تم ہو حسرت نکالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے
نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے
ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے
ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے
وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری
عیاں ہونے لگے انوارِ باری
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جَدِ اعلیٰ ہے ہمارا
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا
نظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا