پارۂ دل  

شعلے بھڑک رہے ہیں دل بیقرار میں

غزل

شعلے بھڑک رہے ہیں دل بیقرار میں
بیٹھا ہوں رہگذر پہ ترے انتظار میں
رشک گلاب نازش بوئے گل چمن
ایسی بسی ہوئی ہے مہک زلف یار میں
رضواں تمہیں قسم ہے تمہاری بہشت کی
ہرگز قدم نہ رکھنا کبھی کوئے یار میں
حاصل کہاں ہے دائرہ آفتاب کو
جو روشنی ہے ان کے سراب دیار میں
اخؔتر نہیں مجالِ جنوں ہوش کو سنبھال
سوء ادب ہے بولنا بزم خیار میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...

قفس سے چھٹ کر خیال تھا گلستاں میں آسودگی ملے گی

قفس سے چھٹ کر خیال تھا گلستاں میں آسودگی ملے گی
مجھے تھا معلوم کیا فضائے چمن ہی بدلی ہوئی ملے گی
لباسِ بیگانیت میں ملبوس ذرہ ذرہ نظر پڑے گا
ہر ایک گل زہر خند ہوگا کلی میں بھی برہمی ملے گی
چمن ہی والوں کے ہاتھ اڑتی ملے گی خاک چمن چمن میں
گلوں میں سختی نوائے مرغ چمن میں تلخی بھری ملے گی
نہ بزم رنداں نہ شورساغر نہ دور جامِ مئے گلابی
نہ میکدے میں صدائے تشنہ لباں مجھے گونجتی ملے گی
نہ جلوۂ صبح و تابش مہر نہ درخشانیاں قمر کی
اٹھے گی جس سمت چشم مضطر تسلط تیرگی ملے گی
قفس کی ہی سختیاں اٹھاتا یہ علم مجھ کو ذرا بھی ہوتا
کہ ضوفشانی شمع سوزدروں میں بھی کچھ کمی ملے گی
رہیں سلامت مرے عزائم تو دیکھ لے گا زمانہ اخؔتر
کہ سینۂ تیرگی سے گلشن کو ایک دن روشنی ملے گی
چمن کی رنگینیاں چمن میں چمن کو رشکِ چمن کریں گی
گلوں کو پھر تازگی ملے گی کلی کلی کو ہنسی ملے گی
ہویدا تخریب گلستاں سے نوید تعمیر گلستاں ہے
قسم خدا کی ہمارے گلشن کو پھر نئی زندگی ملے گی
رہے سلامت ہمارا ذوق نظر تو پھر دیکھ لینا اخؔتر
خزاں چمن کی بہار بن کر چمن میں پھرتی ہوئی ملے گی

...

پھر وہی شوخ نظر یاد آیا

پھر وہی شوخ نظر یاد آیا
راحت قلب و جگر یاد آیا
کھنچتے دیکھا جو کمان ابرو
ہم غریبوں کو جگر یاد آیا
دیکھ کر ان کو میر میخانہ
چار دہ شب کا قمر یاد آیا
باز آئے طلب جنت سے
دفعتاً جب تیرا گھر یاد آیا
خود بخود ہلنے لگے میرے قدم
روبرو وہ ستم ایجاد آیا
دیکھ کر محفل رنداں سونی
اخؔتر خستہ جگر یاد آیا

...

آغاز عشق ہمدم انجام تک نہ پہونچے

آغاز عشق ہمدم انجام تک نہ پہونچے
آجائے صبح ایسی پھر شام تک نہ پہونچے
میدان عاشقی میں چلنا سنبھل سنبھل کر
یہ دل لگی تمہاری الزام تک پہونچے
ملنا تو اس حسیں سے اک وہم ہے جنوں کا
لیکن یہ ظلم کیسا پیغام تک نہ پہونچے
منت کشی سے بہتر محرومیاں ہیں میری
اچھا ہوا جو بزمِ انعام تک نہ پہونچے
کس طرح اس نظر کو اخؔتر نظر کہوں میں
آغاز کو تو دیکھے انجام تک نہ پہونچے

...

شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے

شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے
رقص کرتے ہیں آج میخانے
کس کی یاد آگئی خدا جانے
آنکھ آنسو لگی جو برسانے
شمع رخ کے سبھی ہیں پروانے
ساقیا رند ہوں کے فرزانے
جذبۂ شوق کا خدا حافظ
صبر کے بھر گئے ہیں پیمانے
پی کے مے آج دے رہے ہیں دعا
ساقیا تجھکو تیرے مستانے
گریوں ہی برق بار بار آئی
ہر شجر پر بنیں گے کاشانے
گرد ساقی ہجوم تشنہ لباں
شمع کے گرد جیسے پروانے
آب دے کر نہ دے فریب شراب
پینے والے نہیں ہیں دیوانے
قطرۂ اشک بن گیا موتی
آہ دل سے بنے ہیں افسانے
رخ کبھی دیکھتے ہیں زلف کبھی
ہم بھی کیا ہوگئے ہیں دیوانے
پہلے بے ساختہ وہ ملتے تھے
رفتہ رفتہ لگے ہیں شرمانے
شکل جو چاہے دیکھ لے اخؔتر
آدمی دل کا حال کیا جانے

...

جب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی

جب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی
باخدا لذتِ زندگی مل گئی
مسکرائی کلی دل کے غنچے کھلے
تیرا غم کیا ملا زندگی مل گئی
دیکھ کر ان کو تشنہ لبی کیا بجھی
اور دیدار کی تشنگی مل گئی
غالباً کوئی جان بہار آگیا
ہر کلی کے لبوں کو ہنسی مل گئی
ان کے در پر جبیں کو جھکانا ہی تھا
گلشن قلب کو تازگی مل گئی
جب تمہارا تصور کیا رات میں
دل منور ہوا روشنی مل گئی

...

رندی میں کیوں خیال رہے اعتصام کا

رندی میں کیوں خیال رہے اعتصام کا
ساقی پھر ایک بار چلا دورجام کا
بے ساختہ تھے ملنے پر ایسا بدل گئے
دیتے نہیں جواب ہمارے سلام کا
تاریکئ وطن تو مٹی ہے مگر یہ کیا
صبح وطن میں رنگ ہے غربت کی شام کا
گستاخ کہہ کے چلدیئے ردسلام میں
کیا یہ صلہ ملا ہے مرے احترام کا

...

کیا ادائے نگاہِ ساقی ہے

کیا ادائے نگاہِ ساقی ہے
فرش پہ گر کے جام ٹوٹ گیا
دنیا کہنے لگی ہے دیوانہ
دامن صبر جب سے چھوٹ گیا
کج نگاہی سے یہ گمان ہوا
شیشۂ دل کسی کا ٹوٹ گیا
میرے ناصح نے جب انہیں دیکھا
دامن پندو وعظ چھوٹ گیا
ناامیدی کے ابر چھائے ہیں
بخت اخؔتر بھی آج ٹوٹ گیا

...

نہ رقص شیشہ ونے ساغر و پیمانہ میگردد

صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ میگردد

نہ رقص شیشہ ونے ساغر و پیمانہ میگردد
کندگردش زمانہ ساقیا میخانہ میگردد
چوں شمع گل شودزاں خاطر پروانہ میگردد
صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ میگردد
فرا موشد بہار باغ خلد و منظر سینا
بکوئے یار چوں ہمدم دل دیوانہ میگردد
تپدچوں ذوق سجدہ در جبین عاشقی ہمدم
گہے کعبہ شود پیدا گہے بت خانہ میگردد
شکست حسن شد، امروز شمع بزم می رقصد
نشاط رونقِ محفل دلا پروانہ میگردد
چہ گویم منزل اشکم بچشم نازش انجم
چوں بر فرش زمیں آید دریک دانہ میگردد
بپاس خاطر ناصح ہمی گردم ولے ہمدم
دلم محوطواف کوچۂ جانانہ میگردد
کسے پرسد زدیدہ ورایں راز عاشقی اخؔتر
درون قطرۂ غم صورت جانا نہ میگردد

...