ غافل رہے مجھ سے اک آن بھی

...

اس دیارِ قدس میں لازم ہے اے دل احتیاط

اس دیارِ قدس میں لازم ہے اے دل احتیاط
بے ادب ہیں کر نہیں پاتے جو غافل احتیاط
جی میں آتا ہے لپٹ جاؤں مزار پاک سے
کیا کروں ہے میرے ارمانوں کی قاتل احتیاط
اضطراب عشق کا اظہار ہو بے حرف و صوت
اے غم دل احتیاط اے وحشت دل احتیاط
عشق کی خودرفتگی بھی حسن سے کچھ کم نہیں
ہے مگر اس حسن کے رخسار کا تل احتیاط
انکے دامن تک پہونچ جائیں نہ چھینٹیں خون کی
ہے تڑپنے میں لازم مرغ بسمل احتیاط
آبتاؤں تجھ کو میں ارشاد اَوْادنیٰ کا راز
ان کے ذکر قرب میں لازم ہے کامل احتیاط
صرف سدرہ تک رفاقت اور پھر عذر لطیف
عقل والو ہے ادائے عقل کامل احتیاط
بس اسی کو ہے ثنائے مصطفیٰﷺ لکھنے کا حق
جس قلم کی روشنائی میں ہو شامل احتیاط
نام پر توحید کے انکار تعظیم رسولﷺ
کیا غضب ہے کفر کو کہتے ہیں جاہل احتیاط
اس ادب نا آشنا ماحول میں اخؔتر کہیں
رہ نہ جائے ہو کے مثل حرف باطل احتیاط

...

میری موت پہ نہ جاؤ مری موت اک گھڑی ہے

میری موت پہ نہ جاؤ مری موت اک گھڑی ہے
میں غلام مصطفیﷺ ہوں مری زندگی بڑی ہے
یہ زمانے والے کہد و مرے سامنے نہ آئیں
میں گدائے مصطفیٰﷺ ہوں مجھے ان سے کیا پڑی ہے
تری رحمتوں کے جلوے مری غفلتوں کے کھٹکے
ایک عجیب ملتقیٰ پر مری زندگی کھڑی ہے
دم نزع آکے دیجے غم و خوف سے رہائی
میرے حق میں میر ے آقاﷺ یہ گھڑی بڑی کڑی ہے
وہ حقیقتہ الحقائق جو ہے افضل الخلائق
اسے اپنا سا جو سمجھے وہ دماغ کاسِڑی ہے
نہ طلاقت لسانی نہ جسارتِ نظارہ
کیا بتاؤں اپنی حالت نظر ان سے جب لڑی ہے
غمِ فرقت نبیﷺ میں جو نظر بہائے آنسو
ہے خدا گواہ اخؔتر وہ نصیب کی بڑی ہے

...

روشن زمیں ہوئی تو حسیں آسماں ہوا

روشن زمیں ہوئی تو حسیں آسماں ہوا
نورِ رخِ نبیﷺ سے منور جہاں ہوا
صد شکر اے وفورِ مسرت کے آنسوؤں
دامانِ عشق غیرتِ ہفت آسماں ہوا
مٹ کے غبار راہ دیار نبیﷺ بنا
میں یوں شریک قافلئہ کہکشاں ہوا
کیا خوب ہے کمال تصرف کی یہ مثال
پروردۂ نبیﷺ پہ خدا کا گماں ہوا
چشم علی میں کیوں نہ ہوں یکساں شہود و غیب
زیب نگاہ کحل لعاب دہاں ہوا
نعت رسولﷺ آیۂ رحمت کا ہے کرم
میں ہم زبان انجمن قدسیاں ہوا
اخؔتر یہ راز فہم بشر کیا سمجھ سکے
کیسے مکان(۱) زیب دۂ لامکاں ہوا
 

مکان  سے مراد آپﷺ کا لباس بشری ہے۔ نور محمدیﷺ جس میں مکین ہے

...

صرف اتنا ہی نہیں غم سے رہائی مل جائے

صرف اتنا ہی نہیں غم سے رہائی مل جائے
وہ جو مل جائیں تو پھر ساری خدائی مل جائے
میں یہ سمجھوں گا مجھے دولتِ کونین ملی
راہ طیبہ کی اگر آبلہ پائی مل جائے
دور رکھنا ہو تو پھر جذب اویسی دیدو
تاکہ مجھ کو بھی تو کچھ کیف جدائی مل جائے
عرش بھی سمجھے ہوئی اس کو بھی معراج نصیب
ان کے دیوانے کے دل تک جو رسائی مل جائے
ہو عطا ہم کو بھی سرکار عبادت کا شعور
ہم کو بھی ذائقہ ناصیہ سائی مل جائے
اللہ اللہ رے اس عارض والشّمس کا نور
جس پہ پڑجائے اسے دل کی صفائی مل جائے
جس کو سہنا نہ پڑے پھر الم ہجر و فراق
اخؔتر خستہ جگر کو وہ رسائی مل جائے

...

بنی ہے مرکز چشم زمانہ بے خودی اپنی

بنی ہے مرکز چشم زمانہ بے خودی اپنی
بڑھادی ہے کسی کی دلکشی نے دلکشی اپنی
ہمیں کافی ہے بس فکر و نظر کی روشنی اپنی
نہ دے اے چاند ہم کو چار دن کی چاندنی اپنی
میرا گھر پھوکنے والے بڑا ممنون ہوں تیرا
چمن کی تیرگی کو چاہئے تھی روشنی اپنی
فراق یار ! ان آنکھوں کا پتھرانا بھی کیا شئے ہے
نہ شب کی تیرگی اپنی نہ دن کہ روشنی اپنی
سرمژگاں پہ کچھ سیال موتی جگمگاتے ہیں
اسے میں روشنی ان کی کہوں یا روشنی اپنی
میرے اعمال کس لائق ہیں بس اک آسرا یہ ہے
بڑے ہی بخشنے والے سے ہے وابستگی اپنی
کسی دستِ کرم کا ایک جرعہ ہم کو کافی ہے
مٹے گی جام و ساغر سے کہیں تشنہ لبی اپنی
زمانہ لاکھ چاہے ہم کبھی مرجھا نہیں سکتے
خدا کے فضل سے باقی رہے گی تازگی اپنی
پرِ پرواز اس کے ہم نے خود ہی کاٹ ڈالے ہیں
فلک کو بھی نہیں خاطر میں لاتی تھی خودی اپنی
خود اپنے ضعفِ ایمان و عمل نے کردیا پیچھے
زمانہ کی قیادت کر رہی تھی آگہی اپنی
میرے اشعار کو میزان فن پر تولنے والو
فقط دل کی تسلی کے لئے ہے شاعری اپنی
پتہ دیتی ہے اس خورشید کا میری درخشانی
میں اخؔتر ہوں نہیں یہ روشنی ہے روشنی اپنی

...

نگاہ ہے سر مگیں تمہاری

نگاہ ہے سر مگیں تمہاری
مہ منوّر جبیں تمہاری
شبیہہ کوئی نہیں تمہاری
کہ نازش گل عذار ہو تم
اگر تمہارا ہو اک اشارہ
فلک سے میں نوچ لاؤں تارا
قمر بھی سینہ کرے دو پارا
قرار لیل و نہار ہو تم
چمن کی رنگینیاں تمہیں سے
گلوں میں رعنائیاں تمہیں سے
مہک رہا ہے جہاں تمہیں سے
مرے چمن کی بہار ہو تم
ہمیں ہے بس آپ کا سہارا
جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
توئی سفینہ توئی کنارا
ہمارا دارومدار ہو تم
اگر ہنسو تم جہان ہنس دے
جہاں کیا رب جہان ہنس دے
زمین ہنس سے زمان ہنس دے
زمانے بھر کا قرار ہو تم
یہ مانا کوئی خلیل نکلا
کوئی کلیم جلیل نکلا
کوئی مسیح جمیل نکلا
حبیب پروردگارﷺ ہو تم
جو تم کو دیکھے خدا کو دیکھے
جو تم کو سمجھے خدا کو سمجھے
جو تم کو چاہے خدا کو چاہئے
کہ مرأۃ حسن یار ہو تم
زمیں پہ ہے تیز گام کوئی
فلک پہ محو خرام کوئی
خدا سے ہے ہم کلام کوئی
وہ نازش گل عذار ہو تم
ہے کس کا آج عرش پر بلاوا
براق کس کے لئے ہے آیا
ہے کس کا پا اور رخ فرشتہ
وہ مرأۃ حسن یار ہو تم
تجھے خدا کے سوا نہ جانا
وہ خواہ انسان ہو یا فرشتہ
ہو چاہے بوبکر سا دل آرا
وہ دل کا میرے قرار ہو تم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

تمہاری آمد لئے ہوئے ہے نوید صبح بہار ساقی

تمہاری آمد لئے ہوئے ہے نوید صبح بہار ساقی
گلوں کے لب پہ ہے مسکراہٹ غریق شادی ہیں خار ساقی
کہاں تلک ہائے رے تحمل کہاں تلک ہائے صبر و پیہم
ذرا چلے دور جام رنگیں غضب ہے اب انتظار ساقی
خرد نے کی لاکھ سعی پیہم نہ مل سکا جادۂ تمنا
خود آئی منزل پکارتے ہم چلے جو دیوانہ وار ساقی
اگر پلک کو ہو ایک جنبش تو ڈوبتا مہر لوٹ آئے
ترے اشارے پہ ہے نچھاور یہ دور لیل و نہار ساقی
کرشمۂ چشم مست دیکھے زمانہ آبے حجاب ہوکر
ہو شعلہ ریزی خزاں کی وجہ نمود صبح بہار ساقی
سنا ہے دارسنان ابروتراش دیتا ہے انگلیوں کو
مگر تری جنبش نظر پہ سردوعالم نثار ساقی
ہٹا کے پردوں کو روئے انور سے اس طرف کا بھی دیکھ منظر
ہیں طالب دید ایستادہ قطار اندر قطار ساقی
ہماری تشنہ لبی میں مضمر تمہاری توہین ہے سراسر
گواہ ہے خشت میکدہ بھی کہ ہوں ترا بادہ خوار ساقی
ہے شانِ محبوبیت نمایاں تری اداؤں سے مثل خاور
ترا تبسم فروغ ہستی تو نازشِ گل عذار ساقی
لرز اٹھے تارعنکبوتی کے مثل ایوان باطلوں کے
تری صدا ہے قسم خدا کی صدائے پروردگار ساقی
اگر نگاہ کرم اٹھے تو گناہ گاروں کی بھی بن آئے
خدا نے بخشا ہے تجھ کو سارے جہان کا اختیار ساقی
تمہارے تلووں پہ جب نچھاور ہے حسن اخؔتر جمال خاور
تم اور تشبیہہ آفتابی ہو کیسے پھر خوشگوار ساقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...