ہم نے تقصیر کی عادت کرلی
ہم نے تقصیر کی عادت کر لی
آپ اپنے پہ قیامت کر لی
ہم نے تقصیر کی عادت کر لی
آپ اپنے پہ قیامت کر لی
کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے
اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے
آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے
جو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے
نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے
درِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے
نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے
کہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے
لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے
صدقے جاؤں میں تری انجمن آرائی کے
پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے
وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے