شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں
آغاز عشق ہمدم انجام تک نہ پہونچے
آغاز عشق ہمدم انجام تک نہ پہونچے
آجائے صبح ایسی پھر شام تک نہ پہونچے
میدان عاشقی میں چلنا سنبھل سنبھل کر
یہ دل لگی تمہاری الزام تک پہونچے
ملنا تو اس حسیں سے اک وہم ہے جنوں کا
لیکن یہ ظلم کیسا پیغام تک نہ پہونچے
منت کشی سے بہتر محرومیاں ہیں میری
اچھا ہوا جو بزمِ انعام تک نہ پہونچے
کس طرح اس نظر کو اخؔتر نظر کہوں میں
آغاز کو تو دیکھے انجام تک نہ پہونچے
...
شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے
شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے
رقص کرتے ہیں آج میخانے
کس کی یاد آگئی خدا جانے
آنکھ آنسو لگی جو برسانے
شمع رخ کے سبھی ہیں پروانے
ساقیا رند ہوں کے فرزانے
جذبۂ شوق کا خدا حافظ
صبر کے بھر گئے ہیں پیمانے
پی کے مے آج دے رہے ہیں دعا
ساقیا تجھکو تیرے مستانے
گریوں ہی برق بار بار آئی
ہر شجر پر بنیں گے کاشانے
گرد ساقی ہجوم تشنہ لباں
شمع کے گرد جیسے پروانے
آب دے کر نہ دے فریب شراب
پینے والے نہیں ہیں دیوانے
قطرۂ اشک بن گیا موتی
آہ دل سے بنے ہیں افسانے
رخ کبھی دیکھتے ہیں زلف کبھی
ہم بھی کیا ہوگئے ہیں دیوانے
پہلے بے ساختہ وہ ملتے تھے
رفتہ رفتہ لگے ہیں شرمانے
شکل جو چاہے دیکھ لے اخؔتر
آدمی دل کا حال کیا جانے
...
جب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی
جب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی
باخدا لذتِ زندگی مل گئی
مسکرائی کلی دل کے غنچے کھلے
تیرا غم کیا ملا زندگی مل گئی
دیکھ کر ان کو تشنہ لبی کیا بجھی
اور دیدار کی تشنگی مل گئی
غالباً کوئی جان بہار آگیا
ہر کلی کے لبوں کو ہنسی مل گئی
ان کے در پر جبیں کو جھکانا ہی تھا
گلشن قلب کو تازگی مل گئی
جب تمہارا تصور کیا رات میں
دل منور ہوا روشنی مل گئی
...
رندی میں کیوں خیال رہے اعتصام کا
رندی میں کیوں خیال رہے اعتصام کا
ساقی پھر ایک بار چلا دورجام کا
بے ساختہ تھے ملنے پر ایسا بدل گئے
دیتے نہیں جواب ہمارے سلام کا
تاریکئ وطن تو مٹی ہے مگر یہ کیا
صبح وطن میں رنگ ہے غربت کی شام کا
گستاخ کہہ کے چلدیئے ردسلام میں
کیا یہ صلہ ملا ہے مرے احترام کا
...
کیا ادائے نگاہِ ساقی ہے
کیا ادائے نگاہِ ساقی ہے
فرش پہ گر کے جام ٹوٹ گیا
دنیا کہنے لگی ہے دیوانہ
دامن صبر جب سے چھوٹ گیا
کج نگاہی سے یہ گمان ہوا
شیشۂ دل کسی کا ٹوٹ گیا
میرے ناصح نے جب انہیں دیکھا
دامن پندو وعظ چھوٹ گیا
ناامیدی کے ابر چھائے ہیں
بخت اخؔتر بھی آج ٹوٹ گیا
...
صرصرِغم ساتھ ہو یا شادمانی ہو رفیق
صرصرِغم ساتھ ہو یا شادمانی ہو رفیق
خاطرِ زندہ کبھی غمناک ہوسکتا نہیں
...
نہ رقص شیشہ ونے ساغر و پیمانہ میگردد
صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ میگردد