لوگ کہتے ہیں بصد فخر و مباہات اختر اک حسینہ سر بازار بنی ہے رانی دودھ سے چہرہ وہ دھوتی ہے بجائے پانی اس کی دنیا میں اندھیرے کا کوئی نام نہیں اس کے ہاتھوں میں مصیبت کا کوئی جام نہیں اس کی تقدیر کا تابندہ ہوا سیارہ اژدھے رنج و الم کے ہوئے نودو گیارہ اسکے حق میں شب تیرہ بھی ہے صبح رخشاں ہر درد بام پہ ہیں مہر و قمر آویزاں اس کی دنیا میں ترنم کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے ہونٹوں پہ تبسم کے سوا کچھ بھی نہیں میں یہ کہتا ہوں شرافت کا جنازہ نکلا (۲۷ جنوری ۱۹۵۷ء(کچھوچہ فیض آباد) )
لٹ گئی میری تمناؤں کی محفل کیا کروں؟ میرے حق میں ہوگئی تاریک منزل کیا کروں؟ ہوگیا ہوں آج مثل مرغ بسمل کیا کروں؟ اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ تلخ ہی کیا تلخ تر ہے زندگی میرے لئے روشنی خورشید کی ہے تیرگی میرے لئے کم نہیں کانٹوں سے پھولوں کی کلی میرے لئے اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ ناز تھا جن پر مجھے وہ دعوت پیکار دیں جن سے وابستہ تھی گل کی آرزو وہ خار دیں ہائے قسمت! میرے اپنے ہی مجھے دھتکار دیں اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ اللہ اللہ گردشِ ایام کی چنگیزیاں بھائی کے پاؤں میں بھائی ڈالتا ہے بیڑیاں آہ کچھ بھی میل و الفت کا نہیں ملتا نشاں اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ ہوگئی زیر و زبر جب خود شناسی کی بساط پھر بھلا کیسا سوال محفلِ عیش و نشاط سوچتا ہوں یہ ترقی ہے کہ دور انحطاط اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ ہر طرف مایوسیوں کے ابر ہیں چھائے ہوئے ہوگئے گل یک بیک امید کے سارے دیئے سوبسو رنج و الم کے پھر رہے ہیں اژدھے اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ کیا تعجب ہے جو میرا ہمنوا کوئی نہیں بیکسوں کے حق میں ’’پیارے باوفا کوئی نہین‘‘ درد تنہائی کی سچ پوچھو دوا کوئی نہیں اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ آج ہے ہر سمت برپا فتنۂ چنگیز خاں اللہ اللہ پھول بھی ہیں شعلۂ آتش فشاں بلبلوں کی نغمہ ریزی میں بھری ہیں تلخیاں اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ شرق سے جب شرق کے دولہا کی نکلی پالکی کھلکھلا اٹھی گلستاں کی ہر ایک ننھی کلی حیف میرے غنچۂ دل نے نہ پائی تازگی اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ کتنا عبرت ناک ہے ایام کا یہ انقلاب اب طرف ماتم کا ساماں اک طرف چنگ ورباب اک طرف عشرت کا بندہ اک طرف خانہ خراب اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟ آج اخؔتر کیوں؟ دکھائی دے رہا ہے بے قرار بات کیا ہے؟ پھر رہا ہے سوبسو دیوانہ وار اس کے ہونٹوں سے نکلتا ہے یہی کیوں؟ بار بار اے غم دل کیا کروں؟ اے وحشت دل کیا کروں؟
وطن کی صبح و شام کی لطافتوں کو چوم لو گلوں کی مسکراہٹوں نزاکتوں کو چوم لو یہی تو اقتضاء تمہاری زندہ خاطری کا ہے صباحتوں کو چوم لو ملاحتوں کو چوم لو گلوئے کہکشاں میں بڑھ کے اپنے ہاتھ ڈالدو عروج کا غرور اس کے سر سے تم نکال دو لگاؤ جست ایسی برق و باد بھی ہوں خیرہ تر زمیں پہ رہ کے آسماں کی رفعتوں کو چوم لو جہان رستخیز میں ہے صرف قدر دل وہی شہنشہی کے ساتھ ہو غلامئ ایاز بھی عداوتوں کے خوگرو خدا کے واسطے سنو! یہ نفرتیں گناہ ہیں، محبتوں کو چوم لو تمہاری منزلیں ہیں دورکہنہ مہر و ماہ سے فلک بھی پست ہے تمہاری رفعت کلاہ سے یہ نغمے پھوٹ نکلےہیں جہان نو کے ساز سے قدامتوں کو بھول جاؤ جدتوں کو چوم لو کرو حوادثات کا مقابلہ خوشی خوشی تقاضہ زندگی کا ہے یہ اور یہی ہے زندگی الجھنا سیکھو خار سے اگر ہے گل کی آرزو ہے راحتوں کی جستجو تو کلفتوں کو چوم لو ہے ان کے اشتراک ہی سے سوز و ساز زندگی غم و خوشی ہے کوہکن سے پوچھ راز زندگی لبوں پہ ہو ہنسی اور آنکھ بھی ہو اشک سے بھری جھکاؤ سر حضور غم مسرتوں کو چوم لو گریز مصلحت نہیں فرار مستحب نہیں عجب ہے کہ سمجھ میں تیری یہ کوئی غضب نہیں صداقتوں عدالتوں کے مرکزِ نگاہ ہو تمام اپنے دور کی صداقتوں کو چوم لو ترقیوں کی راہ کی صعوبتیں ہیں رحمتیں نقاب مشکلات میں چھپی ہوئی ہیں راحتیں لو کام عزم کوہکن سے گر ہو کوہ سامنے ہزار زحمتیں بھی ہوں تو زحمتوں کو چوم لو ہے یہ بھی خود شناسیوں کی ایک راہ بہتریں نہیں ہے چیز بھولنے کی اس کو بھولنا نہیں نہ مل سکے گا تم کو ورنہ قیمتی سایہ نگیں دراتیوں سے کام لو روائیتوں کو چوم لو فضائے رنگ و بو سے غیر کیوں ہو کیف آشنا بتاؤ کنج بے کسی میں کس لئے ہوں غم نما نہیں روا خود اپنے گلستاں سے ایسی بے رخی چمن فروشیاں بری ہیں نکہتوں کو چوم لو بلک رہی ہے زندگی سِسک رہی ہے زندگی گلوپہ اس کے جھلملا رہی ہے دھارتیغ کی فریب دے کہیں نہ یہ تری تساہلی تجھے یہ وقت ہے کہ وقت کی نزاکتوں کو چوم لو مری نوائے نرم گرم کا یہی ہے ماحصل حوادثات دور کے ہر ایک رخ کو دوبدل ندامتیں اچھال دیں گی تم کو کہکشاں تلک گناہ گار ہو سہی ندامتوں کو چوم لو
غم کے مارو لو مسرت کا پیام آہی گیا آفتاب حریت بالام بام آہی گیا ہو مبارک یہ سرور و انبساط زندگی میکشو! ہونٹوں تک آزادی کا جام آہی گیا برق نے تو لاکھ چاہا تھا کہ رستہ روک دیں آسمانِ حریت پر میرا گام آہی گیا اب شبستانِ وطن کی ظلمتیں کا فور ہیں آسماں پر نیر گردوں خرام آہی گیا آج اپنے ہاتھ میں اپنے وطن کی ہے زمام نالۂ مظلوم آخر کار کام آہی گیا ذلتِ محکومیت سے ہم کو چھٹکارا ملا اپنے ہاتھ اپنے گلستاں کا نظام آہی گیا لو نسیم صبح گاہی لائی پیغام نشید مرحبا وقت وداع وقت شام آہی گیا منھ کی کھانا پڑگیا افرنگیوں کی چال کو خود شکاری آج اخؔتر زیر دام آہی گیا ۲۶ جنوری ۱۹۵۷ء (مبارکپور اعظم گڑھ)
تجھ کو منظور رضائے نگہ جاں نہ سہی تیرے یہ اشک رہین غم جاناں نہ سہی زخم احساس کے ناسور بھی عریاں نہ سہی چاک اے دوست مگر اپنا گریباں بھی نہ کر زیست کو اپنی شکایات کا عنواں بھی نہ کر تجھ کو یہ فکر ہے منزل سے بہت دور ہیں ہم ہمکو یہ غم ہے کہ منزل میں بھی مجبور ہیں ہم نکہت و نور کی دنیا میں بھی بے نور ہیں ہم اب کہاں لطف تگا پوئے دمادم اے دوست زندہ رہ کر کے بھی ہے زیست کا ماتم اے دوست شمع افکار جو خاموش ہوئی ہونے دو جذب و احساس کافقدان ہوا غم نہ کرو باغ تخیل کے تنکوں سے کہو خوب جلو مٹ نہیں سکتی مگر پھر بھی تمہاری ہستی آگ کی آنچ ہیولےٰ پہ نہیں آسکتی میرے ساتھی تجھے معلوم بھی ہے راز بہار؟ صرف رولینے سے آتا نہیں غنچوں میں نکھار روشنی ملتی ہے جب دل کو کرونذر شرار بادِ صر صر کو چلو رشک بہاراں کردیں نار نمرود کو فردوس بداماں کردیں غم کو سینے سے لگا کر ہے سہولت کی تلاش ساعت ہجر سے مت ڈر جو ہے قربت کی تلاش میرے ساتھی ہے اگر زیست کی لذت کی تلاش خون امید کو تم پھول بنانا سیکھو تلخی زیست کو آنکھوں سے لگانا سیکھو ہائے منت کشئ جام و صراحی کیسی؟ انعطش کیسا یہ ساقی کی دہائی کیسی میرے شاعر یہ تری بھیک منگائی کیسی حسن لیلائے حقیقت تو تری ذات میں ہے زیست کا بادۂ رنگین تری بات میں ہے سچ کہا تشنگئ گنگ و جمن باقی ہے احتیاج مئے نغمات کہن باقی ہے بزم تہذیب کے ماتھے پہ شکن باقی ہے ان چٹانوں سے مگر کیسے نکل پائے سکوں زنگ آلود ہوئے تیشۂ احساسِ دروں عہد ماضی کی روایات کہن بھولا کون فکر تخریب میں تعمیر وطن بھولا کون اپنے اسلاف کا سب چال چلن بھولا کون ہم نے اعزاز دیا جن کو وہی لوگ تو ہیں جن سے خود ہم نے کیا پیار وہی روگ تو ہیں لوگ کہتے ہیں کہ آزاد ہے بھارت کی زمیں جانے کیا بات ہے مجھ کو نہیں آتا ہے یقیں تو بھی کہتا ہے فقط ذہن ہی آزاد نہیں تو ہے آزاد بڑی بھول تجھے ہے پیارے دیکھ ہر سو نظر آتے ہیں ترے انگارے اب چراغ سحر آثار رہے یا نہ رہے جلوۂ رفعت افکار رہے یا نہ رہے شعلۂ آتش کردار رہے یا نہ رہے ان اندھیروں میں تجھے راہ بری کرنی ہے برق افکار سے اک جلوہ گری کرنی ہے تجھ کو اے شاعر معصوم خبر ہے کہ نہیں روئے افلاس کی زینت ہے تحمل کانگیں فقر میں فخر کے پنہاں ہے گہرہائے ثمیں قلزم صبر میں تم غوطہ لگانا سیکھو پیٹ کی آگ مرے دوست بجھانا سیکھو تلخئ زیست کا طالب ہے تو دیوانہ بن پھونک دے صاعق و حشت سے خرد کا گلشن تیری ہر چال ہو پیغامبر دارو رسن تجھ کو مرغوب ہے گر ہوش و خرد کی بستی تلخئ زیست تجھے راس نہیں آسکتی وقت کہتا ہے مگر خود کو غزل خواں نہ کرو غمِ جاناں کو شریک غمِ دوراں نہ کرو موربے مایہ کو ہم دوش سلیماں نہ کرو جام کہنہ ہی میں ہے رقص کنا روح حیات ساغر نو میں کہاں پاؤ گے صہبائے ثبات دل اگر شہر خموشاں ہے کوئی غم نہ کرو سونا سونا یہ گلستاں ہے کوئی غم نہ کرو سوز احساس بھی بے جاں ہے کوئی غم نہ کرو ٹمٹماتے ہوئے کہتا ہے چراغِ سحری خاور صبح کی ہونے ہی کو ہے جلوہ گری داغہائے دل مغموم دکھاؤ نہ مجھے خواب امید کی تعبیر بتاؤ نہ مجھے نغمۂ سوز غمِ زیست سناؤ نہ مجھے جذبۂ کوہ کنی ہو تو پھر آؤ آگے میری سوئی ہوئی امید کی قسمت جاگے دلکشی ہے نہ کوئی زیب نہ رعنائی ہے کیا یہی پیارے چمن زار کی برنائی ہے کون کہتا ہے کہ کلیوں کو ہنسی آئی ہے ایسے ماحول میں ماحول چمن پر حیرت میں تو کہتا ہوں کہ ہے تیری سراسر غفلت وقت کہتا ہے کہ ٹھکرا دے رباب و ساغر چھوڑ دے فکر سیہ پوشی جام احمر سوزش دل سے زمانے کو دے انوار سحر تیری تعمیر کا جذبہ نہ ہو ممنون چمن تو قدم رکھ دے تو ہو جائے بیاباں گلشن
سمجھ ہی میں نہیں آتی چمن والوں کی دانائی جہاں پر چاہئے ماتم وہاں بجتی ہے شہنائی چمن پر یہ اثر تیرا پڑا رنگ خود آرائی نہ کوئی دلکشی باقی نہ کوئی زیب و رعنائی
اے مسلماں صیددام خواب غفلت ہوشیار وقت کہتا ہے کہ لے ہاتھوں میں اپنے ذوالفقار اٹھ کہ تجھ کو ہے بدلنا گردشِ لیل و نہار اے محمدﷺ کے سپاہی دین حق کے جاں نثار تھا کبھی تو باعث نقش و نگار گلستاں آج کیوں ہے تنگ گلشن اور عار گلستاں تیری غفلت نے کیا ہے باطلوں کا سر بلند تیری گردن میں حمائل ہے غلامی کی کمند تیری ہستی بن گئی ہے تختۂ مشق گزند پھر رہا ہے آج تو بن کر سراپا درد مند لرزہ براندام جو رہتے تھے تیرے نام سے تھر تھراتا آج تو ہے ان کے چاپ گام سے ہاں تری یہ خانہ جنگی طاقت باطل ہے آج اللہ اللہ بھائی کا خود بھائی ہی قاتل ہے آج سنگدل اپنوں کے حق میں کیوں مثال سل ہے آج دشمنوں کے درمیاں لیکن بہت بزدل ہے آج الاماں صد الاماں تم اور خون اتحاد پیکر رحم و کرم اور مائل بغض و عناد کیا ہوئی تیری اخوت اور شجاعت کیا ہوئی کیا ہوئی تیری صداقت اور سخاوت کیا ہوئی اپنے غیروں سے بھی وہ تیری محبت کیا ہوئی کیا ہوا ذوق شہادت اور عبادت کیا ہوئی تھے تمہیں جس نے لگایا نعرۂ توحید کو زیر خنجر گنگنایا نغمۂ توحید کو جذبۂ طارق نہ تجھ میں ہے نہ جوش خالدی ہے کہاں محمود غزنی کا وہ عزم بت زنی دیکھ کر یہ تیری پسپائی یہ تیری بزدلی قبر میں کیا مضطرب ہوگی نہ روح بن علی باز آ غفلت سے اپنی غافل غفلت پسند تیری گردن میں رہے گی تاکے محکومی کمند خود سے آخر یہ تیری نا آشنائی کب تلک؟ دام غفلت سے بھلا ہوگی رہائی کب تلک؟ تیرے لب پہ اپنے غیروں سے دہائی کب تلک؟ شوکت مسلم کی ہوگی رونمائی کب تلک؟ روح عالمگیر کا کب تک مٹے کا اضطراب کب تلک آئے گا تیری زندگی میں انقلاب
ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے لب آشنا حرکت سے بھی نہ ہوں اور زیست کا حاصل آجائے خاموش زباں بھی خشک رہے اور ساقی محفل آجائے اتنی تو کشش دل میں میرے اے جذبہ کامل آجائے جب خواہش منزل پیدا ہو خود سامنے منزل آجائے تسلیم کہ شیوہ حسن کا ہے خوشیوں میں بھی رنگ غم بھرنا مانا کی حسینوں کی عادت ہے زخم پہ بھی نشتر دھرنا دربار حسیناں میں پھر بھی کہتا ہے یہ آنکھوں کا جھرنا اے شمع قسم پروانوں کی اتا تو مری خاطر کرنا اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے مجھ سوختہ جاں پہ چل ہی گیا افکار زمانہ کا افسوں میں رنج و محن کا مسکن ہوں میں درد و الم کا سنگم ہوں سن ’گیسوئے عنبربار‘ سن اے ’رخسار حسین‘ چشم میگوں‘ میں جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں اس وقت مجھے لازم ہے جب تم پہ مرا دل آجائے اے اخؔتر خستہ قلب و جگر شاید ہے اسی کا نام الفت گفتار کی جرأت کرتا ہوں جب ساتھ نہیں دیتی ہمت گرضبط کی جانب بڑھتا ہوں روٹھی نظر آتی ہے طاقت گو لاکھ ارادے کرتا ہوں سب راز دلی کہدوں وحشت کمبخت زباں کھلتی ہی نہیں جب سامنے قاتل آجائے
نظر ہے میری سوادِ خطِ محبت پر سطور مثل رگ جاں نقوش خلد نظر چمک جو معنئ لفظ سیاہ کی دیکھے نگاہ مہر ضیاپاش بھی ہوخیرہ تر
بلاتمثیل
اتر کے دیکھ ذرا آشیانۂ دل کو ہے تجھ کو آرزوئے جلوۂ بلال اگر نمایاں صفحۂ قرطاس پہ ہیں ہوں نقطے کہ جیسے چرخ پہ بکھرے ہوئے ہوں نجم و قمر دکھایا جلوۂ بندہ نوازیاں تو نے مری نگاہ کو فطرت کی راز داں کہہ کر کہیں پہ عجز کے دریا میں شانِ طغیانی کہیں پہ سجر دعا میں ہیں بے بہا گوہر خلاصہ یہ ہے کہ ہے ایک گلشن الفت سرور خاطر غمگین و مخزن راحت