حضرت سری بن المفلس سقطی
حضرت سری بن المفلس سقطی علیہ الرحمۃ
آپ پہلے طبقہ میں ہیں آپکی کنیت ابوالحسین ہے آپ حضرت جنید اور باقی تمام بغدادیوں کے استاذ ہیں ۔حارث محاسبی اور بشر حافی کے ہمعصر ہیں اور معروف کرخی ؒ کے شاگرد ہیں جو لوگ دوسرے طبقہ کے ہیں اکثر انکی طرف منسوب ہیں۔۳ رمضان المبارک منگل کی صبح کے وقت ۲۵۳ہجری میں انکا انتقال ہوا ہے۔حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں "مارایت اعبد من السری اتت علیہ سبعون سنۃ ما رانی مضطجعا الا فی علت الموت "یعنی میں نے سری سے بڑھ کر زیادہ کسی کو عابد نہیں دیکھا۔ستر (۷۰)سال ہوگئے کہ میں نے کبھی سوائے مرض موت کے انکو لیٹا ہوا نہیں دیکھا ۔حضرت جنید یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دن میں سری کے گھر میں آیا کیا دیکھتا ہوں کہ گھر میں جھاڑو دے رہے ہیں اور شعر پڑھ رہے ہیں اور روتے ہیں۔
لا فی النھار ولا فی اللیل فرح فلا ابالی اطال اللیل ام قصرا
یعنی مجھے نہ اب دن میں چین ہے نہ رات میں سو اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ راتیں لمبی ہوں یا چھوٹی ۔جب سری نزع کے وقت میں تھے تو جنیدؒ کہنے لگے"ایاک من صحبتہ الا شرار ولا نقطع عن اللہ بصحبتہ الا خیار "یعنی بروں کی صحبت سے بچو اور نیکوں کی صحبت میں بھی خدا سے قطع تعلق نہ کرنا ۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ حضرت جنیدؒ نے کہا ہے کہ ایک دفعہ سری سقطی کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھاایک قوم اکے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی مجھ کو کہا کہ دروازے پر کون ہےکوئی بیگانہ تو نہیں ہے میں نےکہا نہیں ایک درویش ہےکہ یہی مطلب ڈھونڈ تا ہے ،کہا کہ اسکو بلاؤ میں نے بلایا ۔ سری اس سے باتیں کرنے لگے اور دیر تک باتیں کرتے رہے باتیں ایسی آہستہ تھیں کہ مجھے کچھ معلوم نہ ہوتا تھا میں تنگ دل ہوگیا ۔آخر سری نے کہا کہ تم نے کسی کی شاگردی کی ہے انہوں نے کہا کہ ہرات میں ایک میرا استاذ ہےکہ نماز کے فرائض تو میں نے اسکو سکھلائے چاہے لیکن علم توحید میں وہ مجھے پڑھاتا ہے۔انہوں نے کہا کہجب تک یہ علم خراسان میں اپنے موقع پرہوگا تو سب جگہ ہوگا اور جب وہاں پر تمام ہوچکا تو پھر کہیں نہ ملے گا ۔سری نے کہا کہ معرفت اوپر سے اترتی ہے جس طرح جانور اڑتا ہے۔یہاں تک کہ جس دل میں شرم و حیاء دیکھتی ہے اسمیں اتر آتی ہے اور یہ بھی اس نے کہا ہے:"ہدایۃ المعرفۃ تجرید النفس للتفرید للحق "یعنی معرفت کا شروع نفس کا خدا کے لیے مجرد اور تنہا ہوتا ہے،یہ بھی کہا ہے:"من تزین للناس بما لیس فیہ سقط من عین اللہ عزوجل " یعنی جو شخص لوگوں کی خاطر اوصاف سے آراستہ ہوجو اس میں نہیں ہیں تو وہ خدا کی نظر سے گر جاتا ہےاور یہ بھی کہا ہے کہ میں طرسوس میں بیمار ہوگیا ایک جماعت طاہری زاہدوں کی کہ جن کا آنا مجھے گراں تھا میری عیادت کو آئے اور اتنی دیر تک بیٹھے کہ میں تنگ آگیا بعد ازاں مجھ سے دعا کے طلبگار ہوئے میں نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی "اللھم علمناک نعود المرضی "یعنی اے خدا ہم کو بیمار پرسی کا علم سکھادے کہ کیسے کرتے ہیں ۔حضرت جنید ؒ نے کہا کہ میں ایک دن سری سقطی کے پاس آیا مجھ کو ایک کام کہا میں نے وہ کردیا پھر میں انکے سامنے گیا مجھ کو ایک پرچہ کاغذ کا دیا اس میں لکھا ہو تھا ۔"سمعت حادیایحدد فی البادیۃ ویقول"
ابکی وما یدریک ما یبکینی ابکی حذاران تفار قینی
ونقطع حبلی و تھجر ینی (یہ شعر کتاب میں مکمل نہیں ہے توجہ فرمائیں)
یعنی میں نے ایک حدی خوان کو دیکھا جو جنگل میں یہ شعر پڑھتا ہے میں روتا ہوں اور تجھےکیا معلوم ہے کہ کیوں روتا ہوں میں اس ڈر سے روتا ہوں کہ تو مجھے چھوڑ دیگی اور میرے رشتہ محبت کو توڑ دیگی اور مجھ سے جدا ئی کرےگی۔
۳۵۔علی بن عبدالحمید غضائری رحمۃ اللہ علیہ
آپ متقدمین مشائخ میں سے ہیں آپ کے عجیب حالات اور بلند اعمال ہیں اور ابدال میں سے شمار کیے جاتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں نے سری سقطی کے دروازے کو کھٹکھٹایا تو میں نے سنا کہ وہ کہتے ہیں"اللہم من شغلنی عنک فاشغلہ ربک عنی"یعنی اے خدا جس شخص نے مجھے تجھ سے ہٹادیا اس کو مجھ سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول کرلے اور اسکی دعا کی برکت سے خدا تعالیٰ نے مجھے حلب سے چالیس (۴۰)حج نصیب کیے۔
(نفحاتُ الاُنس)