حضرت شیخ سری سقطی
حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ
اوصافِ جمیلہ
آپ سراج العالمین، تاج العارفین، رئیس المتعبدین، سلطان الموحدین مظہر الجلال و الجمال، کاشف العلم و الکمال، شیخ الشیوخ طریقت، اصل الاصول حقیقت، عجوبۂ رموز و اشارات، کوہِ حلم و ثبات، اہل تصوف کے امام، اوصافِ علم میں کامل، اندوہ درد کے دریا، مروّت و شفقت کے خزانہ تھے، آپ حضرت خواجہ شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ اکبر و جانشین اعظم تھے۔
نام و نسب
آپ کا اسم گرامی سَری بفتح سین مہملہ، و کسررائے مہملہ، و تشدید یائے تحتانی بمعنی جواں مرد، کنیت ابو الحسن، لقب ضیاء الدین، اساس القضاء المبرم۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوّف ۱۲]
والد بزرگوار کا نام شیخ مفلس، بضم میم، و فتح غین معجمہ، و تشدیدِ لام مفتوحہ، سکون سین مہملہ، بمعنی صبح کی نماز کو رات کے اندھیرے میں ادا کرنے والا۔
آپ سقطی مشہور تھے، بفتح سین مہملہ و فتح قاف، و کسرطائے مہملہ، و سکون یائے تحتانی یہ نسبت ہے سقط فروشی کے ساتھ، اور سقط متاعِ حقیر یعنی پر چون کو کہتے ہیں۔ [۱] [۱۔ الانتباہ ۱۲] آپ کا وطن اقدس بغداد شریف تھا۔
واقعۂ توبہ
آپ اوائل میں بغداد شریف کے بازار میں دو کان پر بیٹھ کر سقط فروشی کرتے تھے، ایک دن خواجہ حبیب راعی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی دکان کی طرف سے گذرے، آپ نے کچھ چیزان کے سامنے پیش کی کہ فقرا کو تقسیم کر دیں، انہوں نے فرمایا خیراک اللہ اسی روز سے دنیا آپ کے دل پر سرد ہوگئی۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
ایسا ہی دوسرے دن حضرت شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، اُن کے ساتھ ایک یتیم لڑکا تھا، انہوں نے فرمایا اس یتیم کو کپڑے پہنادے، آپ نے پہنادیے تو انہوں نے دعا دی کہ خدا تعالیٰ تیرے دل پر دنیا کو دشمن کردے، اور تجھے اس شغل سے راحت دے، ان کا فرمانا تھا کہ آپ یکبارکی دنیا سے متنفر اور فارغ ہوگئے، اور اس کی ذرہ بھر بھی الفت آپ کے دل میں نہ رہی۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
بیعت و خلافت
آپ نے حضرت خواجہ شیخ ابوالمحفوظ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی، اور خرقہ خلافت و ارشادحاصل کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
بیعت روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرات شیخین سے تھی۔[۱] [۱۔ آئینہ تصوّف ۱۲]
مشائخِ صحبت
آپ حضرت حارث بن الاسد المحاسبی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بشر بن الحارث الحافی رحمۃ اللہ علیہ کے اقران سے تھے، اور شیخ ابوجعفر السماک رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] اور شیخ الغریب احمد انداقی ابدال رحمۃ اللہ علیہ[۱] [۱۔ آئینہ تصوف ۱۲] سے بھی فیض کامل پایا۔
تجارت
آپ کا دوکانداری کے وقت یہ دستور تھا کہ دس دینار پر آدھے دینار سے زیادہ نفع نہ لیتے تھے، ایک بار آپ نے ساٹھ دینار کے بادام خریدے، اتفاق سے بادام گران ہوگئے، دلال نے کہا کہ بادام بیچیے، فرمایا کس دام پر؟ اُس نے کہا نوے دینار پر، فرمایامیرا عہد ہے کہ دس دینار پر آدھے دینار سے زیادہ نفع نہ لوں گا دلال نے کہا میں نقصان پر نہیں بیچ سکتا، آپ نے فرمایا میں بھی عہد نہیں توڑ سکتا، آخر کار نہ دلال نے کم پر بکوائے، اور نہ آپ نے زیادہ نفع لینا قبول کیا، وہ بادام یونہی پڑے رہے۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]
خلوت در انجمن
آپ نے دکان پر پردہ ڈال رکھا تھا، وہاں ہر روز ایک ہزار رکعت نمازِ نفل پڑھا کرتے تھے وہ ایک روز ایک شخص آیا اور پردہ اٹھاکر آپ کو سلام کیا، اور کہا فلان بزرگ نے کوہ لبنان سے آپ کو سلام بھیجا ہے، فرمایا وہ پہاڑ میں قیام پذیر ہوئے ہیں اس میں تو کوئی عمدگی نہیں، مرد وہ ہے کہ درمیان بازار کے بیٹھ کر خدا سے مشغول رہے اور ایک دم اُس سے غائب نہ ہو۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
ترک دنیا
ایک روز بغداد شریف کے بازار میں آگ لگ گئی، تمام دکانیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ آپ کی دکان بھی انہیں دکانوں میں تھی، کسی نے آپ کو خبر دی کہ آپ کی دکان نہیں جلی، آپ کی زبان سے نکل گیا الحمدللہ، پھر آپ نے کل چیزیں جو دکان میں تھیں فقیروں کو خیرات کردیں اور طریقِ تصوف اختیار کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
مجاہدہ
آپ کے برابر کسی نے ریاضت و مجاہدہ نہیں کیا، آپ فرماتے تھے کہ چالیس برس سے میرا نفس شہد کا آرزو مند ہے، مگر میں نے اس کو نہیں دیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
انکسار
حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا یا حضرت میں ایک جماعت کے ساتھ مخنثوں کی طرف گزرا، دل میں خیال آیا کہ خدا معلوم یہ کیسے جیتے ہیں، آپ نے فرمایا میرے دل میں کبھی ایسا خیال نہیں گزرا کہ مجھے عالم میں کسی آفریدہ پر بھی فضیلت ہے، میں نے عرض کیا کیا مخنثوں پر بھی نہیں، فرمایا: ہرگز نہیں۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
تواضع
آپ فرماتے تھے کہ میں دن میں چند بار آئینہ دیکھتا ہوں کہ کہیں شامتِ اعمال سے میرا چہرہ سیاہ تو نہیں ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
ہمدردی خلائق:
آپ فرماتے تھے میں چاہتا ہوں کہ ساری مخلوق کا رنج و غم میرے دل پر آجاوے کہ وہ سب رنج و غم سے فارغ ہوجائیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
اخلاص
آپ فرماتے کہ اگر مسلمان بھائی میرے پاس آتا ہے اور میں اُس سے کچھ سلوک سے پیش آتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ میرا نام جریدۂ منافقاں میں کہیں نہ لکھ لیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
ملاقاتِ اولیاء اللہ
آپ نے چاہا کہ اولیاء اللہ کو دیکھیں، پس آپ نے ایک ولی اللہ کو پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا، سلام کیا اور پوچھا آپ کون ہیں، اس نے کہا ھُوْ، پھر آپ نے پوچھا کیا کرتے ہیں، اُس نے کہا ھُوْ، پھر پوچھا کیا کھاتے پیتے ہیں کہا ھُوْ، پھر فرمایا کیا تمہاری مراد اس لفظ سے خدا تعالیٰ ہے؟ اُس نے جونہی یہ نام سنا تو ایک چیخ ماری اور جان بحق تسلیم کی۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
تاثیر وعظ:
آپ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بغداد میں کلام حقائق و توحید بیان فرمایا، ایک روز آپ وعظ کر رہے تھے کہ ایک شخص احمد بن یزید کاتب جو خلیفہ کے ندیموں میں سے تھا عمدہ بیش قیمت کپڑا پہنے ہوئے معہ بہت سے غلاموں کے ادھر سے گزرا، اور غلاموں کو ٹھیرا کے مجلس وعظ میں داخل ہوا، آپ اس وقت فرما رہے تھے کہ اٹھارہ ہزار عالم میں آدمی سے زیادہ ضعیف کوئی نہیں، اور انواعِ خلق سے حق تعالیٰ کا کوئی اتنا نافرمان نہیں جتنا کہ آدمی باوجود اس ضعیفی کے ایسے عظیم و بزرگ حق تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے، یہ بات مثل تیر کے احمد کی جان پر جا لگی اور وہ اس قدر رویا کہ بیہوش ہوگیا، پھر اٹھا اور روتا ہوا اپنے گھر گیا، نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور نہ سویا اور نہ کسی سے کلام کیا، دوسرے روز پیادہ فقیری لباس پہنے ہوئے آپ کے پاس آیا اور کہا کہ دنیا میرے دل پر سرد ہوچکی ہے مجھے سالکوں کا طریقہ بتادیجیے، آپ نے فرمایا سالکوں کے دو طریقے ہیں ایک عام دوسرا خاص، عام یہ ہے کہ پنجوقتہ نماز جماعت سے ادا کرے، اور اگر مال ہو تو زکوٰۃ دے، اور روزہ رمضان رکھے، اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرے، اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرے، اور خاص یہ ہے کہ دنیا کو ٹھوکر مارے، اور اس کی آرائش کی طرف مطلق متوجہ نہ ہو، اور اگر ملے بھی تو اس کو قبول نہ کرے، اور دل خدا سے باندھے، اور اس کے غیر کو نظر انداز کرے، یہ سن کر اس نے کہا اے استاد میں نے طریقۂ خاص اختیار کیا، آپ نے فرمایا جزاک اللہ خیرا۔ چنانچہ وہ جنگل کو چلا گیا، اور واصلانِ حق سے ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
ایثار
منقول ہے کہ جب آپ کو کوئی سلام کرتا تھا تو آپ عمدا تو شرولی کے ساتھ جواب دیتے تھے، ایک بار لوگوں نے پوچھا کہ باوجود ایسی شفقت و عنایت کے کہ آپ کو سب کے ساتھ ہے ایسا کرنے میں کیا راز ہے؟ فرمایا حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی سلام کرتا ہے تو سو رحمتیں نازل ہوتی ہیں، نوے اس شخص کے واسطے جو تازہ رو ہوتا ہے، پس میری تر شرولی اس غرض سے ہے کہ نوے رحمتیں اُسی سلام کرنے والے کے واسطے ہوں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
مقاماتِ فقر
مقامِ محبت
حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز آپ نے مجھ سے سوال کیا کہ محبت کیا ہے؟ میں نے کہا ایک جماعت نے کہا ہے کہ موافقت ہے، ایک جماعت نے کہا ہے کہ اشارت ہے، اور دوسروں نے اور بھی کچھ کہا ہے، یہ سن کر آپ نے اپنے ہاتھ کی کھال پکڑ کر کھینچی، ذرا بھی اوپر کو نہ اٹھی، فرمایا قسم ہے اس کی عزت و جلال کی اگر میں کہوں کہ یہ کھال اس کی محبت و دوستی میں سوکھ گئی ہے تو میں راست کہتا ہوں گا یہ کہہ کر بیہوش ہوگئے، اور آپ کا چہرہ مبارک مثل چاند کے دمکنے لگا، پھر فرمایا بندہ محبت میں اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی تیر یا شمشیر اس کو مارے تو بھی اس کو خبر نہ ہو، اور اس حال سے میرے دل میں کچھ خبر نہ تھی اس وقت تک کہ آشکارا ہوا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
مقامِ عشقِ حقیقی
حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے ہم کو کوئی وجہ بیماری کی معلوم نہ ہوتی تھی، میں آپ کا فارورہ شیشی میں ڈال کر ایک حکیمِ حاذق کے پاس لے گیا، وہ بڑی دیر تک اس کو دیکھتا رہا اور کہنے لگا کہ یہ قارورہ کسی عاشق کا ہے میں یہ سن کر بیہوش ہوکر گر پڑا، اور شیشی میرے ہاتھ سے گر گئی جب ہوش آنے پر میں آپ کی خدمت میں آیا تو سب حال عرض کیا، آپ نے متبسم ہوکر فرمایا کہ واقعی وہ طبیب قارورہ کو خوب پہچانتا ہے، میں نے عرض کیا کیا قارورہ میں بھی عشق ظاہر ہوجاتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔[۱] [۱۔ مذاق العارفین جلد چہارم باب دہم ۱۲]
مقامِ صبر
ایک بار آپ صبر کا ذکر کر رہے تھے کہ بچھو نے کئی ڈنگ آپ کے جسم اطہر پر لگائے مگر آپ نے اُف تک نہ کی۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
رویت الٰہی
آپ نے اپنے مرید سعید سید الطائفہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ وعظ کہا کرو انہوں نے آپ کی موجودگی میں اس کو خلاف ادب جانا، اور وعظ سے تاخیر کی، رات کو خواب میں ان کو حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی، انہوں نے بھی وعظ کہنے کو فرمایا، جب صبح آپ کے پاس خواب بیان کرنے آئے تو آپ نے اُن کو دیکھتے ہی فرمایا کہ اب تو تم کو حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھی ارشاد ہوا، تم کو وعظ کہنا ضرور ہے، کیونکہ تیرا وعظ اہل عالم کی نجات کا سبب ہوگا، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ہم کو حضرت فخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہوا ہے، آپ نے فرمایا کہ میں نے جناب باری تعالیٰ عز اسمہ کو خواب میں دیکھا، اُس نے فرمایا کہ میں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ہے تاکہ جنید رحمۃ اللہ علیہ کو وعظ کہنے کا حکم فرماویں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
مشاہدۂ جمالِ الٰہی و حضور ذاتِ اقدس
آپ کو ذات اقدس کا وصل بدرجۂ اتم جلال و جمال کے ساتھ حاصل ہوا۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوّف ۱۲ شرافت]
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات آپ کے پاس رہا، جب کچھ رات گئی تو مجھ سے فرمایا اے جنید! ابھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے حضور میں بار دیا، اور فرمایا اے سری رحمۃ اللہ علیہ میں نے جب خلق کو پیدا کیا، انہوں نے میری محبت کا دعویٰ کیا، پھر میں نے دنیا کو پیدا کیا تو نو حصے مجھ سے بھاگ گئے دسواں حصہ باقی رہ گیا، پھر میں نے جنت کو پیدا کیا تو اُس میں سے بھی نو حصے بھاگ گئے دسواں حصہ باقی رہا، پھر میں نے ذرہ بھر بلا نازل کی تو اس میں سے بھی نو حصے بھاگ گئے دسواں حصہ باقی رہا، پھر میں نے اُن سے کہا کہ تم نے نہ دنیا کا ارادہ کیا، نہ آخرت کی رغبت کی، نہ بلا سے بھاگے، اب تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم جو کچھ چاہتے ہیں تو اس کو خوب جانتا ہے، میں نے کہا اب میں تم پر ایسی بلا نازل کروں گا جس کی تمہیں برداشت نہ ہوگی، اور نہ اس کو سخت پہاڑ اٹھاسکیں گے، کیا تم اس کے لیے ثابت قدم رہو گے؟ انہوں نے کہا کیا تو اس کا کرنے والا ہمارے ساتھ نہیں ہے؟ ہم تیرے ساتھ راضی ہیں، تجھ میں تحمل کریں گے، تیرے لیے اٹھاویں گے، اور جس کو پہاڑ نہیں اٹھاسکتے اس کی برداشت کریں گے، میں نے ان سے کہا کہ تم میرے سچے بندے ہو۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
کرامات
کتاب آئینہ تصوف میں ہے کہ آپ سے ستر خوارق ظہور میں آئے۔ از انجملہ۔
استجابت دعا
ایک شخص تیس برس سے مجاہدہ میں مشغول تھا، لوگوں نے پوچھا یہ تم کو کس طرح حاصل ہوا، کہا حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے، پوچھا کس طرح، اس نے کہا میں ایک روز ان کے دروازہ پر گیا اور دستک دی، انہوں نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا آشنا، فرمایا اگر آشنا ہوتا تو مشغول ہوتا ، تجھے میری پروا نہ ہوتی، پھر آپ نے فرمایا یا الہ العالمین! اس کو اپنے ساتھ مشغول کر ایسا کہ اس کو کسی کی پروا نہ رہے، پس اسی دم کوئی چیز میرے سینہ میں داخل ہوئی، اور میرا کام اس درجہ کو پہنچا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
آپ فرماتے تھے کہ جب میں خبر پاتا ہوں کہ لوگ میرے پاس آ رہے ہیں کہ مجھ سے علم سیکھیں میں دعا مانگتا ہوں کہ الہی تو ان کو ایسا علم عطا کر یہ اس میں مشغول ہوجائیں تاکہ میں ان کے کام نہ آؤں، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے پاس آویں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
حج کی دعا
شیخ علی بن عبدالحمید الغضائیری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی اس کی برکت سے حق تعالیٰ نے مجھے چالیس حج پا پیادہ روزی کیے، جو میں حلب سے جاکر کرتا رہا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
پری کا پگھل جانا
حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز آپ کے پاس گیا، آپ کو متغیر دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا، فرمایا پریوں میں سے ایک جوان میرے پاس آیا اور پوچھا حیا کس کو کہتے ہیں، میں نے اس کا جواب دیا، وہ پانی ہوگیا جو تم دیکھتے ہو، میں نے جب دیکھا تو واقعی پری پانی ہوگیا تھا۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]
رویتِ حور
حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز آپ کے پاس گیا دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں، میں نے پوچھا کیوں روتے ہیں، فرمایا ایک لڑکے نے میرا کوزہ پانی ٹھنڈا کرنے کو لٹکادیا، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی، تو میں نے ایک حور کو دیکھا، پوچھا تو کس کی مملوکہ ہے، اُس نے کہا اُس شخص کی جس کا کوزہ پانی ٹھنڈا کرنے کو نہ لٹکایا جائے، اور پھر میرے کوزہ کو زمین پر ٹپک دیا کہ وہ چور چور ہوگیا، حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوزہ کے ٹکڑے دیکھے کہ پڑے تھے۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]
مکاشفہ
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک روز مسجد شونیزیہ کے دروازہ پر ابلیس کو دیکھا، پوچھا تجھے فقیروں پر قدرت ہے یا نہیں، اُس نے کہا نہیں کیونکہ جب میں اُن کو دنیا میں پھنسانا چاہتا ہوں تو وہ آخرت کی طرف بھاگتے ہیں،ا ور جب میں ان کو آخرت میں گرفتار کرنا چاہتا ہوں تو وہ مولےٰ کی طرف بھاگ جاتے ہیں، اور مجھ کو وہاں راہ نہیں، ہاں سماو و وجد کے وقت میں اُن کو دیکھتا ہوں کہ ان کا نالہ کہاں سے ہے یہ کہا اور غائب ہوگیا، جب میں مسجد میں داخل ہوا تو حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کو سر بزانو بیٹھے دیکھا، آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا وہ دشمن خدا جھوٹ کہتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو زیادہ عزیز ہیں اس سے کہ جبرئیل کو دکھاوے چہ جائیکہ ابلیس کو۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
خادمہ غپنی
ایک بار آپ کی بہن نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیویں تو میں آپ کو حجرہ صاف کرجایا کروں، آپ نے فرمایا میری زندگی صفائی کی اجازت دینے کے لیے نہیں ہے، کچھ دنوں کے بعد آپ کی بہن پھر آئیں تو دیکھا کہ ایک عورت جھاڑو دے رہی ہے، انہوں نے کہا کہ آپ نے مجھے تو اجازت نہ دی تھی، فرمایا میں نے اس کو بھی اجازت نہیں دی، اسے اللہ نے اجازت دی ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
عملیات
برائے حصولِ حکومت
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسمِ جمالی ہر نماز کے بعد پچاس بار پڑھے، خدا تعالیٰ اُس کو بادشاہی دیتا ہے، اور وہ شخص دنیا میں کسی چیز کا محتاج نہ ہوگا، اسم جمالی یہ ہے: یا ملک اجب یا اسرافیل یا حولائیل بحق یا ملک۔[۱] [۱۔ جواہر الاولیا جوہر دوم ۱۲]
برائے مہربانی حق تعالیٰ
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص روز یکشنبہ کو یہ تیرہواں اسم نوے بار پڑھے اللہ تعالیٰ اُس پر مہربان ہوجاوے گا، اور جو کچھ خدا سے چاہے گا پائے گا، تیرہواں اسم یہ ہے یا کریم انت الذی تکرم الانسان علی سائر الحیوان بعنایتہ۔[۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
مکتوبات
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے ایک کام بتایا، میں نے فوراً وہ کام کردیا، اور آپ کے سامنے ہوا، آپ نے ایک پرچہ کاغذ مجھے عطا فرمایا جس پر یہ لکھا تھا۔
سمعت حادیا یجدو فی البادیۃ
ابکی حذارا ان تفارفتی
یقول ابکی وما یدریک ما یب
وثقطی حبلی وتھجرینی
یعنی میں نے جنگل میں اونٹ والے کو گیت گاتے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ میں رو رہا ہوں اور تجھے کیا معلوم کہ مجھے کیا چیز رلا رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اور مجھ سے قطع تعلق کرکے مجھے چھوڑ دے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
کلمات طیبات
شعر خوانی
بعض صالحین کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس گیا دیکھا کہ آپ ایک کپڑے سے اپنا گھر جھاڑ رہے ہیں اور یہ اشعار پڑھتے جاتے ہیں۔
وما رمت الدخول علیہ حتی
واغمضت الجفون علی قذاھا
حللت محلۃ العبد الذلیل
وصنت انفس عن قال وقیل [۱]
[۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز آپ کو دیکھا کہ یہ شعر پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے۔
لا فی النھار ولا فی اللیل لی فرج
فلا ابالی اطال اللیل ام قصر [۱]
[۱۔ نفحات الانس ۱۲]
مناجات
آپ مناجات میں فرماتے تھے، الٰہی تیری عظمت نے مجھے تیری مناجات سے باز رکھا، اور تیری معرفت نے مجھ کو تیری انسیت عطا کی، اور اگر تو نے خود نہ فرمایا ہوتا کہ مجھ کو زبان سے یاد کرو تو میں ہرگز زبان سے تیری یاد نہ کرتا، کیونکہ زبان تیری یاد کے قابل نہیں ہے اس لیے کہ جو زبان لہو بازی سے آلودہ ہے وہ زبان تیرے ذکر میں کیسے کھولی جاسکتی ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء شرافت]
دنیا
فرمایا دنیا بالکل فضول ہے مگر پانچ چیزیں، روٹی کہ جان بچاوے، پانی کہ پیاس بجھاوے، کپڑا کہ ستر چھپاوے، گھر جو رہنے کے کام آوے، علم جس سے تو کام چلاوے۔
فرمایا: تیس برس ہوگئے کہ میں ایک الحمد کہنے پر استغفار کہہ رہا ہوں، لوگوں نے پوچھا کس طرح، فرمایا جس روز بغداد کے بازار میں آگ لگی تھی ایک شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ آپ کی دکان نہیں جلی ہے میں نے کہا الحمدللہ، پس اس شرم سے کہ میں نے اپنی بھلائی کو مسلمان بھایوں کی بھلائی پر ترجیح دی، اور دنیا کی سلامتی پر الحمدللہ کہا استغفار کرتا ہوں۔
عزلت
فرمایا جس کو اپنے دین کی سلامتی، اور اپنی جان و تن کی راحت، اور اپنے رنج و غم کی کمی منظور ہو، اُس کو چاہیے کہ خلق سے گوشہ گزینی کرے، کیونکہ اب زمانہ عزلت و تنہائی کا ہے۔
تکبر
فرمایا معصیت شہوت کی بخشش کی امید ہے، اور معصیت کبر و نخوت کی نہیں، معصیت آدم کی ازراہِ شہوت تھی، اور معصیت ابلیس کی ازراہِ کبر و نخوت۔
خوف
فرمایا اگر کوئی ایسے باغ میں جاوے جہاں بہت سے درخت ہوں، اور ہر ایک درخت پر ایک مرغ بیٹھا ہوا خوش الحانی سے کہہ رہا ہو السلام علیک یا ولی اللہ اور وہ نہ ڈرے کہ یہ مکر یا استدراج ہے تو اس سے ڈرنا چاہیے۔
استدراج
فرمایا: علامت استدراج کی کوری ہے عیوب نفس سے۔
مکر
فرمایا مکر ایک قولِ بے عمل ہے۔
ادب
فرمایا ادب دل کا ترجمان ہے۔
فرمایا جو اپنے ادبِ نفس سے عاجز ہے، وہ ادب غیر سے ہزار درجہ عاجز ہے۔
قول و فعل
فرمایا ایسے بہت لوگ ہیں جن کی گفتار موافق کردار کے نہیں، اور تھوڑے ہیں جن کی گفتار موافق کردار کے ہے۔
قدرِ نعمت
فرمایا جو قدرِ نعمت نہ پہچانے گا اُس کو زوال آئے گا، وہاں سے کہ وہ نہ جانے گا۔
اطاعت
فرمایا جو اپنے قوی کا مطیع ہے اُس کے زیر دست مطیع ہوں گے۔
قلب
فرمایا زبان دل کی ترجمان ہے، اور چہرہ دل کا آئینہ، کیونکہ دل کی حالت زبان اور چہرہ سے ظاہر ہوتی ہے۔
فرمایا دل تین قسم کے ہوتے ہیں ایک مثل پہاڑ کے کسی کے ہلائے نہیں ہلتا، اور دوسرا مثل بیخ درخت کے کہ ہو اسے کبھی کچھ ہل جاتا ہے، تیسرا مثل پر مرغ کے کہ ادنیٰ ہوا سے اڑ جاتا ہے۔
فرمایا دل ابرار کے معلق نجانمت، اور دل مقربین کے معلق بسابقت ہیں، اس لیے کہ دل ابرار کے نعمت کے خیال میں ہیں، اور نظر مقربین کی ازل پر ہے۔
فرمایا: حیا اور اُنس دل کے دروازہ پر آتے ہیں، اگر اس میں زہد و پرہیزگاری پاتے ہیں قیام کرتے ہیں، ورنہ لَوٹ جاتے ہیں۔
فرمایا: پانچ چیزیں ہیں جو دل میں قرار نہیں پکڑتیں اگر دل میں کوئی دوسری چیز ہو، خوف رجا، محبت، حیا، اُنس۔
قرب
فرمایا مقدار ہر مرد کی اپنے فہم میں بمقدار اُس کے قرب حق کے ہے۔
فہیم
فرمایا؛ فہیم ترین خلق وہ ہے جو قرآن کے اسرار سمجھتا ہے، اور اس میں غور و فکر کرتا ہے۔
سابق
فرمایا: سابق ترین خلق وہ ہے کہ حق پر صبر کرسکے۔
اولیاء
فرمایا: قیامت میں امتوں کو انبیاء علیہم السلام کے نام سے پکاریں گے، اور اولیاء کو خدا کے نام سے۔
شوق
فرمایا شوق برترین مقام عارفوں کا ہے۔
عارف
فرمایا عارف وہ ہے کہ کھانا اُس کا مثل کھانے بیماروں کے ہو، اور سونا اُس کا مثل سونے مارگزیدہ کے ہو، اور عیش اُس کا مثل اُس کے جو ڈوب رہا ہو۔
فرمایا: عارف آفتاب صفت ہے کہ سب پر چمکتا ہے، اور زمین شکل ہے کہ سب کا بوجھ اٹھاتا ہے اور آب ن ہاد ہے کہ زندگانی دلوں کی اس پرمنحصر ہے، اور آتش رنگ ہے کہ عالم اس سے روشن ہوتا ہے۔
تصوف
فرمایا تصوف تین معنوں کا نام ہے، ایک یہ کہ اس کی معرفت اس کے نور ورع کو نہ ڈھانپے، دوسرے یہ کہ عالم باطن میں کچھ تصرف نہ کرے جو نقیضِ ظاہر کتاب ہو، تیسرے یہ کہ اس کی کرامت لوگوں کو حرام سے باز رکھے۔
ذکر
فرمایا ب عض آسمانی کتابوں میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے بندے میرے جب میرا ذکر تجھ پر غالب آتا ہے تو میں تیرا عاشق بن جاتا ہوں۔
زہد
فرمایا علامت زہد کی یہ ہے کہ نفس طلب سے باز رہے، اور اس قدر پر قناعت کرے جس سے بھوکھ مٹے، اور اس قدر پر راضی رہے جس سے ستر چھپے، اور فضول سے نور رہے، اور خلق کو دل سے دور کرے۔
فرمایا: سرمایہ عبادت کا زہد ہے دنیا میں، اور سرمایہ فنوت کا روگردانی ہے دنیا سے۔ فرمایا: عیش زاہد پر خوش نہیں کہ وہ اپنے ساتھ مشغول ہو، اور عیش عارف پر خوش ہے جب وہ اپنے سے معزول ہو۔
فرمایا: میں نے سارے کام زہد کے اختیار کیے، اور جو کچھ چاہا ان سے حاصل کیا مگر زہد ہاتھ نہ آیا۔
ریاء
فرمایا جو شخص خلق میں اپنے کو ایسا ظاہر کرے جیسا کہ وہ نہیں ہےو ہ حق تعالیٰ کی نظر سے گر جائے گا۔
اختلاط
فرمایا جس کو لوگوں کے ساتھ بہت آمیزش ہے، اُس میں صدق کی کمی ہے۔
حسن خلق
فرمایا: حسن خلق یہ ہے کہ تو کسی کو نہ ستاوے بلکہ سب کا رنج بلاکینہ مکافات سہے، کسی سے شک و گمان پر قطع نہ کرے، اور اس کی صحبت سے دست کش نہ ہو۔
قوت
فرمایا: قوی ترین قوت یہ ہے کہ اپنے نفس پر غالب آوے۔ فرمایا: قوی ترین خلق یہ ہے کہ اپنے غصہ پر غالب آوے۔
اجتناب از گناہ
فرمایا: گناہ سے باز رہنے کے تین سبب ہیں، ایک خوفِ دوزخ دوسرے رغبت بہشت، تیسرے شرم خدا۔
کمال
فرمایا بندہ کامل نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے دین کو شہوات پر ترجیح نہیں دیتا۔
نصائح
فرمایا اے جوانو کام میں جوانی کرو پیشتر اس کے کہ تم بڑھاپے کو پہنچو، اور ضعیف و کمزور ہوجاؤ، اور تقصیر میں رہو۔
فرمایا: دور رہو تونگر ہمسایوں، اور بازاری قاریوں، اور امراء کے عالموں سے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء / مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
معرفین کمال
۱۔ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ میں نے کسی کو عبادت و ریاضت میں کامل تر شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں دیکھا، ستر برس گزر گئے کہ آپ نے پہلو زمین پر نہ لگائے مگر مرض موت میں۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
۲۔ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر شیخ سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کے پیرو تھے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
۳۔ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں سوائے حضرت شیخ سری سطقی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی سے سوال نہ کرتا تھا، اس لیے کہ میں آپ کے زہد سے واقف تھا، اور جانتا تھا کہ جب آپ کے ہاتھ سے کوئی چیز باہر جاتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
۴۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے مشائخ کو دیکھا ہے مگر کسی کو حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے برابر اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر شفیق نہیں پایا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]
۵۔ حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ ابوالحسین سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں اور استاد تھے، اور معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد، ورع اور مقاماتِ عالیہ اور علم توحید میں یکسائے روزگار تھے۔[۱] [۱۔ ازالۃ الخفا جلد سوم ۱۲]
خلفائے کرام
صاحب آئینہ تصوف نے لکھا ہے کہ خلیفہ اکبر آپ کا ایک، اور خلیفہ اصغر دو، اور صاحب مجاز ستر تھے۔
۱۔ سیّد الطائفہ حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
ان کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت شیخ ابو سعید احمد بن عیسیٰ خرّاز رحمۃ اللہ علیہ
بغدادی الاصل تھے، صوفیہ کی محبت سے مصر گئے، مکہ مکرمہ میں بھی مجاور رہے، امام وقت شیخ زمانہ تھے، محمد بن منصور طوسی رحمۃ اللہ علیہ، ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ، ابو عبیداللہ بسری رحمۃ اللہ علیہ، بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رہی، معاصرین مشائخ ان کو قمر الصوفیہ کہتے تھے، سب سے پہلے علم فناء و بقاء میں انہیں نے کلام کیا ہے۔[۱] [۱۔ نفحات الأنس ۱۲ شرافت]
ایک دن مسجد الحرام میں بیٹھے تھے، ایک شخص آسمان سے اُترا اور پوچھا دوستی کی علامت اور صدق کیا ہے؟ فرمایا وفاداری، اس نے کہا صَدَقْت، تصوف میں چار سو کتاب تصنیف کی۔[۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
طریقہ خرازیہ انہیں کی طرف منسوب ہے، فرمایا ہے ریاء العارفین خیر من اخلاص المریدین، ان کے اشعار یہ ہیں
الوجد بطرب من فی الوجد راحتہ
قد کان یطربنی وجدی فاذھلنی
والوجد عند وجود الحق مفقود
عن رؤیۃ الوجد من بالوجد مقصود
۲۸۶ھ میں انتقال کیا، مکہ متبرکہ میں مدفون ہوئے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
ان کے دو مرید اکابرِ وقت سے تھے ابوبکر محمد بن عبداللہ شقاق رحمۃ اللہ علیہ اور ابو شعیب صالح المقنع مصری رحمۃ اللہ علیہ۔
۳۔ حضرت شیخ ابوحمزہ محمد بن ابراہیم بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
عیسیٰ بن ایان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے، بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، ابوبکر کتانی رحمۃ اللہ علیہ اور خیر نستاج رحمۃ اللہ علیہ ان سے حدیث روایت کرتے ہیں، فرمایا ہے حب الفقر شدید ولا یصبر علیہ الا صدیق۔ اور فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعرض عن الجاھلین (الاعراف، ع ۲۴) اور نفس جاہل ترین جاہلاں ہے، اس لیے اس سے اعراض سزاوار تر ہے، ۲۸۹ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۳]
۴۔ حضرت شیخ ابو احمد مصعب بن احمد بن مصعب القلانسی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ
مروی الاصل تھے، قد مائے مشائخ سے صوفی اور زاہد کے نام سے مشہور تھے، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ اور رویم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رہی، ۲۹۰ھ کا حج کرکے جلدی ہی انتقال کیا۔ مکہ مکرمہ میں مفون ہوئے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
۵۔ حضرت شیخ ابوالحسن احمد بن محمد نوری بغوی رحمۃ اللہ علیہ
بغداد میں پیدا ہوئے ان کے والد بغشور کے تھے۔ اس لیے یہ ابن البغوی بھی کہے جاتے ہیں، محمد بن علی قصاب رحمۃ اللہ علیہ اور احمد بن ابی الحواری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، مشایخ وقت ان کو امیر القلوب کہتے تھے۔[۱] [۱۔ بغشور بفتح بار موحدہ و سکون غین معجمہ وضم شین معجمہ و سکون دا و مجہول وراء مہملہ ایک شہر ہے درمیان ہرات دمرو کے ۱۲]
جب یہ کلام کرتے تو ان کے منہ سے ایسا نور ظاہر ہوتا کہ رات کے وقت تمام گھر روشن ہوجاتا، اسی لیے لوگ ان کو نوری کہتے تھے۔[۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
سلسلہ نوریہ انہیں کی طرف منسوب ہے، فرمایا ہے اذا استتر الحق عن احدٍ لم یھدہ استدلال ولا خبر۔ اور فرمایا ہے نظرت یوما الی النور فلم ازل انظر الیہ حتی صرت ذالک النور۔ جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ذھب نصف ھذا العلم نبوت النوری۔ ۲۹۵ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
ان کے سلسلہ میں سید ابراہیم برہان الدین رسوقی رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے سلسلہ رسوقیہ مشہور بزرگ گزرے ہیں، وہ مرید شیخ شریف عبدالسلام بن شیث رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوالقرٰے مغربی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوایوب ساریہ رحمۃ اللہ کے، وہ مرید شیخ عبدالجلیل تلمسانی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید شیخ ابوالفضل جوہری رحمۃ اللہ کے، وہ مرید شیخ ابوعبداللہ حسین جوہری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ کے رضوان اللہ علیہم۔ [۱] [۱۔ خلاصۃ السّلاسل ۱۲]
۶۔ حضرت شیخ ابوالحسن سمنون بن حمزۃ المحب الکذاب رحمۃ اللہ علیہ
محمد بن علی قصاب رحمۃ اللہ علیہ اور ابو احمد قلانسی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے، اپنے آپ کو کذاب مشہور کر رکھا تھا، لیکن مشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو امام المحبت کہا ہے، ہر دن رات میں پانسو رکعت نفل پڑھا کرتے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
ایک شخص نے بغداد میں چالیس ہزار درم صدقہ دیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو صدقہ کی طاقت نہیں اس لیے ہر درم کے بدلے ایک رکعت ادا کرتے ہیں، پھر چالیس ہزار رکعت نوافل ادا کیے۔‘‘[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
ایک روزیت بیت الحرام میں وعظ کر رہے تھے۔ سامعین کی توجہ نہ تھی، قندیلوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں تم سے محبت کی بات کہہ رہا ہوں، وہ تمام رقص کرنے لگیں اور ایک دوسری سے ٹھکڑ ا کر ٹوٹ گئیں۔[۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
ایک روز کنارۂ دجلۂ پر ایک چھڑی اپنی رات پر مار رہے تھے، لہو جاری تھا اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ ؎
کان لی قلب اُعیش بہٖ
ربّ فارددہ علیّ فقد
واَغِث مادام بی رمقٌ
ضاع منّی فی تقلّبہٖ
ضاق صدری فی تطلّبہٖ
یا غیاث المستغیث بہٖ[۱]
[۱۔ نفحات الانس ۱۲]
فرمایا ہے اوّل وصال العبد للحقّ ھجرانہٗ لنفسہٖ و اوّل ھجران لعبد للحقّ مواصلتہٗ لنفسہٖ۔ [۱۔ نفحات الانس ۱۲] ۲۹۸ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
۷۔ حضرت شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن مسروق بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
اہل طوس سے تھے، بغداد میں سکونت رکھی، حارث محاسبی رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن منصور رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن حسین البُر جُلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے، اجلہ مشائخ قوم سے تھے، [۱۔ نفحات الانس ۱۲] مقامِ قطبیت حاصل تھا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
فرمایا ہے من ترک التّدبیر عاش فی راحۃٍ۔ تصوّف کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا خلوّا الاسرار ممّا منہ بُدّ وتعلّقہا بمالیس منہ بُدّ۔ ۲۹۹ھ میں انتقال کیا، قبر بغداد میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
۸۔ حضرت شیخ ابو الحسن محمد خیر بن اسمٰعیل نساج رحمۃ اللہ علیہ
اہل سامرہ سے تھے، بغداد میں سکونت رکھی، ابو حمزہ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے روزانہ دریائے دجلہ پر جا کر عبادت کیا کرتے، بوقتِ عبادت مچھلیاں آپ کے پاس جمع ہوجایا کرتیں، اور دریائی تحفے لاتیں، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ۱۲]
ابو الحسین مالکی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان کی وفات کے وقت میں حاضر تھا، ان کو غشی ہوئی جب ہوش آئی تو آنکھ کھولی، فرشتہ موت نظر پڑا، اُس کو کہا قِف عافاک اللہ۔ پھر وضو کر کے نماز شام ادا کی اور فوت ہوئے، وفات کے بعد کسی کو خواب میں ملے اُس نے پوچھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ فرمایا لا تسألنی عن ھٰذا ولکن استرحت من دنیا کم القذرۃ۔ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ اِن کے متعلق فرمایا کرتے خَیْرٌ خَیْرُمَا انہوں نے بعمر ایک سو بیس سال ۳۲۲ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
۹۔ حضرت شیخ ابو علی حسن بن علی المسوحی رحمۃ اللہ علیہ
کبار اصحابِ شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے تھے، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے اُنس کے متعلق پوچھا تو فرمایا۔ ویحک لومات من تحت السماء ما استوحشتُ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
۱۰۔ حضرت شیخ ابو علی احمد بن ابراہیم المسوحی رحمۃ اللہ علیہ
بغداد کے اجلّہ مشائخ سے تھے، حسن مسوحی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا، ہمیشہ ایک پیراہن اور چادر و جوتی سے بغیر کسی اور زاد و راحلہ کے حج کیا کرتے، اور ایک سیب شامی کوزہ میں رکھ لیتے، اس کی خوشبو سونگھ کر گذارہ کرتے، اسی طرح بغداد سے مکہ پہنچ جاتے، فرمایا ہے مَن فتح لہٗ شئی من غیر مسئلۃۃ فردہ وھو محتاج الیہ اَحْوَجَہ اللہ الٰی ان یأخذ مثلہ بمسئلۃ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]
۱۱۔ حضرت شیخ احمد بن ابی الورد رحمۃ اللہ علیہ
عراق کے بزرگ مشائخ سے تھے، حارث محاسبی رحمۃ اللہ و بشر حانی رحمۃ اللہ علیہ و ابو الفتح حمال رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، فرمایا ہے اللہ تعالیٰ جب ولی کے لیے تین چیزیں بڑھاتا ہے تو وہ بھی تین چیزیں بڑھاتا ہے، جب اللہ تعالیٰ جاہ و مرتبہ کو زیادہ کرتا ہے تو وہ فروتنی و تواضع کو زیادہ کرتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ مال کو زیادہ کرتا ہے تو وہ سخاوت کو زیادہ کرتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ عمر کو زیادہ کرتا ہے تو وہ اجتہاد و عبادت کو زیادہ کرتا ہے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
۱۲۔ حضرت شیخ ابوالحسن محمد بن ابی الورد رحمۃ اللہ علیہ
مشہور مشائخ عراق سے تھے، احمد بن ابی الورد رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی بھائی ہیں، ان سے ولی کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا من یوالی اولیاء اللہ ویعادی اعداءہٗ، فرمایا ہے لوگوں کی ہلاکت دو چیزوں میں ہے، فرضوں کو ترک کرکے نفلوں میں شاغل ہونا، اور جوارح سے عمل کرنا جس میں دل موافق نہ ہو، اور فرمایا ہے فقرا کے آداب سے ہے کہ دنیا داروں کو ملازمت و سرزنش نہ کریں، بلکہ ان پر رحمت و شفق کریں، اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو دنیا سے خلاصی دیوے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
۱۳۔ حضرت شیخ احمد بن یزید کاتب رحمۃ اللہ علیہ
خلیفہ وقت کے مصاحبانِ خاص سے تھے، حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے تاثیر کلام سے دنیا کو ترک کردیا اور جنگل کو نکل گئے، خدا کے سوا کسی سے کام نہ تھا، وفات کے وقت حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کو پیغام بھیجا، وہ تشریف لائے، تو یہ قبرستان میں خاک پر لیٹے ہوئے آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے لمثل ھٰذا فلیعمل العٰملون (الصّافات۔ ع ۲) حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا سر اٹھاکر گود میں رکھ لیا، انہوں نے اسی حال میں انتقال کیا، دیکھا گیا تو آبادی کی طرف سے بے شمار مخلوق آرہی تھی، سب نے کہا کہ ہم نے آسمان سے ندا سنی ہے کہ جس نے ہمارے ولی کا جنازہ پڑھنا ہو وہ مقبرہ شونیزیہ میں جائے۔ چنانچہ وہیں مدفون ہوئے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]
۱۴۔ حضرت شیخ سلیمان بن مسعود العمری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ علیہ کی اولادِ امجاد سے تھے، علوم ظاہری و باطنی کے عالم تھے، بغداد کہنہ میں حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت پائی۔[۱] [۱۔ جواہر مجدّدیہ]
ان کی اولاد سے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر اولیاء اللہ گزرے ہیں۔
۱۵۔ حضرت اُم محمد رحمۃ اللہ علیہ
عارفاتِ کاملات سے تھیں، ان کا لڑکا محمد نام ایک معلم کے پاس پڑھتا تھا، ایک دن استاد نے اسے چکی پیسنے بھیجا تو وہ ندی میں ڈوب کر مرگیا، ان کو خبر لگی تو کنارہ دریا پر جاکر آواز دی اے محمد! وہ اسی وقت زندہ ہوکر باہر چلا آیا [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]
سلسلہ سقطیہ
آپ سے جو سلسلہ فقر چلا اُس کا نام صنف فقرا میں سقطیہ کہا جاتا ہے۔ تاریخ الاولیا میں ہے کہ سلسلہ سقطیہ کے درویش صائم الدہرو قائم اللیل ہمیشہ خلوت میں رہتے ہیں، اور بعد تین روز کے افطار کرتے ہیں۔
واقعۂ وفات
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ بغداد میں مروں اس خوف سے کہ زمین مجھے قبول نہ کرے گی، اور میں رسوا ہوں گا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]
آپ بیمار ہوئے تو حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کو پنکھا جھل رہے تھے، آپ نے فرمایا اے جنید! اس کو رکھ دو، کیونکہ آگ ہو اسے تیز ہوتی اور بھڑکتی ہے، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا آپ کس طرح ہیں؟ فرمایا عبداً مملوکاً لا یقدر علٰی شیء (النحل ع۱۰)۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]
آخری وصیت
حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کچھ وصیت فرمائیے، آپ نے فرمایا اے جنید! خلق کی صحبت کے باعث حق تعالیٰ کی صحبت سے غافل و محروم مت ہونا۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]
کلماتِ شوقِ وصال
حضرت عبداللہ بن فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر تھا، اور آپ کی جان نکل رہی تھی، آپ نے میری طرف دیکھا تو میں رو رہا تھا، فرمایا اے ابومحمد! تو کیوں روتا ہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کا حال دیکھ کر روتا ہوں، فرمایا تو مت رو، اس لیے کہ میں نے اپنا حساب اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھا ہے، بیس برس تک تو میں نے اُس کو ڈھونڈا یہاں تک کہ میں نے اُس کو پایا جب اس کو پایا تو اس نے مجھ سے خدمت چاہی، پس بیس برس تک میں نے اُس کی خدمت کی، پھر اُس نے مجھے رلایا تو بیس برس تک میں اُس پر رویا، پھر اُس نے مجھے مشتاق کیا تو بیس برس تک اس کی طرف مشتاق رہا، پھر اُس نے مجھے فنا کیا تو بیس برس تک اُس میں فانی رہا، اور اب میں آرزو رکھتا ہوں کہ اُس کو دیکھوں، فابقیٰ لہ وبہ ومعہٗ اے ابو محمد! اب تجھے چاہیے کہ مجھے مبارک باد دے، پھر آپ نے وفات پائی۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
تاریخ وفات
حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحب نفحات الانس و سفینۃ الاولیاء و تاریخ الاولیا و مسالک السالکین جلد اول بوقتِ صبح بروز سہ شنبہ [۱] [۱۔ تقویم تاریخی کی رُو سے ۳؍ رمضان ۲۵۳ھ کو شنبہ کا دن تھا ۱۲ شرافت] بتاریخ تیسری رمضان المبارک ۲۵۳ھ دو سو تریپن ہجری مطابق ۸۶۷ آٹھ سو ستاسٹھ عیسوی میں بعہد خلافت المعتز باللہ بن المتوکل خلیفہ ۱۳ سیز دہم عباسی کے ہوئی۔
مدفنِ پاک
آپ کا مزار پر انوار بغداد شریف کہنہ گورستانِ شونیزیہ میں ہے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲] پاس مسجد بھی ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
قطعۂ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفےٰ صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ
سری سقطی چو از دنیا بروں رفت
چو نو شاہی زہاتف جست ترحیل
بجنت یافت عزت بیش آں میر
ندائے گشت طیب ہادی پیر (۲۵۳)
منہ
چوں سری سقطی بجنت جائے کرد
طیب اللہ ثراہ وِرد گو
فضل و رحمت گشت بروے از خدا
گفت نوشاہی وصالش پیرما (۲۵۳)
منہ
بجنت پاک چوں شد پیر مہتاب
وصالش بو دزاہد (۲۵۳) قطب اقطاب
منہ
ز دنیا رفت پیر ما چو سالم
وفاتِ او ولی اللہ (۲۵۳) عالم
منہ
در جناں رفت عابدِ معبود
انتقالِ ولی دلاور بود (۲۵۳)
منہ
تابع پیر جن و انس و دَو
رحلتِ پیر منعمِ (۲۵۳) احمد
دیگر
از اسماء الحسنےٰ
والی جبار (۲۵۳) سمیع جلیل (۲۵۳) مجیر (۲۵۳)
موسع مولا (۲۵۳) حق مھیمن (۲۵۳) قوی واسع (۲۵۳)
معز مومن (۲۵۳)