حضرت شیخ سرّی سَقطی

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی الشیخ سِرّیِّ نِ السَّقْطِیِّ رضِی اَللہ تعالیٰ عنہ

بہر معروف و سری معروف دے بیخود سری

جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے

ولادت شریف:

آپ کی ولادت تقریباً ۱۵۵؁ھ میں بغداد شریف میں ہوئی۔

اسم مبارک:

آپ کا نام نامی واسم گرامی سرّالدین اور رکنیت ابوالحسن ہے۔ اور مشہور نام سری [1]سقطی [2]ہے[3]۔

ابتدائی حالات: آپ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ ابتدائے حالات طریقت سے کچھ آگاہ فرمائیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک روز حضرت حبیب راعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر میری دوکان سے ہوا۔میں نے انہیں روٹی کے کچھ ٹکڑے عنایت کئے تاکہ فقراء میں تقسیم فرمادیں اس وقت انہوں نے مجھے دعا سے نوازا اور ارشاد فرمایا کہ خدا تجھے نیکی کی توفیق دے یہاں تک کہ اسی دن سے اپنی دنیا کو سنوارنے کا خیال میرے دل سے جاتارہا[4]۔

بیعت و خلافت:

آپ حضرت شیخ معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرید و خلیفہ تھے اور انہیں سے علوم ظاہر و باطن اکتساب فرمایا ۔

والدِ ماجد:

آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت مغلس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا[5]۔

فضائل:

نفس کشتۂ مجاہد ہ، دل زندۂ مشاہدہ، سالک حضرت ملکوت، شاہد عزت وجبروت، نقطہ دائرہ لایقطی حضرت شیخ وقت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے دسویں امام و شیخ طریقت ہیں، آپ وہل تصوف کےا مام اور اصناف علم میں کمال رکھتے تھے۔ علم و ثبات کے پہااڑ اور مروت و شفقت میں یکتائے زمان تھے اور رموز و اشارات میں یگانۂ روزگار تھے۔ حضرت فضیل ابن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد رشید تھے۔ اور آپ تبع تابعین سے تھے۔

سب سے پہلے جس نے حقائق ومعارف کو بغداد میں نشر فرمایا وہ آپ ہی ہیں۔ اور عراق کے بہت سے مشائخ آپ کے سلسلہ اردات سے منسلک تھے۔ آپ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماموں اور شیخ طریقت تھے۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ طریقت جیسا کامل کسی کو بھی نہیں دیکھا اور حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ کے سوا کسی سے سوال نہ کرتا تھا کیونکہ میں آپ کے زہد و تقویٰ سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ جب آپ کے دستِ مبارک سے کوئی چیز باہر جاتی ہے تو آپ خوش ہوتےہیں[6]۔

اشتیاق دیدار الٰہی:

آپ اکثر یوں فرمایا کرتے اَللّٰہُمَّ مَھْمَا عَذَّبْتَنِیْ بِہٖ مِنْ شَئٍ فَلَا تُعَذِبْنِی بذُلِّ الحِجَابیعنی اے خدا! اگر مجھے کسی چیز سے عذاب پہنچانا ہے تو تجھے اختیار ہے اور اس کے لیے میں حاضر ہوں لیکن وہ عذاب حجاب کی ذلت کا نہ ہو۔ کیونکہ تجھ سے حجاب میں نہ ہونے کی صورت میں آنے والی بلائیں اور تیرا عذاب ترے ذکر اور مشادہ کی بدولت معلوم نہ ہوگا۔ لیکن اگر تجھ سے حجاب میں رہوں تو تیری ابدی نعمتیں بھی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوں گی۔ حجاب وہ بلا ہے کہ خود دوزخ میں بھی اس سے زیادہ سخت کوئی عذاب نہیں ہے۔ اگر دوزخیوں کو دوزخ میں اللہ تعالیٰ کا مشاہد حاصل ہوتا تو انہیں ایسا سرور حاصل ہوتا کہ بدن پر عذاب کی تکلیف اور جسمانی آزار کو یکسر بھول جاتے اور عذاب و بلا کا احساس تک نہ ہوتا بہشت کی نعمتوں میں دیدار الٰہی سے بڑھ کر کوئی نعمت کامل تر نہیں ہے۔ اگر اہل بہشت کو وہ تمام نعمتیں بلکہ اس سے بھی سیکڑوں گنا مزید نعمتیں حاصل ہوں ، لیکن دیدارالٰہی حاصل نہ ہو تو وہ دل و جان سے ہلاک و برباد ہوکر رہ جائیں[7]۔

آیتِ قرآنی کی تشریح:

حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ارشاد ربانی صْبِرُوْاوَصَابِرُو ورابِطُو کی تشریح اس طرح ارشاد فرماتے ہیں۔ سلامتی کی توقع رکھتے ہوئے شدائد دینوی پر صبر کرو، اور جنگ کے وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو، اور نفس لوّامہ کی خواہشات کو روک دو، اور ان باتوں سے بچو جن کا انجام ندامت ہے۔ جب یہ شرائط بجا لاؤ گے تو امید ہے کہ عزت وکرامت کی بساط پر تم کامیابی حاصل کرسکو۔[8]

قول و فعل میں مطابقت:

حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مشائخ کرام سے مظہر تھے اور قول و فعل میں ان کے نقش قدم پہ تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی بارگاہ میں آپ کے ایک عقیدت کیش حاضر ہوئے اور مسئلہ صبر کی تشریحات آپ سے چاہی؟ آپ صبر کے موضو ع پر تقریر فرمانے لگے، اثنائے تقریر ایک بچھو آپ کے پاؤں میں ڈنک مارنے لگا۔ تو لوگوں نے کہا حضور! اس کو مار کر ہٹا دیجیے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں جس موضوع پر تقریر کررہا ہوں اس کے خلاف کام کروں ۔ یعنی بچھو کے ڈنک کے مارنے پر بے صبری کا اظہار کروں[9]۔

آپ کے شیخ طریقت کی دعا کی برکت:

حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک روز آپ کے پیر ومرشد حضرت معروف کرخی ایک یتیم بچے کو ساتھ لے کر آپ کرخدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ارشاد فرمایا کہ اس یتیم بچے کو کپڑے پہنادو، میں نے اس بچے کو کپڑا پہنادیا اس کے بعد آپ نے میرے حق میں یہ دعا فرمائی: خدائے تعالیٰ دنیا کو تیرے لیے دشمن کردے اور تجھے اس شغل سے راحت دے۔ تو آپ کی اس دعا کی یہ برکت ظاہر ہوئی کہ یکبارگی میں دنیا سے فارغ اور کنارہ کش ہوگیا[10]۔

آپ کی منکسر المزاجی:

حضرت سرّی سقطی بڑے منکسر المزاج تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تیس سال ہوگئے کہ میں ایک ہی شکر پر استغفار کررہا ہوں، لوگوں نے پوچھا ک کس طرح؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ایک روز بغداد کے بازار میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے بازار کی تمام دوکانیں جل گئیں مگر میری دوکان جلنے سے محفوظ رہی اور اس وقت میں اپنے گھر موجود تھا۔ایک شخص نے آکر مجھ کو یہ خبر دی کہ آپ کی دوکان نہیں جلی؟ میں نے فوراً الحمدللہ کہا۔ توصرف اس خیال سےکہ میں نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمان بھائیوں سے بہتر خیال کیا اور دنیا کی سلامتی پر شکر کیا۔ اپنے اسی قصور پر مسلسل استغفار کررہا ہوں[11]۔

کاروبار کی سچائی:

حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتداء میں تجارت کرتے تھے اور پانچ فیصد سے زیادہ نفع لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے بادام بغرض تجارت خریدا اور چند ہی دنوں کے بعد بادام کا بھاؤ بہت چڑھ گیا۔ ایک دلّال آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ آپ اپنے باداموں کو مجھ سے فروخت کردیجیے تو آپ نے فرمایا کہ تم ترسٹھ دینار میں اس کو خریدو؟ اس دلّال نے کہا کہ اس وقت باداموں کی قیمت نوے دینارہے۔ اس پر آ پ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تویہی قصد کرلیا ہے کہ پانچ فیصد سے زیادہ منافع نہیں لونگا، اور میں اپنی رائے کو تبدیل کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ تو دلّال نے کہا کہ میں آپ کے مال کو موجود وقت کے بھاؤ سے کم پر بیچنا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ مال اسی طرح پڑا رہا اور دنہ دلال کم بیچنے پر راضی ہوا اور نہ آپ زیادہ پر راضی ہوئے[12]۔

ایک وعظ کی مجلس:

حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بغداد شریف میں تقریر فرمارہے تھے کہ خلیفہ بغداد کا ایک مصاحب احمد بن یزید بڑے ہی کرّوفر سے حاضر ہوا اور آپ کی تقریر سننے کے لیے بیٹھ گیا اس وقت آپ یہ ارشاد فرمارہے تھے کہ تمام مخلوقات میں انسان سے زیادہ ضعیف کوئی مخلوق نہیں مگر باوجود اس قدر ضعف کے گناہ کرنے میں کتنا جری اور بہادر بنتا ہے افسوس ، صد افسوس۔ آپ کے ان فقروں کا احمد بن یزید کے دل پر خاص اثر ہوا۔ اور تقریر ختم ہونے پر اپنے مکان پہنچا اور رات کو کھانا بھی نہیں کھایا اور اسی بھوک کی حالت میں شب بھر آہ و بکا و گریہ وزاری دوسرے دن فقیروں کا لباس پہن کر حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا کہ: کل آپ کے وعظ نے میرے دل میں گھر کرلیا ہے اس لیے اب آپ خدا کے تقرب کا راستہ مجھے بتائیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا :

عام راستہ یہ ہے کہ نماز پنجگانہ جماعت کے ساتھ ادا کرو۔ مال ہو تو اس کی زکوٰۃ دو۔ اور تمام احکام شریعت کی پوری پابندی کرو؟ خاص راستہ یہ ہے کہ دنیا سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی سوائے اس کی رضا کے کسی دوسرے کو طلب نہ کرو۔ آپ کی نصیحت یہیں تک پہنچی تھی کہ احمد بن یزید فوراً کھڑے ہوگئے اور سیدھے جنگل کی طرف چل دیے۔ کچھ دنوں کے بعد احمد بن یزید کی ماں روتی ہوئی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ حضور! میرا صرف ایک ہی فرزند تھا، جو آپ کی نصیحت کو سن کر نہ معلوم کہاں چلا گیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے ضعیفہ غم گین نہ ہو عنقریب تیرا لڑکا حاضر ہوگاتو تیرے پاس میں خبر کرودوں گا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد وہ فقیروں کی صورت بنائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر چند ہی لمحوں کے بعد جنگل کی جانب چل دیے یہان تک کہ پھر دوسری مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ ہی کی گود میں ان کا وصال ہوگیا[13]۔

خواب میں شرفِ دیدار الٰہی:

حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں خواب میں دیدارِ الٰہی کی عظیم دولت سے مشرف ہوا اور اس کا یہ ارشاد سنا کہ: اے سری ! جب میں نے انسان کو پیداکیا تو بیک زنبا سب نے مل کر میری محبت کادعویٰ کیا، لیکن جب میں نے دنیا کو پیدا کرکے انسان کو عالم وجود میں ظاہر کیا تو دس ہزر میں سے نو ہزار نے دنیا عیش وآرام کو پسند کرلیا اور مجھ سے فراموشی اختیار کرلی اور جو ایک ہزار باقی رہے جب جنت اور اس کی روح افزاء بہاروں کو پیدا کرکے اس کے سامنے پیش کیا تو اس باقی ایک ہزار میں سے نو سو تو جنت کے طالب ہوگئے اور صرف ایک ہی سو باقی رہ گئے پھر میں نے ایک سو کی آزمائش کے لیے انہیں بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کیا تو ان میں سے نوے آدمی ان مصیبتوں کے سبب مجھے بھول گئے اور اس سے صرف دس باقی رہے انہیں دسوں سے میرا خطاب ہے۔

اےلوگو! نہ تم نے دنیا کے عیش و آرام کو چاہا، اور نہ فقط جنت ہی کے لالچ میں میرے خاص بندے بنے، نہ بلاؤں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو کر مجھ سے بھاگے۔اے سرّی! اس پر وہ بندے بولے کہ پروردگارِعالم ہم اپنے سب سے پہلے عہد بَلٰیٰ شھدنایعنی بیشک تو ہے ہم گواہ ہوئے اس پر قائم ہیں۔ تو پھر اے سرّی ہم نے اپنے خاص بندوں کو جواب دیا مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے تواللہ تعالیٰ بھی اس کا ہوجاتا ہے[14]۔

محبت کی تشریح:

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ محبت کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ موافقت ہے دوسری جماعت نے نے کہا ہے کہ اشارت ہے اور تیسری جماعت نے اور بھی کچھ کہا ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے دستِ مبارک کی کھال کو پکڑ کر کھینچی تو ذرابھی اوپر کی طرف نہ اٹھی اور ارشاد فرمایا کہ قسم ہے رب کائنات کے عزت و جلال کی اگر میں یہ کہوں کہ یہ کھال اس کی محبتمیں سوکھ گئی ہے تو میں سچ کہتا ہونگا اور کہ کہہ کر آپ بیہوش ہوگئے، آپ کا چہرہ چاند کی طرح دمکنے لگا اور پھر فرمایا کہ بندہ محبت میں اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی شمشیر لے کر بھی اس کو مارے تو اس کو خبر نہ ہو[15]۔

شرابی کو نمازی بنادینا:

آپ نے ایک مرتبہ ایک شرابی کو دیکھا جو نشے کی حالت میں مدہوش زمین پر گرا ہواتھا اسی نشے کی حالت میں اللہ، اللہ کہہ رہا تھا آپ نے اس کا منہ پانی سے صاف کیا اور فرمایا کہ اس بے خبر کو کیا خبر کہ ناپاک منہ سے کس ذات پاک کا نام لے رہا ہے؟ آپ کے جانے کے بعد جب شرابی ہوش میں آیا تو لوگوں نے اس کو بتایا کہ تمہاری بیہوشی کی حالت میں حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تھے اور تمارا منہ دھوکر چلے گئے ہیں؟ شب شرابی یہ سن کر بہت ہی شرمندہ ہوا اور شرم و ندامت سے رونے لگا۔ اور نفس کو ملامت کرکے بولا۔ اے بے شرم! اب تو حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تم کو اس حالت میں دیکھ کر چلے گئے ہیں، خدا سے ڈرو اور آئندہ کے لیے توبہ کر۔ رات میں حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ندائے غیبی سنی کہ اےسری سقطی! تم نے شرابی کا منہ میری وجہ سے دھویا، میں نے تمہاری خاطر اس کا دل دھو دیا ہے۔ جب حضرت نماز تہجد کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے تو اس شرابی کو تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے اندر یہ انقلاب کیسے آگیا۔ تو اس نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے کیوں دریافت فرمارہے ہیں جبکہ خود آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگاہ فرمادیا ہے[16]۔

پری کاموم کی طرح پگھل جانا:

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا تو آپ کے حال کو متغیر پایا۔ دریافت کیا کہ حضور! کیا ہوا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پریوں میں سے ایک جوان پری میرے پاس آئی اور مجھ سے سوال کیا کہ حیا کس کو کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا تو وہ سنتے ہیں موم کی طرح پگھل کر پانی ہوگئی۔ یہاں تک کہ میں نے اس پانی کو بھی دیکھا جو پری کے جسم کا تھا[17]۔

ملفوظات

  • آپ نے ارشاد فرمایا کہ عارف اپنے صفات و حسنات میں آفتاب کی طرح ہے جو سب پر روشنی ڈالتا ہے، وہ زمین کی مانند ہے جو تمام مخلوقات کا بار اٹھاتا ہے، پانی کی طرح ہے جس سے قلوب کی ذندگی حاصل ہوتی ہے اور وہ آگ کی طرح ہے کہ تمام جہان اس سے روشن ہوجاتا ہے۔
  • تصوف سے مراد تین امور ہیں اول تو یہ ہے کہ اس کی معرفت اور زہد و ورو کے نور کو بجھنے نہ دے، دوم ہی کہ باطنی علوم کے متعلق کوئی ایسی بات نہ نکالے جس سے کتاب ظاہرکا نقص ثابت ہو اور اس کی کرامت وہ کام کرے کہ لوگ حرام سے محفوظ و مامون رہیں۔
  • بڑھاپے سے پہلے کچھ کام کرلو کیونکہ ضعیف ہوکر کچھ نہ کرسکو گے۔ جیسے کہ میں نہیں کرسکتا اور آپ جس عمر میں یہ فرمارہے تھے اس وقت بھی آپ کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی جواب بھی آپ کی طرح عبادت نہیں کرسکتا تھا۔
  • امیر ہمسایوں ، بازاری قاریوں اور دولت مندوں عالموں سے دور رہو۔
  • جو اپنے نفس کی اصلاح سے عاجز ہے وہ دوسرے کو کیا ادب سکھائےگا۔
  • جس شخص کو نعمت کی قدر نہیں ہوتی اس کی نعمت وہاں سے زوال پذیر ہونا شروع ہوتی ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
  • جو رب تعالیٰ کا فرماں بردار ہوجاتا ہے سب اس کے فرماں بردار ہوجاتے ہیں۔
  • گناہ کا ترک تین قسم کا ہے ایک دوزخ ا خوف سے دوسرا بہشت کی رغبت سے اور تیسرا خدائے تعالیٰ کی شرم سے۔
  • بندہ اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک دین کو اپنی خواہش پر۔
  • سب سے زیادہ عاقل و فہیم وہ لوگ ہیں جو قرآن شریف کے اسرار کو سمجھتے ہیں اور ان اسرار میں غور و فکر کرتے ہیں۔
  • عارف وہ ہے جس کا کھانا بیماروں کے کھانے کی طرح ہو اور اس کا سونا سانپ کے کاٹے ہوؤں کی طرح ہو اور اس کا عیش پانی میں غرق شدگان کی طرح ہو۔
  • جو شخص اس بات کا آرزومند ہے کہ اس کا دین سلامت و محفوظ رہے اور اس کے جسم و روح دونوں کو راحت نصیب ہو اور فکر و غم میں کمی واقع ہو تو اس کو چاہیے کہ دنیا سے علیحدگی اختیارکرے۔
  • سب سے زیادہ بہادری یہ ہے کہ اپنے نفس پر قابو حاصل ہوجائے[18]۔

خلفائے کرام:

آپ کے خلفائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

حضرت ابوالقاسم سیدۃ الطائفہ جنید بغدادی

حضرت شاہ ابو محمد

حضرت شاہ عرف شیخ کبیر

حضرت شاہ حرتبون

حضرت شاہ ابوالعباس مظروف

حضرت شاہ ابو حمزہ

حضرت شاہ ابوالحسین نوری

حضرت شاہ فتح الموصلی

حضرت شاہ عبداللہ احرار

حضرت شاہ سعید ابرار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین[19]۔

واقعۂ وصال:

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوگئے تو میں آپ کی عیادت کو گیا آپ کے پاس ہی ایک پنکھا پڑا ہوا تھا میں نے اس کو اٹھالیا اور آپ کو جھلنے لگا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جنید! اسے رکھدو کیونکہ آگ ہوا سے زیادہ تیز اور روشن ہوتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے پھر آپ سے دریافت کیا کہ آپ کی کیا حالت ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: عَبْد مَمْلُوْک لا یَقْدِرُ عَلیٰ شئٍ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ کچھ وصیت فرمائیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ: خلق کی صحبت کی وجہ سے حق تعالیٰ سے غافل نہ ہونا اور اسی کلمے پر آپ کا وصال ہوگیا اور حق تعالیٰ کی رحمت سے مل گئے۔ اِنّا لِلہِ وَاِنّاَ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ

تاریخ وصال:

آپ کا وصال ۱۳ رمضان المبارک ۲۵۳؁ھ بروز منگل بوقت صبح صادق ۹۰ سال کی عمر میں بغداد شریف میں ہوا[20]۔ اور یہی مشہور ہے مگر بعغ نے ۳ رمضان ۲۵۰؁ھ بھی بتائی ہے۔

مزارمبارک:

آپ کا مزار مقدس بغداد شریف میں مقام شونیز میں ہے زیارت گاہ خلائق ہے۔

 

[1] سری کے معنی جوان مرد کے ہیں

[2] گرے پڑے میوے سمیٹ کر بازاز میں ارزاں بیچنے والا

[3] انوار صوفیہ ص ۱۰۴

[4] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۲

[5] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۱

[6] مسالک السالکین ج ۱ ض ۲۹۲

[7] کشف المحجوب ص ۱۷۴ وتاریخ اولیاء ج ۱ ص ۲۰۶

[8] عوارف المعارف ص ۱۸۷

[9] تذکرۃ الاولیاء ص۲۲۹

[10] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۲

[11] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۲و خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۷۹ و تذکرۃ اولیاء

[12] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۲و خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۷۹ و تذکرۃ اولیاء

[13] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۵

[14] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۳۵

[15] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۹۳

[16] روض الفائق ص ۱۶۹

[17] شجرۃ الکاملین ص ۱۳۶

[18] عوارف المعارف و تذکرۃ الاولیاء و مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۹

[19] شجرۃ الکاملین ص ۱۳۶

[20] عوارف المعارف و تذکرۃ الاولیاء و مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۹


متعلقہ

تجویزوآراء