شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں  

صبا بصد شان دلربائی ثنائے رب گنگنا رہی ہے

صبا بصد شان دلربائی ثنائے رب گنگنا رہی ہے
کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ مدینے سے آرہی ہے
مجھے مبارک یہ ناتوانی سہارا دینے وہ اٹھ کے آئے
خرد ہے حیراں کہ اِک توانا  کو نا توانی اُٹھا رہی ہے
میں ان عنایات پر نچھاور کبھی نہ رکھا رہین ساغر
نگاہ نوری کا پھر کرم ہے نگاہ نوری پلا رہی ہے
کہیں نہ رہ جائیں ہم خود اپنی ہی حسرتوں کا
مزار بنکر
ہماری شمع اُمید کی لو حضور اب جھلملا رہی ہے
زیارت قبر مصطفیٰﷺ ہے شفاعت مصطفیٰﷺ کی ضامن
ہم عاصیوں کو بڑی محبت سے انکی رحمت بلا رہی ہے
سیاہ زلفیں سیاہ کملی سیاہ بختوں کو ہو مبارک
سیاہ بختی کو رحم والی سیاہی کیسا چھپا رہی ہے
حضورﷺ مجھ سے وہ کام لیجئے جو قلب انور کو شاد کردے
یہی مری آرزو رہی ہے یہی مری التجا رہی ہے
نہ کیوں ہو وہ بخت کا سکندر کہ جسکی جاں اسکے تن سے باہر
گئی تو بہر خدا گئی ہے رہی تو بہر خدا رہی ہے
نگاہ ادراک میں دیار نبیﷺ کے جلوے سماگئے ہیں
نہ پوچھو اخؔتر ہماری بزم خیال کیوں جگمگا رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

پشیماں نہ ہوں شرمساروں سے کہدو

پشیماں نہ ہوں شرمساروں سے کہدو
نبیﷺ آگئے غم کے ماروں سے کہدو
مجھے بھاگئے ہیں کھجوروں کے جھرمٹ
ذرا خلد کے سبزہ زاروں سے کہدو
محمدﷺ چلے ہیں سوئے عرشِ اعظم
ادب سے رہیں چاند تاروں سے کہدو
زمانے کے اندھوں کو احمد کی منزل
بتادیں ذرا تیس پاروں سے کہدو
مجھے خواب ہی میں نظارہ کرادیں
مدینے کے دلکش نظاروں سے کہدو
ذرا چھیڑدیں نغمۂ نعت احمد
میری زندگی کے ستاروں سے کہدو
ہے جان گلستاں کی آمد چمن میں
ہوں جاروب کش نو بہاروں سے کہدو
یہی تو ہیں اخؔتر مری زندگانی
نہ ہوں سرد دل کے شراروں سے کہدو

...

زہے تقدیر بیمار محبت چارہ گر آیا

زہے تقدیر بیمار محبت چارہ گر آیا
سکوں جان عالم راحت قلب و نظر آیا
نظر مائل بہ گریہ تھی وفور شادانی سے
عجب تھا ماجرا پیش نظر جب تیرا در آیا
فلک پر بنکے چمکے مثل خاور سارے پیغبر
محمد مصطفیٰﷺ لیکن باندازدگر آیا
مٹانے فتنہ انگیزی زمانے کی زمانے سے
کنار آمنہ﷝ میں امن کا پیغامبرﷺ آیا
عجب انداز سے توحید کا گاتا ہوا نغمہ
نواسنج گلستان براہیمی ادھر آیا
جب آئے جلوہ گاہ رب میں موسیٰ ہوگئے بیخود
تبسم تھا لبوں پر جب وہاں خیر البشر آیا
کہیں واللیل کا منظر کہیں والشّمس کے جلوے
نظارہ انکی زلف ورخ میں نظروں کو نظر آیا
کلام اللہ تو کہتا ہے ان کو نور یزدانی
مگر کہتے ہیں اہل شر انہیں مجھ سا بشر آیا
تری نغمہ سرائی پر اثر ثابت ہوئی اخؔتر
زبان اہل محفل بول اٹھی نغمہ گر آیا

...

ہم غریبوں کا آسرا تم ہو

ہم غریبوں کا آسرا تم ہو
بزم کونین کی ضیا تم ہو
کون ہے میری زندگی کی بہار
راز پہناں سے آشنا تم ہو
ہوگیا نازش دو عالم وہ
جس کو کہدو مِرے دوا تم ہو
اس طرف بھی ذرا نگاہ کرم
درد دل کی مِرے دوا تم ہو
میرے دل کو ہو خوف رہزن کیوں
جبکہ خود میرے رہنما تم ہو
عکس ہے تیرا شیشۂ دل میں
مرے دل سے کہاں جدا تم ہو
ہم غریبوں کی جھولیاں بھر دو
بحر جود و سخا شہا تم ہو
پھر بھلا خوف موج طوفاں کیا
میری کشتی کے ناخدا تم ہو
بختِ اخؔتر بھی جگمگا اُٹھا
ملتفت جب سے باخدا تم ہو!

...

ہوا ہے ضوفگن نور رسالتﷺ بزم امکاں میں

ہوا ہے ضوفگن نور رسالتﷺ بزم امکاں میں
کلی چٹکی کھلے غنچے بہار آئی گلستاں میں
ادھر شیطاں سراپا غرق ہے بحرِ خجالت میں
ادھر صلٌ علیٰ کا شور برپا ہے گلستاں میں
درخشانی یہ اس خورشید کی ہے جس کی آمد سے
تزلزل آگیا ہے قیصر و کسریٰ کے ایواں میں
محمدﷺ یا محمدﷺ کی صدا آتی ہے گلشن سے
ہے میلادالنبیﷺ کا جسن بزم عندلیباں میں

...

بجھ گئی عشق کی آگ اندھیر ہے وہ حرات گئی وہ شرارہ گیا

بجھ گئی عشق کی آگ اندھیر ہے وہ حرات گئی وہ شرارہ گیا
دعوتِ حسن کردار بے سود ہے تھا جو حسنِ عمل کا سہارا گیا
جس میں پاس شریعت نہ خوف خدا وہ رہا کیا رہا وہ گیا کیا گیا
ایک تصویر تھی جو مٹادی گئی یہ غلط ہے مسلمان مارا گیا
بدنصیبو! شہنشاہ کونینﷺ سے صاحب قربت قاب قوسین سے
تم نے کی دشمنی ہم نے کی دوستی کیا تمہیں مل گیا کیا ہمارا گیا
اے مری قوم کے زاہد و عالمو نخوتِ زہد و دانش بری چیز ہے
کیا مجھے یہ بتانا پڑے گا تمہیں کس سبب سے عزازیل مارا گیا
دوستو! وہ بھی مرنا ہے مرنا کوئی رشک کرتی ہو جس موت پر زندگی
خاک طیبہ میں میرے عناصر ملے عرش پر میری قسمت کاتارا گیا
مرکے طیبہ میں اخؔتر یہ ظاہر ہوا کچھ نہیں فرش سے عرش کا فاصلہ
گود میں لے لیا رفعت عرش نے قبر میں جس گھڑی میں اتارا گیا

...

آگئے ہیں وہ زلفیں بکھیرے

آگئے ہیں وہ زلفیں بکھیرے
جن پہ صدقے اُجالے اندھیرے
عرش حق جھوم اٹھا لیا جب
نام احمد سویرے سویرے
وہ سراپا ہیں نور الہیٰ
یہ نہ کہنا کہ ہیں مثل میرے
فرش والے بھی اور چرخ والے
ان کے در پہ لگاتے ہیں پھیرے
گرد مہتاب جیسے ہوں تارے
یوں صحابہ ﷢ نبیﷺ کو ہیں گھیرے
ربط ہے ایسے در سے ہمارا
جن کے تابع اجالے اندھیرے
پھر ہو کیوں آرزوئے دو عالم
جب کہ اخؔتر محمدﷺ ہیں میرے

...

ہے شانِ درمصطفیٰﷺ کیا نرالی

ہے شانِ درمصطفیٰﷺ کیا نرالی
کہیں سبز گنبد کہیں سبز جالی
بہ پیش ضیائے غبار مدینہ
مہ چاردہ نے بھی گردن جھکالی
ہماری سمجھ میں یہ اب تک نہ آیا
یہ شب ہے کہ ہے عکس گیسوئے عالی
سلامت رہے کالی کملی تمہاری
ہم ایسوں کی بھی روسیاہی چھپالی
قسم ہے خدا کی درِ مصطفیٰﷺ کا
زمیں تو زمیں آسماں ہے سوالی
قمر اپنے سینے کو دو نیم کر دے
جو حرکت میں آئے کمانِ ھلالی
کہاں کوئی مخلوق ہے آپ جیسی
ہے ضرب المثل آپ کی بے مثالی
ہو خاموش اخؔتر یہ جائے ادب ہے
ہے پیش نظر دیکھ روضے کی جالی

...

اے باد صبا رک جا دم بھر سن لے تو میری فریاد و فغاں

اے باد صبا رک جا دم بھر سن لے تو میری فریاد و فغاں
سلطانِ دو عالمﷺ کے در پر کر دینا تو ان باتوں کو عیاں
میں اپنے کئے پر نادم ہوں لللّہ چھپالو دامن میں
اظہار خطا سے کیا ہوگا اے واقف اسرارِ پنہاں
یہ شام و سحر یہ تاج و قمر یہ فرشِ زمیں یہ عرش بریں
یہ جن و ملک جبریل امیں سب تیرے ہیں زیر فرماں
ہر سمت سے موجیں اٹھتی ہیں اک ایک سہارا ٹوٹ گیا
ساحل سے لگا دو کشتی کو اے شاہ رسل اے شاہ زماں
کہنا کہ تڑپتا ہے اخؔتر بلوالو اسے در پر سرور
یا اتنا بتا دے اے مولا یہ تیراگدا اب جائے کہاں

...

عروج آسماں کو بھی نہیں خاطر میں لائیں گے

عروج آسماں کو بھی نہیں خاطر میں لائیں گے
مقدر سے اگر دوگز زمیں طیبہ میں پائیں گے
مدینے میں سنا ہے بگڑیاں بنتی ہیں قسمت کی
وہاں ہم جا کے اپنا بھی مقدر آزمائیں گے
اگر کل جان جانی ہو تو یارب آج ہی جائے
سنا ہے قبر میں بے پردہ وہ تشریف لائیں گے
کبھی میرا دل مضطر نہ ہونا کامراں یارب
ذرا ہم بھی تو دیکھیں وہ کہاں تک آزمائیں گے
قسم ہے مالک یوم قیامت کی قیامت میں
مرادیں اپنے دل کی ساقئ کوثر سے پائیں گے
مرا دل بن گیا ہے آستانِ صاحب اسریٰ
یہی کعبہ ہے اپنا ہم اسے کعبہ بنائیں گے
بھلا کیا تاب لائے گی نگاہِ حضرت موسیٰ 
رخِ انور سے وہ اخؔتر اگر پردہ ہٹائیں گے

...