پارۂ دل  

وہ اسیر کاکل عنبریں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ اسیر کاکل عنبریں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ شہید غمزۂ نازنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کسی التفات کا واسطہ تمہیں دے تو دیتا ابھی مگر
یہ لگا ہے خوف پتہ نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ ٹپکنا قطرۂ آتشیں کا نگاہِ حسن نواز سے
وہ ہماری سوختہ آستیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی تازیانۂ لن ترا کبھی اُدْنُ مِنّی کا گل کدہ
وہ محبتوں کا چناں چنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے عقل و ہوش کی بندگی بھلا راس آئے تو کسطرح
میں ہوں مست نرگس سرمہ گیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مئے عشق بن کے لہو مرے رگ و پا میں ایسا سماگئی
رگ جاں بنی رگ آتشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ تمہارا شیریں کلام جو ہے بہشت سامعہ آج بھی
مجھے یاد ہے مرے دل نشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ کہیں فریب حسیں نہ ہو جسے کہہ رہے ہو وفا ،وفا
تو کہا تھا تم نے نہیں نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کبھی تھا مرکزِ لطفِ جاں وہی اخؔتر دلِ مہرباں
مرے مہ لقا مرے مہ جبیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

...

وہ کمالِ نشۂ بے خودی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ کمالِ نشۂ بے خودی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھا جھکا جہاں سرِ آگہی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جبیں کا جھکنا ہر اک نشاں پہ سمجھ کے نقش نشانِ پا
وہ ہمارے سجدوں کی بیکسی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے اپنی محفلِ ناز میں جو نگاہِ ناز نہ پاسکی
تو کہا تھا تم نے ہے اک کمی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر نہ رہا وضو کا خیال بھی
وہ وفور جذبۂ بندگی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھی تمہارے در پہ مری جبیں مرے زیر پا سردو جہاں
وہ قلندری وہ سکندری تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو نظر نہ آئے چمن میں تم تو نگاہِ اخؔتر زار میں
بنی خار پھول کی تازگی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

...

سورہی ہے مری حسرت مجھے آواز نہ ہو

سورہی ہے مری حسرت مجھے آواز نہ ہو
جاگ جائے نہ قیامت مجھے آواز نہ دو
میں چمن زاد سہی پھر بھی چمن بخت نہیں
کہکے رخصت ہوئی نکہت مجھے آواز نہ دو
دیکھ کر قامت زیبا کو قیامت بولی
اب نہیں میری ضرورت مجھے آواز نہ دو
اللہ اللہ رے تیری تلخ کلامی کی مٹھاس
بول اٹھا قند حلاوت مجھے آواز نہ دو
گم ہوں میں انکے تصور میں نہ چھیڑو مجھکو
میں ہوں مصروفِ عبادت مجھے آواز نہ دو
آہِ مظلوم دعا بن کے ندا کرتی ہے
ہے کھلا بابِ اجابت مجھے آواز نہ دو
کچھ نہیں یاد بجز کوچۂ جاناں مجھ کو
کتنی اچھی ہے یہ غفلت مجھے آواز نہ دو
آسمانوں کے پرے ہے مری وحشت کا مقام
سن لو اے اہل فراست مجھے آواز نہ دو
رب کی قھاری بھی اخؔتر یہ صدا دیتی ہے
دیکھ کر اشک ندامت مجھے آواز نہ دو

...

عشوۂ لالہ رخاں ہو کہیں ایسا تو نہیں

عشوۂ لالہ رخاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
درد سرمایۂ جاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
یہ اِدھر ڈوبا اُدھر لب پہ شفق دوڑ گئی
دل مِرا مہر رواں ہو کہیں ایسا تو نہیں
عشق کی شیفتگی دارو رسن کیا معنیٰ
جاں وہی حاصل جاں ہوکہیں ایسا تو نہیں
کیوں جبیں حسن جواں کی عرق آلود ہوئی
سامنے عشق جواں ہو کہیں ایسا تو نہیں
میں تو خاموش ہوں کیوں شور بپا ہے ہر سو
نغمہ زا دل کی فغاں ہو کہیں ایسا تو نہیں
بے رخی دیکھ کے محفل سے اٹھ آنا اخؔتر
لغزش فکر و گماں ہو کہیں ایسا تو نہیں

...

تھے تمہارے دوش بدوش ہم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تھے تمہارے دوش بدوش ہم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ رہِ حیات کا پیچ و خم تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
وہ دل مزار صد آرزو وہ وصال ساعتِ رنگ و بو
وہ خم صراحی و جام جم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرا نام دفتر عشق سے جو چلے تھے کاٹنے ایک دن
تو ٹھہر گیا تھا یدِقلم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
رگِ زندگی رگِ سرخوشی رگِ بیخودی رگِ آگہی
وہ تمہاری زلفوں کا پیچ و خم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کہا کہ اور ذرا ستم تو کہا تھا تم نے بخندہ لب
ارے بے حیا ہے یہ کوئی کم تمہیں  یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اے غرور حسن قمر فشاں! جو خوشی کو تج کے بھی شاد تھا
وہ تمہارا اخؔتر خستہ دم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

...

ہم سمجتے تھے شب تاریک ٹلنے کی نہیں

خیر و شر

ہم سمجتے تھے شب تاریک ٹلنے کی نہیں
اپنی قسمت میں نہیں ہے صبح نصرت کی ضیا
ایسی مایوسی میں ایسی بے بسی کے وقت میں
رحمتِ حق دے اٹھی اِنّافتحنا کی صدا
تم نے سمجھا تھا کہ پھونکوں سے مٹاتے جائیں گے
ان حسیں پھولوں کی جیتی جاگتی تصویر کو
اے حریفان گل ولالہ تمہیں کچھ علم ہے
عین فطرت توڑنا ہے ظلم کی زنجیر کو
آتشِ فرعونیت جب بھی کبھی روشن ہوئی
ابر رحمت بن کے چھائی موسویت گی گھٹا
ننھے طائر بھی اٹھے ہیں لے کے جوش انتقام
ابرہہ کے ظلم کے جب ہوگئی ہے انتہا

...

جو وجہ درد ہے ساقی وہی غمخوار ہے ساقی

ساقی نامہ

جو وجہ درد ہے ساقی وہی غمخوار ہے ساقی
اسی کا نام دنیا ہے یہی سنسار ہے ساقی
اگر انسان کا ذوق عمل بیدار ہے ساقی
تو پھر آسان سے آسان ہر دشوار ہے ساقی
یہ ہے تسلیم مجھ کو خار دل آزار ہے ساقی
مگر گل پر بھی بلبل کے لہو کا بار ہے ساقی
رخ پر نور پر یوں ابروئے خمدار ہے ساقی
کہ گویا درمیاں قرآن کے تلوار ہے ساقی
یہ مانا عشق کا آغاز آتش زار ہے ساقی
مگر انجام اس کا نازشِ گلزار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت ہے گل ترسے بھی نازک تر
اگر دیکھو تو وہ خوں ریزاک تلوار ہے ساقی
محبت تھی کبھی پیغام صلح و آشتی مانا
مگر اس دور میں تو باعث پیکار ہے ساقی
کہیں ٹھوکر نہ کھا جائے ہمارا کیف آگیں دل
بساط ذہن عالم سخت ناہموار ہے ساقی
اگر دیکھو تو دیوانوں کی آنکھیں بند پاؤ گے
اگر سوچو تو ہر اک طالب دیدار ہے ساقی
ادھر سے ارنی ارنی اور اُدھر سے لن ترانی ہے
کہیں اصرار ہے ساقی کہیں انکار ہے ساقی
لباس رہبری اب پردہ پوش جرم و عصیاں ہے
شبیہہ آب و دانہ جبہّ و دستار ہے ساقی
نہ کیوں ہو خوف کا مارا وہ تیغوں کی چھنا چھن سے
جسے مرغوب ترپازیب کی جھنکار ہے ساقی
مثل مشہور ہے دونوں ہتھیلی مل کے بجتی ہے
ادھر گر پیار ہے تو اس طرف بھی پیار ہے ساقی
کبھی یہ بھی زمانے کا مقدر بن کے چمکے گا
اگرچہ آج اخؔتر بیکس و ناچار ہے ساقی
زمانے کو سبق دیتا ہے وہ شعروں کی چلمن میں
ترا دیوانہ اخؔتر کس قدر ہشیار ہے ساقی
یہ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا ظرف ہے ورنہ
مقدر میں کہاں ہر مدعی کے دار ہے ساقی
ابھی تک ساغرمے تیرے اخؔتر تک نہیں پہونچا
مگر یہ رند تیرا بے پئے سرشار ہے ساقی
جہاں شمس و جمالِ ماہ پر نظریں نہیں رکتیں
مرے ذوق نظر کا دیکھ یہ معیار ہے ساقی
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں خالد سیف الٰہی کو
کہ اب انسانیت پر پنجۂ ادبار ہے ساقی
زمانہ سے نمایاں آج ہے اندازِ کسرائی
کہاں پر ذوالفقار حیدر کرار﷜ ہے ساقی
اگر زندہ رہیں اور زندگی کا راز نہ سمجھیں
تو ایسی زندگی پر سیکڑوں پھٹکار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت بار عالم سے ہے چھٹکارا
اگر دیکھو تو وہ اک بوجھ ہے اک بار ہے ساقی
بھلا کیسے ہو پھر تیری مسیحائی کا اندازہ
مسیحائے زماں جب خود ترا بیمار ہے ساقی
زمانے نے بدل ڈالا ہے اب چال و چلن اپنا
مگر تیرے جوانوں کی وہی رفتار ہے ساقی
بھلا یہ کون گلشن میں بصد ناز و ادا آیا
نقاب الٹا پریشاں زلف عنبر بار ہے ساقی

...

اے مری جان تمنا مری اشعار کی روح

روح کی فریاد

اے مری جان تمنا مری اشعار کی روح
رشک خوشبوئے گلاب و تن گلزار کی روح
اس چمکتے ہوئے خورشید کے انوار کی روح
تابش قلب و جگر گرمئی افکار کی روح
تو جو چاہے تو بدل جائے دل صبر شکن
اور وہ دینے لگے درس شکیب آرائی
ان عنادوں کی چٹانوں کی حقیقت کیا ہے
پیکر کوہ بھی ہوجائے مثال رائی
آج ہے بغض کی شمشیر کی جھنکار جہاں
ہاں وہیں مہر و محبت کی بجے شہنائی
فرش کے ذروں میں پیدا ہو ستاروں کا جمال
پھول بھی رشک کریں دیکھ کے خاروں کا جمال
غمزۂ ناز کا اعجاز زمانہ دیکھے
خاطر سنگ صفت پھول کی پتی سے کٹے
خوگر رحم ہوں ہر بغض و عداوت والے
دشمن و دوست کے ملجائیں محبت میں گلے
ہوئے مسبوق عدم دم میں شبستانِ دروغ
ہر طرف صدق کے روشن ہوں ضیا پاش دیے
ہر طرف مہر و محبت کی بجے شہنائی
بول اٹھیں اہل چمن باد بہاراں آئی
تیری مرضی بتا خوموش رہے گی کب تک
یہ شرافت بھلا دشنام سہے گی کب تک
انتہا بھی ہے زمانے کے تشدد کی کوئی؟
ظلم کے پاؤں میں بیڑی نہ پڑیگی کب تک
اخؔتر خستہ جگر کی ہے یہ فریاد حضور
اک نگاہ کرم و لطف تو ایسی کردے

...

مجھے مولائے یکتا نے عطا کی ذوق یکتائی

پارۂدل

قطعات

مجھے مولائے یکتا نے عطا کی ذوق یکتائی
ہوئی رشک ہجوم دوستاں یہ میری تنہائی
زمانے کی نظر میں گرچہ بیگانہ سہی اخؔتر
ہماری ہمدم ہستی ہے انداز شکیبائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے معلوم کیا تھا ایسی ساعت آنے والی ہے
عروش شربہ انداز محبت آنے والی ہے
زمانہ تو زمانہ خویش ہوجائیں گے بیگانہ
فقط اک جان پر لاکھوں مصیبت آنے والی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تملق مہربانوں کی سمجھ پایا نہ تھا اخؔتر
بہاریں گود میں پنہاں کئے ہیں لشکر صرصر
خرد عاجز نظر خیرہ الٰہی ماجرا کیا ہے
نظر آتا ہے مجھ کو آستین لطف میں خنجر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبوں چشم زمانہ میں میری رفتار ہے اخؔتر
گراں ترگوش دوراں پر مری گفتار ہے اخؔتر
صدا دے تو بغاوت ہے رہے خاموش تو باغی
رباب زندگی کا کش مکش میں تار ہے اخؔتر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غم و آلام میں آلودہ میری زندگانی ہے
فقط لاتقنظوا کی ایک امداد نہانی ہے
وفور غم ہے لیکن اپنے اطمینان کے صدقے
نظر میں ایسا ایسا حادثہ مثل کہانی ہے

...