سری سقطی، سیّدالعارفین سِرُّالدین
اسمِ گرامی: سِرُّالدِّین۔
کنیت: ابوالحسن ۔
سیّدالعارفین حضرت سِرُّالدین ’’سِری سقطی‘‘
کے نام سےمعروف ہیں۔ ’’سقطی‘‘ کا مطلب ’’پرچون فروش‘‘ کے ہیں۔آپ کی بغداد میں پرچون کی
دوکان تھی۔
والدِ ماجد: آپ کے والدِ
ماجد شیخ مُغَلّسْ( صبح کی نماز کو رات کے اندھیرے میں ادا کرنے والا)تھے۔
ولادت:
سیّدالعارفین حضرت سری سقطی کی ولادت 155ھ/771ءکو بغدادِ معلیٰ میں ہوئی۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ، ص 183)
تحصیلِ علم:
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کے مکتب سے حاصل کی، رجوع
الی التصوف کے بعد مختلف شیوخِ کرام سے علمی وروحانی استفادہ فرمایااور بالخصوص
حضرت معروف کرخی ،حضرت فضیل بن عیاض،خواجہ حبیب راعی (مصاحبِ خاص حضرت
سلمان فارسی) سے اکتسابِ فیض کیا، اور درجۂ کمال پر فائز ہوئے۔
اس اعتبار سے آپ تبعِ تابعی
ہیں۔
سیرت وخصائص:
شیخ وقت حضرت سری سقطی سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے
دسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں، آپ اہلِ تصوف کےا مام اور تمام اَصناف ِعلوم میں کمال رکھتے تھے۔
علم و ثبات کے پہاڑ اور مروت و شفقت میں یکتائے زماں تھے اور رُموز و اشارات میں یگانۂ روزگار تھے۔ حضرت فضیل ابن عیاض اور حضرت معروف
کرخی کے شاگردِ رشید اور حضرت خواجہ حبیب راعی کے خاص صحبت یافتہ
تھے۔ آپ تبع تابعین سے تھے۔ سب سے پہلے جس نے حقائق ومعارف کو بغداد میں عام
فرمایا وہ آپ ہی ہیں،اور عراق کے بہت سے مشائخ آپ کے سلسلۂ ارادت سے منسلک تھے۔
آپ سیّد الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے ماموں اور شیخ طریقت ہیں۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں:
’’میں
نے اپنے شیخ طریقت جیسا کامل کسی کو بھی نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت بشر حافی نے فرمایا:
’’میں آپ کے سوا کسی سے سوال نہ کرتا تھا کیوں کہ میں آپ
کے زہد و تقویٰ سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ جب آپ کے دستِ مبارک سے کوئی چیز
باہر جاتی ہے تو آپ خوش ہوتےہیں۔‘‘
سیّد الطائفہ شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں:
’’میں
نے کسی کو عبادت میں سری سقطی سے زیادہ کامل نہیں پایا۔ 70؍سال کامل گزر گئے لیکن
سوائے بیماری اور مرض الموت کے زمین پر پہلو تک نہیں رکھا۔‘‘(نفحات الانس)
تصوف کی طرف رجحان:
آپ ابتدا میں بغداد شریف کے بازار میں پرچون کی دُکان پر
بیٹھ کرتجارت کرتے تھے۔ایک دن خواجہ حبیب راعیآپ کی دکان کی طرف سے گزرے، آپ نے
کچھ چیزیں ان کو پیش کیں کہ فقرا میں تقسیم کر دیں، انہوں نے فرمایا: ’’جَزَاکَ
اللہ‘‘۔ اُسی روز سے آپ کے دل سےدنیا کی محبّت محو ہو گئی۔ (شریف التواریخ،ج 1، ص499)
مجاہدہ:
آپ کے برابر کسی نے ریاضت و مجاہدہ نہیں کیا، آپ فرماتے تھے
کہ چالیس برس سے میرا نفس شہد کا آرزو مند ہے، مگر میں نے اس کو نہیں دیا۔(شریف التواریخ،ج1،ص501)
خلوت در انجمن:
آپ نے دُکان پر، پردہ ڈال رکھا تھا، وہاں ہر روز ایک ہزار
رکعت نمازِ نفل پڑھا کرتے تھے۔ ایک روز ایک شخص آیا اور پردہ اٹھاکر آپ کو سلام
کیا، اور کہا: فلاں بزرگ نے کوہِ لبنان سے آپ کو سلام بھیجا ہے۔
فرمایا:
’’وہ پہاڑ میں قیام پذیر ہوئے ہیں؛ اِس میں
تو کوئی عمدگی نہیں، مرد وہ ہے کہ بازار کے درمیان بیٹھ کر خدا سے مشغول رہے اور
ایک دم اُس سے غائب نہ ہو۔‘‘(شریف
التواریخ،ج1،ص501)
حج کی دعا:
شیخ علی بن عبدالحمید الغضائیری فرماتے ہیں کہ آپ نے میرے
لیے دعا فرمائی۔ اِس کی برکت سے حق تعالیٰ نے مجھے چالیس حج پا پیادہ روزی
کیے، جو میں حلب سے جاکر کرتا رہا۔ (شریف التواریخ،ج1،ص501)
تواضع:
آپ فرماتے تھے کہ
’’میں
دن میں چند بار آئینہ دیکھتا ہوں کہ کہیں شامتِ اعمال سے میرا چہرہ سیاہ تو نہیں
ہوگیا۔‘‘(شریف التواریخ،ج1،ص501)
قول و فعل میں مطابقت:
حضرت سری سقطی اپنے مشائخِ کرام کے مظہر تھے
اور قول و فعل میں اُن کے نقشِ قدم پہ تھے۔
ایک مرتبہ آپ صبر
کے موضو ع پر تقریر فرمانے لگے،دورانِ تقریر ایک بچھو آپ کے پاؤں میں ڈنک مارنے
لگا تو لوگوں نے کہا: حضور! اس کو مار کر ہٹا دیجیے۔
اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ
’’مجھے
شرم آتی ہے کہ میں جس موضوع پر تقریر کر رہا ہوں اس کے خلاف کام کروں‘‘ ( یعنی بچھو کے ڈنک کے مارنے پر بے صبری کا اظہار کروں۔) (شریف التواریخ،ج1،ص 504)
مشہور کرامت:
آپنے ایک مرتبہ ایک شرابی کو دیکھا جو نشے کی حالت میں مدہوش
زمین پر گرا ہو ا تھااور اسی نشے کی حالت میں اللہ،اللہ کہہ رہا تھا ۔ آپ نے اُس کا مُنھ پانی سے صاف کیا اور
فرمایا کہ اس بے خبر کو کیا خبر کہ ناپاک مُنھ سے کس ذات کا نام لے رہا ہے؟ آپ کے
جانے کے بعد جب شرابی ہوش میں آیا تو لوگوں نے اسےبتایا کہ تمہاری بے ہو شی کی
حالت میں تمہارے پاس حضرت سری سقطی تشریف لائے تھے اور تمہارامُنھ دھو کر چلے گئے
ہیں۔شرابی یہ سن کر بہت ہی شرمندہ ہو ا اور شرم و ندامت سے رونے لگا اور نفس کو
ملامت کر تے ہوئےکہنے لگا:اے بے شرم ! اب تو حضرت سری سقطی بھی تمہیں اس حالت
میں دیکھ کر چلے گئے ہیں۔ خدا سے ڈر اور آئندہ کے لیے توبہ کر۔
رات کوحضرت سری سقطی نے ایک ندائے غیبی سنی:
’’اے
سری سقطی! تم نے ہمارے لیے شرابی کا مُنھ دھویا ہے، ہم نے تمہاری خاطر اُس کا دل
دھو دیا۔‘‘
جب حضرت نمازِ تہجد کے لیے مسجد میں گئے تو اُس شرابی کو
تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے اندر یہ انقلاب
کیسے آ گیا۔تو اس نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے کیوں دریافت فرمارہے ہیں جب کہ آپ کو
اللہ تعالیٰ نے اِس پر آگاہ فرمادیا ہے۔(الروض
الفائق،ص244)
وصالِ پُر ملال:
13؍ رمضان المبارک 253ھ/13؍ستمبر867ء، بروزمنگل، صبحِ صادق کے وقت 98برس کی عمر میں واصل باللہ
ہوئے۔
مزارِ پُر اَنوار:
آپ کا مزار شریف بغداد میں مقامِ شونیزیہ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے نمازِ جنازہ میں شرکت کرنےوالے تمام
افرادکی مغفرت فرمادی ۔(تاریخ
ابنِ کثیر)
خلفاء:
1.
سیّد الطائفہ حضرت جنید بغدادی
2.
شیخ ابوالحسن نوری
3.
شیخ فتح الموصلی
4.
شیخ عبد اللہ احرار
5.
شیخ سعید ابرار۔