شہِ کونین آئے دو جہاں کا مُدّعا بن کر
شہِ کونین آئے دو جہاں کا مُدّعا بن کر
دوا بن کر، شفا بن کر، کرم کی انتہا بن کر
...
شہِ کونین آئے دو جہاں کا مُدّعا بن کر
دوا بن کر، شفا بن کر، کرم کی انتہا بن کر
...
وہ جہاں ہیں مری نسبت ہے وہاں سے پہلے
حسرتِ خلد مدینہ ہے جِناں سے پہلے
...
آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے
سرکار کے قدم مری قسمت بَدل گئے
...
مقدّر آج کتنے اَوج پر ہے
جبیں میری نبی کا سنگ ِ در ہے
...
جب کبھی جانبِ سرکارِ مدینہ دیکھا
میں نے دیدار ِ خدا کا بھی قرینہ دیکھا
...
رسائی ہے مری اس آستاں تک
جہاں خم ہے جبین ِ آسماں تک
...
حبیبِ حق پہ دِل و جاں سے جو نثار ہوئے
اِنہیں پہ راز ِ حقیقت کے آشکار ہوئے
...
دربار نبی میں جھکتے ہی تابندہ جبیں ہوجاتی ہے
جب اُن کا کرم ہو جاتا ہے تقدیر حَسین ہو جاتی ہے
...
اُٹھی نظر تو روئے نبی پر ٹھہر گئی
دل کیا سنور گیا مری قسمت سنور گئی
...
ہر کلی دل کی مسکرائی ہے
جب مدینے کی یاد آئی ہے
...