اے دوست میری فطرت شدت پسند کو آیا نہ راس ماتم آشفتہ خاطری یہ نالہ و فغاں کا نہیں وقت بے خبر دیکھ ہر طرف ہے شعلہ فشاں جنگ زرگری جمہوریت کے نام پہ شخصی ضم کدے اللہ رے فریب ترافن آزری لیکن اٹھے گا ہے یہ یقیں اک خلیلِ خو کھا کے رہے گی زنگ کسی دن یہ ساحری مت فکر کر ہے دیر قدومِ کلیم کی کب تک رہے گی شعبدہ بازئ سامری مستانہ وارمایۂ ہستی لٹا کے دیکھ ممکن نہیں پھر آنکھ کو بھائے سکندری ہوتے ہیں اشک بھی کہیں مژدہ بہار کا خون جگر سے ہوگی یہ کھیتی ہری بھری کتنے ستارے موت کے دھارے میں بہہ گئے تب جاکے بے حجاب ہوا حسن خاوری ٹھوکر میں تخت و تاج ہے پتھر شکم یہ ہے دیکھی نہیں ہے تو نے یہ شانِ قلندری منت کشئ ساغر و مینا سے بازآ ننگِ خودی ہے دوست یہ تیری گدا گری للّٰلہ دیکھ چشم حقیقت شناس سے پیارے اگر ہے کچھ تو اسی میں ہے بہتری گر آرزو ہے تیری ملے زیست کا مزہ طوفاں کی دیویوں کے گلے سے گلے ملا مت توڑ فکر دور سے تو پشت حوصلہ آلام کے پہاڑ سے اٹھ جوئے شیرلا
غبارپا کو مہر ضوفگن کہنا ہی پڑتا ہے بتانِ خاک کوسیمیں بدن کہنا ہی پڑتا ہے جن آنکھوں نے مسرت کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا انھیں اب غیرت گنگ و جمن کہنا ہی پڑتا ہے بہت چاہا کہ تجھسے مدعائے دل چھپا رکھوں مگر مجبور ہو کر جان من کہنا ہی پڑتا ہے یہ شیشہ اور یہ سنگِ گراں یہ دشت پیمائی وفا کی راہ کو ہمت شکن کہنا ہی پڑتا ہے ضیاء جو پھوٹتی ہے قطرۂِ اشک ندامت سے اسے مہر درخشاں کی کرن کہنا ہی پڑتا ہے الجھ کر جس کے پیچ و خم میں دل الجھا ہی رہ جائے مجھے اس زلف کو دار و رسن کہنا ہی پڑتا ہے
وہ وفا پیکر سنا ہے محوِ ناؤ نوش ہے کیا خبر اس کو مری شمع خوشی خاموش ہے ہم چلے جب میکدے سے تو گھٹائیں بھی چلیں اس میں کیا ساقی ہمارا جرم ہے کیا دوش ہے کہہ رہی ہے رخ پہ یہ بکھری ہوئی زلف حسیں ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے عظمت انسانیت سمجھے کوئی ممکن نہیں خاک کا ذرہ سہی لیکن فلک آغوش ہے زندگی ہے بے نیازِ زندگی ہونے کا نام موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا ہوش ہے
کب کوئی آرزو تھی کب کوئی آرزو کی بس تیری جستجو تھی بس تیری جستجو کی کیوں دیکھتی صبا ان پھولوں کی شوخیوں کو لائی مہک اڑاکے گیسوئے مشکبو کی الطاف بیکراں سے شہ مل گئی کچھ ایسی بے اختیار تڑپی ہر موج آرزو کی پورے شباب پر ہے فیضِ نگاہِ ساقی اب خیریت نہیں ہے پیمانہ وسبو کی بلبل کے ننھے دل میں طوفان سامچا ہے جب بات میں نے ان سے پھولوں کے روبرو کی وہ بے زبانیوں کو آخر سمجھ نہ پائے توہین ہوگئ ہے خاموش گفتگو کی دیکھا ہے چاندنی کو بھی انفعال آگیں جب بات چھڑگئی ہے اُس میرے ماہرو کی
یاد ہے صحن چمن میں ترا خنداں ہونا اور پھولوں کا وہ انگشت بدنداں ہونا آدمی سیکھ تو لے صاحب ایماں ہونا آج بھی سہل ہے شعلوں کا گلستاں ہونا سیکھ لے اے غم دوراں غمِ جاناں ہونا وہ بھی کیا درد نہ آئے جسے درماں ہونا زندگی ان کی نگاہوں سے ملی ہے مجھ کو نوک نشتر کو بھی آتا ہے رگ جاں ہونا میرے افکار پریشاں کا کوئی دوش نہیں ان کی زلفوں نے سکھایا ہے پریشاں ہوں دست فطرت کے اشاروں پر نظر رکھی ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں غزل خواں ہونا اس میں کچھ بلبل بیتاب کی تخصیص نہیں گل کی قسمت میں بھی ہے چاک گریباں ہونا خود کو پانا ہے حقیقت میں خدا کو پانا اپنے ہی ہاتھ میں ہے صاحب عرفاں ہونا منزل آدم خاکی کا پتہ دیتا ہے نار نمرود کا فردوس بداماں ہونا دیکھ کے رخ پہ غباران کے مجھے یاد آیا موربے مایہ کا ہم دوش سلیماں ہونا چاہ میں ڈوب کے افلاک محبت پہ چمک سیکھ لے سیکھ لے اخؔتر مہ کنعاں ہونا
ہر سمت ہے تسلط برق و شرر چلیں اے بلبلو! بنائیں کہیں اور گھر چلیں ورنہ محال ہے کہ ہو تکمیل زندگی آؤ دیار دار سے ہو گر گزر چلیں سنتے ہیں وہ ہیں زیب دۂ بزم دیگراں پھر جا کے کیا کریں گے وہاں ہم مگر چلیں پھر بھی نہ پاسکیں گے کبھی منزل جنوں اہل خرد بصورت شام و سحر چلیں بجھنے لگے ہیں دیکھ ستاروں کے دیپ بھی اب انتظار دیر ہوئی آ کہ گھر چلیں گر ہے فراز عرشِ محبت کی آرزو آجاؤ چاہ عشق میں اخؔتر اتر چلیں
سراپا دردِ غم ہم بن کے آئے کوئی کیا ابن مریم بن کے آئے جبینِ آہِ درماندہ کے قطرے دیار گل میں شبنم بن کے آئے انھیں سے سازگل سوز عنادل جہاں آئے اک عالم بن کے آئے جنوں بھی کیا ہے عقل و ہوش کوئی سبب کیا ہے جو پیہم بن کے آئے خوشی کو کیا غرض میرے جہاں سے اگر آناہی ہے غم بن کے آئے فرشتہ ہوگیا اخؔتر تو کیا ہے کہو فرزند آدم بن کے آئے
کون ٹھہرا ہے کبھی عزم جواں کے سامنے کوہ جھک جاتے ہیں اپنے کارواں کے سامنے آج ہے عشق جواں حسن جواں کے سامنے جیسے اک برق پتاں برق پتاں کے سامنے اشکہائے غم کی دل افروز قندیلیں لئے آسماں اک اور بھی ہے آسماں کے سامنے خنجر ابرو اگر تیری عنایت ساتھ ہو پھر تو موت اچھی ہے عمر جاوداں کے سامنے یہ فضا یہ موسم گل اور یہ کالی گھٹا خوف عصیاں جرم ہے ایسے سماں کے سامنے دل کی بات آئے نہ لب تک لاکھ چاہا تھا مگر کچھ نہ اپنی چل سکی اشک رواں کے سامنے ہوش میں آ اے طلبگار دوائے دردِ دل ایسی ایسی بات وہ بھی مہ و شاں کے سامنے کیا کروں میں اس جبیں کو اے مرے شیخ حرم خود ہی جھک جاتی ہے ان کے آستاں کے سامنے اشکہائے آتشیں کی تاب لانے سے رہی میں نے پھیلایا جو دامن کہکشاں کے سامنے اے حسیں پھولو تمہیں تو خار ہونا تھا یہاں اب نہ بچ کر رہ سکو گے باغباں کے سامنے اخؔتر ان کی بے رخی نے کر دیا افشائے راز خود ہی رسوا ہوگئے سارے جہاں کے سامنے
کاش اس منزل پہ میرا ذوق رندانہ رہے تیرا افسانہ جہاں پر میرا افسانہ رہے اللہ اللہ رے تجاہل آپ کا اس رند سے جیسے بیگانے کے آگے کوئی بنگانہ رہے بس مرے حسن تخیل سے سنوارا کر اسے کیوں تری زلفِ حسیں منت کش شانہ رہے کم نہیں یہ التفات برق چشم خشم گیں کیا ہوا زدمیں اگر میرا ہی کاشانہ رہے دیکھ تجھ سے کہہ رہی ہے کیا مری تشنہ لبی رہتی دنیا تک ترا گردش میں پیمانہ رہے عقل والے جن کی زلفوں میں الجھ کر رہ گئے وہ شکار شعبدہ بازئ رندانہ رہے مجھ کو راس آئی کہاں ہوش وخرد کی بندگی کیوں نہ میری بات اے اخؔتر حکیمانہ رہے
جو پیش ان کو کبھی ہدیۂ لہو کرتے تو اس طرح انھیں ہم اور خوبرو کرتے صبا کو غرق یم خون آرزو کرتے چمن کے ہر ورق گل کو شعلہ رو کرتے گلوں کو خون تمنا سے سر خرو کرتے چلے ہیں آج وہ فیضان رنگ و بو کرتے انھیں کے لطف مسلسل سے شہ ملی ورنہ مجال کیا تھی ہماری کہ آرزو کرتے ہمیں تو لوٹ لیا احترام الفت نے وہ آئے اور گئے ہم رہے وضو کرتے وہ یم سے لفظ تمنا ہی سن کے چونک پڑے بڑا غضب تھا اگر شرح آرزو کرتے کسی کی غیرت خفتہ کی نیند کب جاتی اگر نہ منت پیمانہ وسبو کرتے وہ میرے دل میں چھپے ہیں نہ جان لے کوئی یہ بات تھی جو رہے ان کی جستجو کرتے اک آہ سرد دل عندلیب سے نکلی ہمیں جو دیکھ لیا ان سے گفتگو کرتے غرور حسن کے اخؔتر حواس اڑجاتے جو میرا آئینئہ دل وہ رو برو کرتے