شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں  

شہید نازِ جاناں ہیں ادا ان کی سہانی ہے

شہید نازِ جاناں ہیں ادا ان کی سہانی ہے
تبسم ان کا فرمانا ہماری کامرانی ہے
کہاں تک تجھسے اظہار غم خاطر کروں ہمدم
مثالی میری تمہید محبت کی کہانی ہے
نہ کیوں نالاں عنادل ہون نہ کیوں بادخزاں آئے
کہ جب دست ستمگر میں چمن کی باغبانی ہے
شگفتہ ہے مرا زخم جگر آزاد جاناں سے
دلِ شوریدہ بھی اسکے تغافل کی نشانی ہے
ہے تیری نغمہ سخبی باعث صد کیف و کم اخؔتر
مثالی عندلیبان چمن یہ نغمہ خوانی ہے

...

آپ کی زلفِ گرہ گیر سے ڈر لگتا ہے

آپ کی زلفِ گرہ گیر سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو پیچ و خم تقدیر سے ڈر لگتا ہے
آمد صبح پیام شبِ دیجورنہ ہو؟
مجھ کو خورشید کی تنویر ڈر لگتا ہے
کم نگاہی پہ کہیں حرف نہ آئے اس کی
اپنے اس نالۂ شبگیر سے ڈر لگتا ہے
ہاں اُسی راز کا اخفاء ہے وبال ہستی
جس حسیں راز کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے
مٹ نہ جائے کہیں دنیا سے نشانِ ایماں
آج کے فتنۂ تکفیر سے ڈر لگتا ہے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کب تک
کیا تجھے خوبئ تدبیر سے ڈر لگتا ہے
جس سے قربت ہے وہی دور نظر آتا ہے
اتحاد شکر و شیر سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اس خواب سے کیوں اتنی خوشی ہے یارب
جس حسیں خواب کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اے جنوں زندگئ خضر میسر ہو تجھے
کب مجھے پاؤں کی زنجیر سے ڈر لگتا ہے
عشق نے ان کے عطا کی ہے یہ وحشت اخؔتر
مجھ کو خود اپنی ہی تصویر سے ڈر لگتا ہے

...

تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ

تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ
ذرا مسکرا تو دیجئے با ادائے دل ربانہ
لگے حسن ماہ پر بھی ذرا ایک تازیانہ
ذرا گلعذار چہرے سے نقاب تو ہٹانا
مرے جذبۂ محبت سے ہے باخبر زمانہ
جہاں سر جھکا دیا ہے وہیں ان کا آستانہ
ارے اودل شکستہ یہ ہے کیسی آہ ریزی
مجھے ڈر ہے جل نہ جائے کہیں ان کا آستانہ
انھیں بجلیوں کی زدپر مری حسرتیں ہیں یارب
جنھیں  سونپ دے رہا ہوں میں اب اپنا آشیانہ
میں بشر ہوں میرے شہپر کی اڑان کچھ نہ پوچھو
ہے فضا میں طائرانہ تو فلک پہ صاعقانہ
مجھے ان کی برق نظری نے عطا کی زندگانی
یہ غلط ہے بجلیوں کی ہے سرشت قاتلانہ
کوئی میرے دل سے پوچھے کہ یہ حسن کیا بلا ہے
یہ خرامِ حشر ساماں یہ ادائے کافرانہ
یہ خدا کی شان دیکھو ہے ہمیں کو حکم سجدہ
کبھی سجدہ گاہ عالم تھا ہمارا آستانہ
کہیں بجلیوں کی دھمکی کہیں آندھیوں کا کھٹکا
ہے اسی میں خیر اخؔتر کہ رہوں میں بے ٹھکانہ

...

ساتھیو بڑھ چلو عزم راسخ لئے یہ مصیبت کے طوفان ٹل جائیں گے

ساتھیو بڑھ چلو عزم راسخ لئے یہ مصیبت کے طوفان ٹل جائیں گے
گر کہیں عزم پر حرف آیا کوئی ہاتھ سے پھر کنارے نکل جائیں گے
مجھ کو ہے خوف اے میرے زہرہ جبیں تیرے چھپنے کی کوشش نہ ہو رائیگاں
یہ حجابات کتنے قوی ہی سہی گرمئ آہ سوزاں سے جل جائیں گے
بادۂ حب سے سرشار گرہیں تو کیا؟مست چشم فسوں کارگرہیں تو کیا؟
آپ کی ایک ٹھوکر کی بس دیر ہے خود بخود گرنے والے سنبھل جائیں گے
میرے جان چمن زینت انجمن بس ترے دم سے میرا چمن ہے چمن
گر کہیں تم چمن چھوڑ کر چل دیئے تو بہاروں کے رخ بھی بدل جائیں گے
اے مرے چارہ گر ہوش سے کام لے لے مری جان کا دم بدم نام لے
اس مسیحائے شیریں ادا کی قسم موت کے بھی ارادے بدل جائیں گے
اک تبسم نے ان کے یہ کیا کردیا لے لیا اپنے سر ہم نے ساری خطا
سوچتے تھے کہ پیش خدا حشر میں ان کا دامن پکڑ کر مچل جائیں گے
اتنا مجھ پر کرم آپ فرمائیے سامنے بے حجابانہ مت آئیے
ورنہ پیمان ہائے شکیب و سکوں آپ کو دیکھتے ہی اُبل جائیں گے
وقت نزع رواں بھی نہ گر آسکے میری بالیں پہ اخؔتر وہ جان سکوں
جاں نکلنے کو میری نکل جائے گی پھول ارماں کے لیکن مسل جائیں گے

...

جب کبھی وہ سرِ بازار نظر آتے ہیں

جب کبھی وہ سرِ بازار نظر آتے ہیں
ایک سے کافر و دیندار نظر آتے ہیں
دم میں دنیا کا مرقع ہیں بدلنے والے
یہ جنونی جو سردار نظر آتے ہیں
راس آئی نہ انھیں بندگی ہوش خِرد
تیرے دیوانے بھی ہشیار نظر آتے ہیں
درحقیقت تو انھیں بھی ہے محبت مجھ سے
ظاہراً تلخ بہ گفتار نظر آتے ہیں

...

پوشیدہ راز کو اب ہونٹوں پہ لارہا ہوں

پوشیدہ راز کو اب ہونٹوں پہ لارہا ہوں
میں داغہائے دل کو اپنے دکھا رہا ہوں
برق تپاں کی جرأت دیکھیں کہاں تلک ہے
اجڑا ہوا نشیمن پھر سے بسا رہا ہوں
اے مہربان مالی صیاّد کو خبر دے
اجڑا ہوا نشیمن پھر سے بسا رہا ہوں
بیٹھے ہوئے نشیمن میں مسکرانے والو
دیکھو  میں دار پر ہوں اور مسکرارہا ہوں
محدود اپنی رغبت گل تک نہیں ہے یارو
سینے سے خار کو بھی اپنے لگا رہا ہوں
لللہ اے ہواؤ مجھ کو ابھی نہ چھیڑو
جو مجھ سے پھر گیا ہے اس کو منا رہا ہوں
شاید کرم یہ میرے حسن خیال کا ہے
کعبے کا بھی اے اخؔتر قبلہ بنا رہا ہوں

...

اے مرے بیداد گر بیداد پر بیداد ہو

اے مرے بیداد گر بیداد پر بیداد ہو
تجھ سے کیا مطلب کہ کوئی شادیانا شاد ہو
نالہ وشیون میں سچ پوچھو تو ہے توہین غم
غم وہی اچھا ہے جو بے نالہ و فریاد ہو
غالباً طرز ستم اس نے بدل ڈالا ہے آج
اللہ اللہ مائل لطف و کرم صیاد ہو
عشق کہتے ہیں اسے یہ ہے تقاضہ عشق کا
لب پہ خاموشی رہے اور دل میں انکی یاد ہو
اس چمن میں میل و الفت کا گزر ممکن نہیں
جس چمن میں پھول رشکِ تیشہ فرہاد ہو
عین فطرت توڑنا ہے ظلم کی زنجیر کو
ہود ہوتا ہے یقیناً واں جہاں شداد ہو
میرے حق میں گلستاں اخؔتر قفس سے کم نہیں
کیوں نہ ایسا ہو اگر مالی ہی خود صیاد ہو

...

اے دوست میری فطرت شدت پسند کو

اختر کیراپی کے نام

 

اے دوست میری فطرت شدت پسند کو
آیا نہ راس ماتم آشفتہ خاطری
یہ نالہ و فغاں کا نہیں وقت بے خبر
دیکھ ہر طرف ہے شعلہ فشاں جنگ زرگری
جمہوریت کے نام پہ شخصی ضم کدے
اللہ رے فریب ترافن آزری
لیکن اٹھے گا ہے یہ یقیں اک خلیلِ خو
کھا کے رہے گی زنگ کسی دن یہ ساحری
مت فکر کر ہے دیر قدومِ کلیم کی
کب تک رہے گی شعبدہ بازئ سامری
مستانہ وارمایۂ ہستی لٹا کے دیکھ
ممکن نہیں پھر آنکھ کو بھائے سکندری
ہوتے ہیں اشک بھی کہیں مژدہ بہار کا
خون جگر سے ہوگی یہ کھیتی ہری بھری
کتنے ستارے موت کے دھارے میں بہہ گئے
تب جاکے بے حجاب ہوا حسن خاوری
ٹھوکر میں تخت و تاج ہے پتھر شکم یہ ہے
دیکھی نہیں ہے تو نے یہ شانِ قلندری
منت کشئ ساغر و مینا سے بازآ
ننگِ خودی ہے دوست یہ تیری گدا گری
للّٰلہ دیکھ چشم حقیقت شناس سے
پیارے اگر ہے کچھ تو اسی میں ہے بہتری
گر آرزو ہے تیری ملے زیست کا مزہ
طوفاں کی دیویوں کے گلے سے گلے ملا
مت توڑ فکر دور سے تو پشت حوصلہ
آلام کے پہاڑ سے اٹھ جوئے شیرلا

...

غبارپا کو مہر ضوفگن کہنا ہی پڑتا ہے

غبارپا کو مہر ضوفگن کہنا ہی پڑتا ہے
بتانِ خاک کوسیمیں بدن کہنا ہی پڑتا ہے
جن آنکھوں نے مسرت کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا
انھیں اب غیرت گنگ و جمن کہنا ہی پڑتا ہے
بہت چاہا کہ تجھسے مدعائے دل چھپا رکھوں
مگر مجبور ہو کر جان من کہنا ہی پڑتا ہے
یہ شیشہ اور یہ سنگِ گراں یہ دشت پیمائی
وفا کی راہ کو ہمت شکن کہنا ہی پڑتا ہے
ضیاء جو پھوٹتی ہے قطرۂِ اشک ندامت سے
اسے مہر درخشاں کی کرن کہنا ہی پڑتا ہے
الجھ کر جس کے پیچ و خم میں دل الجھا ہی رہ جائے
مجھے اس زلف کو دار و رسن کہنا ہی پڑتا ہے

...