پارۂ دل  

میرے نوشاہ کی دل ربائی

سِہرا بانداز غزل

میرے نوشاہ کی دل ربائی
چاندنی دیکھ کر مسکرائی
بزم کی بزم ہے عطر آگیں
ایسی سہرے میں خوشبو سمائی
بس لچکنا تھا سہرے کا رخ پر
دو دلوں کی کلی مسکرائی
آج خوش خوش نسیمِ سحر بھی
مژدۂ جانفزا لے کے آئی
وجد میں سن کے ہر اک کلی ہے
اہل محفل کی نغمہ سرائی
میرے نوشہ کی دلکش ادائیں
جس کو دیکھو وہی ہے فدائی
دولہا دولہن کو ہوئے مبارک
ان کی ساکت تمنا برآئی
اس طرف تاب دست محبت
اور اس سمت دست حنائی
کہہ اٹھے اہل محفل بھی اخؔتر
خوب تو نے غزل گنگنائی

...

اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل

سہرا

اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل
بہہ رہی ہے ہرطرف کیف و طرب کی سلسبیل
دیدۂ مشتاق میں کحل مسرت کی لکیر
ہے کسی زہرہ جبیں کی رونمائی کی دلیل
بے ربانئ لب غنچہ پہ قربان جائیے
راز الفت آشکارا کردئیے بے قال و قیل
اس طرف ہے دجلۂ عشق و محبت موجزن
اور اس جانب حیا و شرم کی پاکیزہ نیل

 

دلربا و دلنواز و دل نشیں سہرے میں ہے
باغ احمد کا گل ناز آفریں سہرے میں ہے
ہر طرف چھٹکی نظر آتی ہے کیسی چاندنی
ہو نہ ہو ماہِ درخشندہ جبیں سہرے میں ہے
ہے یہ تیری ہی عنایت اے نصیر کائنات
حافظ سنت بصد حسن یقیں سہرے میں ہے
غسل لبہائے حسیں صہبائے چشم نازنین
قاؔسم فیض شراب و انگبیں سہرے میں ہے

 

 

تجھ میں اے دوشیزۂ الفت بڑا اعجاز ہے
ساز گل سوز عنادل آج ہم آواز ہے
ایک ہی در اصل مرکز ہے نیاز و ناز کا
یوں تو کہنے کیلئے ایک سوز ہے ایک ساز ہے
روکش حسن قمر رشک جمال کہکشاں
یہ مرا نوشاہ جیتا جاگتا اعجاز ہے
دو دلوں کے درمیاں کوئی دوئی حائل نہیں
یہ کشش ہے حسن کی یا عشق کی پرواز ہے



ہر رگ گل سے نمایاں ہے ادائے شاکری
اللہ اللہ رے ترے سہرے کی روشن اختری
عارض انور کی نور افشانیاں مت پوچھئے
ہے عرق آلود سیمائے جمال خووری
غنچہ غنچہ عارف اسرارما طالب لکم
ڈالی ڈالی آسیہ ہائے قصور دلبری
زیب فرق ناز ہے حسن احسن الاقبال ہے
کس قدر حیرت فزا ہے عشق کی جادوگری

 

ساغر گل میں تلاطم خیز ہے موج نشاط
پتی پتی شبنم افشائے شراب انبساط
رفعت آفاق حسن دلربا ممکن نہیں
بچھ نہ جائے جب تک اختر عشق کی رنگیں بساط
حسن گر ہے چاند تو ہے عشق اس کی چاندنی
چاندنی سے چاند ہوتا ہے کہیں بے ارتباط
کہہ رہی ہے کونپلیں بن جادہ پیمائے مجاز
گرحقیقت سے تجھے ہونا ہے سرشار نشاط

...

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا

سہرا

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا
حسن خود ناصیۂ عشق پہ ضوبار ہوا
اللہ اللہ رے سہرے کا جمال رنگیں
نکہت خلد بیاں نزہتِ افکار ہوا
از زمیں تابہ فلک ایک تعطر کاسماں
روکشِ باد بہاری ہے فضا آج کے دن
کس نے زلفوں کو بکھیرا ہے بصد ناز وادا
شوخ و چنچل ہوئی جاتی ہے ہوا آج کے دن
برق چشمان حسیں مہر عذار رنگیں
اپنے پردے میں چھپائے ہے قیامت سہرا
ساغر گل میں ہے صہبائے شریعت رقصاں
شرح ماطاب لکم حامل سنت سہرا
ہے یہ گلزار وصؔی شہ ابرار کا پھول
جس نے گیتی کو مہکنے کا سبق سکھلایا
فکر و جداں کی قنادیل فروزاں کرکے
تیرہ سامانئ ماحول کی پلٹی کایا
کوثری جام لئے ساغر تسنیم لئے
تیری آنکھوں نے سکھایا ہے محبت کیا ہے
بربط و عود و چراغ و دف و افسانہ و چنگ
آج معلوم ہوئی راہ حقیقت کیا ہے
نغمہ افشاں ہے لب نسترن دردو سمن
خامشی میں بھی بڑی شورش گویائی ہے
اس طرف سوز کے دریا میں تلاطم برپا
اس طرف ساز عروسانہ کی برنائی ہے
اپنے گہوارۂ الفت میں لئے رنگ حنا
تری چوکھٹ پہ شفق بن کے شفیق آئی ہے
کتنے گلہائے عقیدت کا بنا کے مالا
فرط اخلاص و محبت سے یہاں لائی ہے
مرے نو شاہ ضیائے رخ تاباں کی قسم
طلعت حسن ثرّیا تری پروانہ ہے
جذبہ عشق کی اللہ رے عشوہ سازی
رفعت برج سعادت تری دیوانہ ہے
ننھے تاروں کی امیدوں سے شعاعیں پھوٹیں
تو نمود آرا فقط پیکر انسان ہوا
اور انساں نے جب آغوش تمنا واکی
پھر کہیں جاکے کوئی سیّدذی شان ہوا
تابش روئے منور سے گماں ہوتا ہے
فرش گیتی پر اُتر آیا کوئی بدؔر منؔیر
باؔبر و طارقؔ و زہؔرہ کی یہ معصوم دعا
کھینچ دی جس نے نگاہوں میں مسرت کی لکیر
ہو ترا طالع بیدار مبارک تجھ کو
سروری تاج بنے زیب دہ بخت سعید
کیوں نہ سیمائے مسرت سے شعائیں پھوٹھیں
رات اخؔتر ہے شب قدر تو دن نازش عید

...

شہر نبیﷺ تیری گلیوں کا نقشہ ہی کچھ ایسا ھے

نعت شریف

شہر نبیﷺ تیری گلیوں کا نقشہ ہی کچھ ایسا ھے
خلد بھی ھے مشتاقِ زیارت جلوہ ہی کچھ ایسا ھے
دل کو سکوں دے آنکھ کو ٹھنڈک روضہ ہی کچھ ایسا ھے
فرشِ زمین پر عرش بریں ہو لگتا ہی کچھ ایسا ھے
ان کے در پر ایسا جُھکا دل اٹھنے کا اب ہوش نہیں
اہل شریعت ہیں سکتے میں سجدہ ہی کچھ ایسا ھے
لوح و قلم یا عرش بریں ہو سب ہیں اس کے سایے میں
میرے بے سایہ آقا کا سایہ ہی کچھ ایسا ھے
سبطِ نبی﷜وﷺ ھے پُشت نبیﷺ پر اور سجدے کی حالت ھے
آقاﷺ نے تسبیح بڑھادی بیٹا ہی کچھ ایساھے
عرش معلیٰ سر پر اٹھائے طائر سدرہ آنکھ لگائے
پتھر بھی قسمت چمکائے تلوا ہی کچھ ایسا ھے
رب کے سوا دیکھا نہ کسی نے فرشی ہوں یا عرشی ہوں
ان کی حقیقت کے چہرے پر پردہ ہی کچھ ایسا ھے
تاج کو اپنے کاسہ بنا کر حاضر ہیں شاہانِ جہاں
ان کی عطا ہی کچھ ایسی ھے صدقہ ہی کچھ ایسا ھے
خم ہیں یہاں جمشید و سکندر اس میں کیا حیرانی ھے؟
ان کے غلاموں کا اے اخؔتر رتبہ ہی کچھ ایسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...